| Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
| Advertisement |
![]() |
|
|
Thread Tools | Display Modes |
|
|
|
(#1)
|
|
|||
|
108 ۔ اور جو نیک بخت ہوں گے وہ جنّت میں جائیں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں مگر جو تمہارا رب چاہے یہ ایسی بخشش ہو گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا (155) ۔ 109۔ تو تم ان معبودوں کے بارے میں کسی شک میں نہ پڑو جن کی یہ پرستش کر رہے ۔ یہ اسی طرح پوجا کر رہے ہیں جس طرح ان سے پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے ۔ اور ہم ان کا حصہ ان کو پورا پورا دیں گے کسی کمی کے بغیر (156)۔ 110 ۔ ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی مگر اس میں اختلاف کیا گیا ۔ اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ کر دی گئی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا گیا ہوتا ۔ اور یہ لوگ اس (قرآن) کی نسبت شک میں پڑے ہوۓ ہیں جس نے انہیں الجھن میں ڈال دیا ہے (157)
|
| Sponsored Links |
|
|
|
(#2)
|
|
|||
|
111۔ اور یقیناً تمہارا رب ہر ایک کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دے گا ۔وہ ان کے اعمال سے پوری طرح با خبر ہے ۔ 112 ۔ پس تم راہِ راست پر جمے رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے نیز وہ لوگ بھی جو توبہ کر کے تمہارے ساتھ ہو گئے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو (155) ۔ تم جو کچھ کرتے ہوا سے وہ دیکھ رہا ہے ۔ 113 ۔ اور ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی (159) اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست نہ ہو گا اور نہ تمہاری مدد ہی کی جاۓ گی ۔ (160) 114 ۔ اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور رات کی گھڑیوں میں (161) ۔ یہ یاد دہانی ہے یاد دہانی حاصل کرنے والوں کے لیے ۔ 115 ۔ اور صبر کرو (163) کہ اللہ ان لوگو ں کا اجر ضائع نہیں کرتا جو حسن و خوبی کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔
|
|
(#3)
|
|
|||
|
111۔ اور یقیناً تمہارا رب ہر ایک کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دے گا ۔وہ ان کے اعمال سے پوری طرح با خبر ہے ۔ 112 ۔ پس تم راہِ راست پر جمے رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے نیز وہ لوگ بھی جو توبہ کر کے تمہارے ساتھ ہو گئے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو (155) ۔ تم جو کچھ کرتے ہوا سے وہ دیکھ رہا ہے ۔ 113 ۔ اور ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی (159) اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست نہ ہو گا اور نہ تمہاری مدد ہی کی جاۓ گی ۔ (160) 114 ۔ اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور رات کی گھڑیوں میں (161) ۔ یہ یاد دہانی ہے یاد دہانی حاصل کرنے والوں کے لیے ۔ 115 ۔ اور صبر کرو (163) کہ اللہ ان لوگو ں کا اجر ضائع نہیں کرتا جو حسن و خوبی کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔
|
|
(#4)
|
|
|||
|
115 ۔ اور صبر کرو (163) کہ اللہ ان لوگو ں کا اجر ضائع نہیں کرتا جو حسن و خوبی کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔ 116 ۔ پھر کیوں نہ ایسا ہوا کہ جو قومیں تم سے پہلے گزر چکیں ان میں سے اہلِ خیر نکلتے جو زمین میں شر و فساد (پھیلانے ) سے روکتے جز ان تھوڑے سے لوگوں کے جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا (164) ورنہ ظالمانہ طرزِ عمل اختیار کرنے والے تو اسی سامان عیش کے پیچھے پڑے رہے جو انہیں دیا گیا تھا اور وہ مجرم بن کر رہے (165) ۔ 117 ۔ اور تمہارا رب ایسا نہیں ہے کہ وہ آبادیوں کو ناحق ہلاک کر دے جب کہ ان کے باشندے اصلاح کر نے والے ہوں ۔ 118 ۔ اگر تمہارا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امّت بنا دیتا مگر وہ اختلاف کرتے رہیں گے ۔ (166) ۔ 119۔ اس سے بچیں گے وہی لوگ جن پر تمہارا رب رحم فرماۓ (167) اور اسی لیے تو اس نے انہیں پیدا کیا ہے (168) ۔ اور تمہرے رب کی بات پوری ہو کر رہی کہ میں جہنم کو جن اور انسان سب سے بھر دوں گا ۔(169) ۔ 120 ۔ اور ہم رسولوں کی جو سرگزشتیں تمیہں سناتے ہیں تو ان کے ذریعہ تمہارے دل کو مضبوطی عطاء کرتے ہیں ۔ ان کے اندر تمہیں حق مل گیا اور مومنوں کو نصیحت اور یاد دہانی ہوئی ۔ 121 ۔ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان سے کہو کہ تم اپنی جگہ عمل کرو ہم اپنی جگہ عمل کرتے رہیں گے ۔ 122۔ اور تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں ۔ 123 ۔ آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ ہی کے لیے ہے اور سارے معاملات اسی کی طرف لوٹاۓ جاتے ہیں تو اسی کی تم عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو ۔تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے تمہارا رب بے خبر نہیں ۔
|
|
(#5)
|
|
|||
|
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تفسیر 1۔ ان حروف کی تشریح سورہ یونس نوٹ 1 میں گزر چکی ۔ 2۔ جس طرح آسمان و زمین کا نظام مضبوط بنیادو پر قائم کیا گیا ہے اسی طرح اس کتاب میں جو آیتیں ارشاد ہوئی ہیں وہ نہایت مضبوط دلائل ، ٹھوس حقائق ، اعلیٰ تعلیمات، عالمگیر صداقتوں اور عادلانہ قانون زندگی پر مبنی ہیں اس لے ان میں نقص کا کئی پہلے نہیں ہے اور جس طرح اس کے مضامین جچے تلے ہیں اسی طرح اس کے الفاظ نہایت موزوں (Most Appropriate) اور ان بندش معنی خیز ہے ۔ گویا ہر لفظ اپنے مقام پر جڑا ہوا ہیرا ہے جس کا بدل کوئی دوسرا لفظ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کا صحیح وہی لوگ کر سکتے ہیں جو عربی زبان کا ذوق رکھتے ہوں ۔ مثال کے طور پر قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَد (کہا اللہ یکتا ہے ) میں احد (یکتا) کا لفظ موزوں ترین لفظ ہے اس کی جگہ اگر کوئی شخص واحد (ایک) کا لفظ تجویز کرنا چاہے تو اس سے معنیٰ میں بھی فرق آۓ گا اور روانی میں بھی ۔ اسی طرح حمد کا لفظ تعریف اور شکر دونوں کا جامع ہے لیکن اگر کوئی شخص الحمد للہ (اللہ کے لیے حمد ہے ) کی جگہ الشکر اللہ (اللہ کے لیے شکر ہے ) کی ترکیب تجویز کرے تو جامعیت باقی نہیں رہے گی ۔ غرضیکہ یہ کلام ایسا مربوط اور مضبوط ہے کہ کوئی معقول انسان نہ تو اس کے کسی لفظ پر انگلی رکھ سکتا ہے اور نہ اس کی پیش کردہ تعلیمات میں کسی نقص کی نشاندہی کرسکتا ہے ۔
|
|
(#6)
|
|
|||
|
قرآن کی یہ امتیازی خصوصیت ہے اور دنیا کی کوئی کتاب بھی یہ شمول مذاہب عالم کی ’’مقدس‘‘ کتابوں کے اس خصوصیت کی حامل نہیں ہے ۔ 3۔ قرآن کی ابتدائی سورتوں میں اجمال کے ساتھ مختصر فقروں میں ربانی تعلیمات کو پیش کیا گیا ہے لیکن بعد کی سورتوں میں ان کی تشریح و تفصیل اور ان کے تقاضے بیان کیے گیے ہیں ۔ مثال کے طور پر سورہ اخلاص میں توحید کا مضمون نہایت اختصار کے ساتھ بیان ہوا ہے لیکن سورہ انعام اور سورہ یونس میں شرح و بسط کے ساتھ۔ سورہ فجر میں عاد و ثمود کے واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن سورہ ہود اور سورہ اعراف میں یہ واقعات تفصیل سے بیان ہوۓ ہیں ۔ سور غاشیہ میں جنت و دوزخ کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے لیکن سورہ واقعہ اور سورہ رحمٰن میں تفصیل سے ۔ سورہ اعلیٰ میں نماز کا حکم مجملاً دیا گیا ہے لیکن سورہ بنی اسرئیل ، سورہ بقرہ اور سور نساء میں اس کے تفصیلی احکام بیان ہوۓ ہیں ۔ اس طرح قرآن اپنی تفسیر آپ کرتا ہے ۔ 4۔ قرآن کی آیتوں کا محکم اور مفصل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کلام انسان کا کلام نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے جس کی ہر بات حکیمانہ ہوتی ہے اور جو تمام حالات سے با خبر ہے ۔
|
|
(#7)
|
|
|||
|
