| Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
| Advertisement |
![]() |
|
|
Thread Tools | Display Modes |
|
(#81)
|
|
|||
|
وجہ نہیں ہو سکتی تھی۔ 142 ۔ یعنی فرعون کی باتیں سوچھ بوجھ کی باتیں نہیں تھیں اور نہ اس کی قیادت حق و انصاف اور عدل و راستی سے آشنا تھی مگر لوگ تھے کہ اسی کے پیچھے چلتے رہے اور اللہ کے رسول کی اتباع کے لیے آمادہ نہیں ہوۓ۔ 143 ۔ دنیا میں فرعون کو اس کی قوم نے قائد بنایا تھا لہٰذا قیامت کے دن بھی وہ اپنے قوم کی قیادت کرے گا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی قیادت میں نکلنے والا یہ جلوس سیدھا جہنم کی طرف روانہ ہوگا اور ہلاکت کے ایسے گڑھے میں گرے گا کہ پھر اس سے نکلنا ممکن نہ ہو گا۔ 144۔ سرکشوں کے انجام کی یہ تصویر جو قرآن نے پیش کی ہے قاری کو احوال قیامت کا مشاہدہ اس دنیا ہی میں کراتی ہے تاکہ وہ سبق لے ۔ مگر جن لوگوں نے سبق حاصل نہ کرنے کی قسم کھا لی ہے وہ تو جہنم میں پہنچ کر ہی سبق حاصل کریں گے !
|
| Sponsored Links |
|
|
|
(#82)
|
|
|||
|
145 ۔ یعنی کچھ بستیوں کے آثار تو اب بھی (نزول قرآن کے زمانہ میں ) باقی ہیں مثلاً ثمود کے آثار بالکل مٹ چکے ہیں مثلاً قوم نوح اور قوم لوط وغیرہ ۔ مگر آثار کے مٹ جانے سے ان کی تاریخ مٹ نہیں گئی بلکہ قرآن کے اندر محفوظ ہے تاکہ رہتی دنیا تک لوگ ان تاریخی واقعات سے عبرت حاصل کرتے رہیں ۔ 146 ۔ یعنی یہ قومیں اپنے دیوتاؤں اور بتوں کی پوجا اس لیے کرتی تھیں کہ وہ ان کو فائدہ پہنچائیں گے مگر جب اللہ کا عذاب آیا تو یہ اپنے پجاریوں کی کوئی مدد نہ کرسکے بلکہ ان کی پرستش ان کے پرستاروں کے لیے عذاب میں اضافہ ہی کا موجب بنی۔ اس سے ثابت ہوا کہ ان کے دیوتا اور بت پرست محض ڈھکوسلا تھے ۔ 147 ۔ یہ انسانی آبادیوں کے لیے انتباہ ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ماضی کے قصے ہیں اور ان پر کوئی عذاب آ نہیں سکتا بلکہ وہ بھی عذاب کی گرفت میں اسی طرح آ سکتی ہیں جو طرح ماضی کی قومیں آ گئیں ۔اور واقعہ یہ ہے کہ مختلف قسم کے عذابوں کا سلسلہ دنیا میں ظالم قوموں کے لیے جاری ہی ہے ۔
|
|
(#83)
|
|
|||
|
148 ۔ یعنی ان اہم ترین تاریخی واقعات میں جزاۓ آخرت کی دلیل موجود ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ قوموں کو ان کی سرکشی اور اسکے رسولوں کی نافرمانی پر سزا دیتا رہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے بندوں سے بے تعلق نہیں ہے بلکہ ان کے اعمال کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے لہٰذا دنیا کی تمام قوموں اور تمام انسانوں کو ان کے عمل کے مطابق جزا یا سزا دینے کے لیے قیامت کے دن اس کا عدالت برپا کرنا نہایت معقول بات ہے نیز ان واقعات میں عبرت کا یہ پہلو ہے کہ جب وہ سرکش قوموں کو دنیا میں ایسی سخت سزا دیتا رہا ہے تو آخرت کی سزا جہاں کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہو گی اس سے کہیں زیادہ سخت اور المناک ہو گی ۔ 149 ۔ یعنی وہ دن اللہ کے حضور پیشی کا دن ہو گا ۔ فرداً فرداً ہر شخص کو اس کے حضور حاضر ہو کر جو کچھ وہ دنیا میں کہتا اور کرتا رہا ہے اس کی جوابدہی کرنا ہو گی نہ کوئی فرد چھوٹے گا اور نہ کوئی قوم اور نہ شاہ اور نہ فقیر ۔
|
|
(#84)
|
|
|||
|
میں کہتا اور کرتا رہا ہے اس کی جوابدہی کرنا ہو گی نہ کوئی فرد چھوٹے گا اور نہ کوئی قوم اور نہ شاہ اور نہ فقیر ۔ 150 ۔ یعنی دنیا میں بولنے کی جو آزادی انسان کو میسر ہے قیامت کے دن اس پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ اس دن انسان کو مختلف مرحلوں سے گزرنا ہو گا اور جس مرحلہ اور جس موقع پر اسے بولنے کی اجازت دی جاۓ گی اسی وقت وہ بول سکے گا ورنہ مجال نہ ہو گی کہ وہ اپنی زبان کھول سکے ۔ 151 ۔ یعنی لوگ درجہ کے فرق کے ساتھ دو گروہوں میں تقسیم ہوں گے ۔ ایک وہ جس نے خیر اور سعادت کی راہ اختیار کی تھی اور اللہ کی رحمت سے وہ سعادت مند ہوا ۔ اور دوسرا وہ جس نے شر اور بد بختی کی راہ اختیار کی تھی اور وہ برے انجام کو پہنچ گیا۔ واضح رہے کہ لوگوں کی یہ تقسیم اور ان کا انجام ایمان اور کفر کے لحاظ سے ہے کیوں کہ موقع کلام اسی کا متقاضی ہے ۔ رہا ان لوگوں کا معاملہ جو ایمان لا کر گناہوں کے مرتکب ہوۓ ہوں گے تو اس سلسلہ میں قرآن کی دوسری آیتوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔
|
|
(#85)
|
|
|||
|
دوسری آیتوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔ 152 ۔ یعنی دوزخ میں ان کو ایسی سخت تکلیف ہو گی کہ دھاڑیں ماریں گے ۔ 153 ۔ مراد آخرت کے آسمان و زمین ہیں کیونکہ قیامت کے دن جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے زمین و آسمان بدل جائیں گے ۔ اور قرآن کی صراحت مطابق عالم آخرت دائمی ہے اس لیے اس کے آسمان و زمین بھی دائمی ہوں گے ۔ 154 ۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے قرآن میں یہ ارشاد کی ’’ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے ‘‘ ۔ (النحل 93) ظاہر ہے اس سے اس کے اختیار کو واضح کرنا مقصود ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اللہ کی مشیت میں کوئی مداخلت کرنے والا نہیں ہے وہ مختار ہے اگر وہ ان دوزخیوں کے بارے میں کوئی اور فیصلہ کرنا چاہے تو اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے کیس فیصلہ کو عمل میں لانے کے لیے اس کی مشیت کافی ہے ۔
|
|
(#86)
|
|
|||
|
مشیت کافی ہے ۔ 155۔ یعنی نیک بخت ہمیشہ جنت میں رہیں گے جب تک کہ عالم آخرت کے آسمان و زمین قائم ہیں اور ان کا دائمی طور پر جنت میں رہنا اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی ہے ورنہ اس فیصلہ کے لیے اس کو کسی نے مجبور نہیں کیا ہے ۔ وہ اگر چاہے تو کوئی اور فیصلہ کر سکتا ہے مگر اس کی مشیت یہ ہے کہ ان کو ایسی بخشش سے نوازا جاۓ کہ یہ سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو اور نعمتوں کی بارش ان پر ہمیشہ ہوتی رہے ۔ رحمت کے جو چشمے ان کے لیے جاری ہوں گے وہ کبھی خشک ہونے والے نہیں ۔ 156 ۔ یعنی دنیا کے فوائد میں ان کا جو حصہ ہے وہ بھی انہیں ملے گا اور ساتھ ہی اپنے عمل کا نتیجہ بھی انہیں بھگتنا ہو گا۔ ہم نہ انہیں مادی فائدہ پہنچانے میں کاٹ کسر کریں گے ۔ اور نہ اس عذاب میں کوئی کمی کریں گے جس کے وہ مستحق ہیں ۔
|
|
(#87)
|
|
|||
|
157 ۔ یہاں مشرکین مکہ کے اس شک کا ازالہ کرنا مقصود ہے جو انہیں قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کے بارے میں تھا ۔ ان پر واضح کیا جارہا ہے کہ قرآن کوئی پہلی کتاب نہیں ہے جو لوگوں کی رہنمائی کے لیے بھیجی گئی ہو بلکہ اس سے پہلے بھی کتابیں بھیجی جاتی رہی ہیں چنانچہ موسیٰ کو بھی کتاب دی گئی تھی ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے پیروؤں نے اس اختلاف کر کے اسکو اپنی اصل شکل میں باقی رہنے نہیں دیا ۔ اس صورت حال کا تقاضا تھا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے ایک اور کتاب بھیجے ۔ اسی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو یہ کتاب دے کر بھیجا ہے اس لیے اس کا نزول تمہارے لیے باعث اطمینان ہونا چاہیے نہ کہ باعث تردد۔
|
|
(#88)
|
|
|||
|
اس حقیقت کے باوجود اگر لوگ شک ہی میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں تو رہیں ایسے لوگوں کی قسمتوں ک فیصلہ کبھی کا چکا دیا گیا ہوتا مگر ایسا اس لیے نہیں کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ طے کر چکا ہے کہ ہر قوم کو مہلت عمل دی جاۓ گی۔ اس کے اسی فرمان کے مطابق ان لوگوں کو بھی ایک وقت خاص تک ڈھیل دی جا رہی ہے ۔ 158 ۔ یعنی اطاعت و بندگی کے دائرہ میں رہو اس اسسے تجاوز کر کے اللہ کی نافرمانی نہ کرو۔ 159 ۔ یہاں ظالموں سے مراد جیسا کہ اوپرسے سلسلہ بیان چال آ رہا ہے مشرک ، کافر اور سرکش لوگ ہیں اور انکی طرف جھکنے سے مراد شرک ، کفر اور معصیت کے کاموں میں ان کی تائید کرنا ہے خواہ یہ تائید زبان سے ہو یا عمل سے ۔
|
|
(#89)
|
|
|||
|
159 ۔ یہاں ظالموں سے مراد جیسا کہ اوپرسے سلسلہ بیان چال آ رہا ہے مشرک ، کافر اور سرکش لوگ ہیں اور انکی طرف جھکنے سے مراد شرک ، کفر اور معصیت کے کاموں میں ان کی تائید کرنا ہے خواہ یہ تائید زبان سے ہو یا عمل سے ۔ اس ممانعت کے پیش نظر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مشرکوں ، کافروں اور خدا بیزار لوگوں کے معاملہ میں اپنے دلوں میں کوئی نرم گوشہ نہ رکھیں اور نہ ان کو خوش کرنے کے لیے ان کے مشرکانہ رسوم میں یا ان کی مجلسوں میں جو انسان کو ہدایت خداوندی سے بے تعلق ہونے اور اسے بے دینی پر آمادہ کرنے کے لیے ہوں شرکت کریں سرنہ شرک اور کفر سے ساز گاری پیدا کرنے کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ وہ اپنا ایمان ہی کھو بیٹھیں ۔
|
|
(#90)
|
|
|||
|
شرک اور کفر سے ساز گاری پیدا کرنے کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ وہ اپنا ایمان ہی کھو بیٹھیں ۔ 160 ۔ یعنی خوب یاد رکھو کہ یہ ظالم جن کی طرف اگر تم جھک گیے تو وہ قیامت کے دن تمہارے کچھ کام آنے والے نہیں ۔ اس دن گو جو بھی خدا کی گرفت میں آۓ گا وہ بے یار و مدد گار ہو کر رہ جاۓ گا۔ 161 ۔ دن کی دونوں سروں پر نماز قائم کرنے سے مراد فجر اور مغرب کی نمازیں ہیں ۔ کسی چیز کا کنارا اس کی حد ہوتی ہے ۔ دن کی حد کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جہاں رات ختم ہو جاتی ہے ۔ یہ فجر کا وقت ہے ۔ اور دن کی حد جہاں ختم ہوتی ہے وہ مغرب کا وقت ہے ۔ اور رات کی گھڑیوں میں نماز قائم کرنے سے مراد عشاء کی نماز ہے ۔ زُلَف (گھڑیان) جمع کا صیغہ عشاء کے وقت طوالت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ یہ تین وقت کی نمازیں ہوئیں جن کی تاکید مکہ کے اس دور میں کی گئی جس میں یہ سورہ نازل ہوئی تھی اس کے بعد پانچ وقت کی نمازوں کا حکم نازل ہوا۔
|
![]() |
| Bookmarks |
| Tags |
| دعوت, ہود |
|
|
Similar Threads
|
||||
| Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
| دعوت القرآن/سورۃ 2:البقرۃ | life | Quran | 98 | 08-13-2012 03:23 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 1:الفاتحۃ | life | Quran | 7 | 08-13-2012 03:23 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 7:الاعراف | life | Quran | 10 | 08-13-2012 03:12 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 9:التوبۃ | life | Quran | 180 | 08-13-2012 03:11 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 10:يونس | life | Quran | 93 | 08-13-2012 03:07 AM |