5۔ یہ ہے قرآن کا انسان سے اولین مطالبہ۔ اللہ کو واحد معبود مان کر صرف اسی کی عبادت کرنا وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کے لیے انسان کی تخلیق ہوئی ہے ۔ عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے رب کے حضور خضوع و خشوع کا اظہار کرے ۔ امام رازی لکھتے ہیں : ’’عبادت سے مراد خضوع و خشوع اور انتہائی تواضع و تذلل(پستی و فروتنی) کا اظہار کرنا ہے اور یہ بات سواۓ اس ہستی کے جو خالق ، مدبّر ، رحیم اور محسن ہے کسی اور کے لیے زیبا نہیں ہے ۔‘‘(التفسیر الکبیر ، ج 17 ص 180) آدمی اگر واقعی اللہ کے حضور اپنی پستی اور فروتنی کا اظہار کرے اور پنے کو عاجزی کرنے والے بندے کی حیثیت سے پیش کرے تو ہو نہیں سکتا کہ وہ عملی طور پر اس کا سرکش اور باغی بن جاۓ۔ عبادت اور سرکشی دو بالکل متضاد چیزیں ہیں ۔ جو شخص واقعی اللہ کی عبادت کرنے والا ہوگا وہ لازماً اس کی اطاعت اختیار کرے گا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ فاتحہ نوٹ 7) ۔
|
|
(#8)
|
|
|||
|
6۔ یعنی کفر و سرکشی اور فسق و معصیت کے برے انجام سے خبردار کرنے والا ہوں ۔ 7 ۔ یعنی ایمان و یقین اور اطاعت و نیک روی کے اچھے نتائج کی خوش خبری دینے والا ہوں ۔ 8 ۔ یعنی جو شرک تم کرتے رہے ہو اور معصیت کی جو زندگی گزارتے رہے ہو اس پر اللہ سے معافی مانگو اور آئندہ کے لیے اپنا رویہ درست کر لو اور وہ اس طرح کہ ہر حال میں اس کی طرف رجوع کرنے اور اس کا بندہ بن کر زندگی گزارنے کا طریقہ اختیار کرو ۔ 9 ۔ یعنی اس صورت میں اللہ تمہیں دنیا کی بہترین نعمتوں سے نوازے گا۔ اور بعد کے واقعات نے قرآن کے اس وعدہ کی تصدیق کی چنانچہ جو لوگ شرک سے تائب ہو کر ایمان لے آۓ اور نیک روی اختیار کی ان کی دنیا بگڑی نہیں بلکہ سنورگئی اور ان پر نعمتوں کی وہ بارش ہوئی جس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ 10 ۔ یعنی ایک مؤمن عملاً اپنے کو جس درجہ کو مستحق ثابت کر دکھاۓ گا اس کو اللہ تعالیٰ اس درجہ کی عزت و سرفرازی عطا فرماۓ گا۔ 11 ۔ مراد قیامت کا دن ہے ۔
|
|
(#9)
|
|
|||
|
12 ۔ سینوں کو موڑنا عربی زبان کا محاورہ ہے جس کے معنی اعراض کرنے کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن سے اعراض کر کے سمجھ رہے ہیں کہ اللہ ان کی ان حرکتوں سے بے خبر ہے حالانکہ اللہ کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں ۔ اگر ان کو اس کا شعور ہوتا تو وہ اللہ کا کلام سننے سے اعراض نہ کرتے ۔ 13 ۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ہر شخص کے مشاہدہ اور تجربہ میں آتی ہے ۔ زمین کا کوئی جاندار خواہ وہ چرند ہو یا پرند، ماہی ہو یا چیونٹی اور انسان ہو یا حیوان سب اپنے اپنے حصہ کا رزق پاتے ہیں ۔ یہ رزق اگر چہ اسباب کے تحت ملتا ہے لیکن ان اسباب کو پیدا کرنے والا اور ان کے ذریعہ رزق رسانی کا ایسا انتظام کرنے والا کہ کوئی بھی جاندار جب تک کہ اس کے لیے جینا مقدر ہے رزق سے محروم نہ رہنے پاۓ ایک اللہ کے سوا کس کا کام ہے ؟کیا رزق رسانی کا یہ ہمہ گیر انتظام اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس نے زندگی بخشی ہے وہی زندگی کے بقاء کا بھی سامان کر رہا ہے ۔؟ اور کیا اس واضح دلیل کے بعد شرکاور الحاد کی تردید کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟ 14 ۔ یعنی اللہ کو تمام جزئیات کا علم ہے ۔ ہر جاندار کے رہنے ٹھکانا بھی اسے معلوم ہے اور وہ ٹھکانا بھی جہاں وہ مرنے کے بعد سونپ دیا جاتا ہے ۔
|
|
(#10)
|
|
|||
|
15 ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یونس نوٹ 94 16 ۔ اس کی تشریح سورہ اعراف نوٹ 82 میں گزر چکی۔ 17 ۔ یعنی آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے پانی پیدا فرمایا تھا۔ تورات میں یہ بات اس طرح بیان ہوئی ہے : ’’خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی۔‘‘(پیدائش 1 : 2 ) اصل تورات میں وہی بات بیان ہوئی ہو گی جو قرآن میں ارشاد ہوئی ہے لیکن تورات کے مترجمین نے بات کو الجھا دیا۔ عرش کے معنیٰ تخت سلطنت کے ہیں جس کی نوعیت ہمیں نہیں معلوم البتہ اس سے اللہ کی فرمان روائی کا تصور قائم ہوتا ہے ۔ مطلب یہ ہے ۔۔۔۔ اور اللہ ہی اپنے کلام کے اسرار کو بہتر جانتا ہے ۔۔۔ کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے جب کہ پانی ہی پانی تھا اللہ کی حکومت اس پر قائم تھی۔ اسی کے حکم سے پانی نے ارتقائی شکلیں اختیار کر لیں چنانچہ خشکی کا ظہور ہوا اور پھر بتدریج مختلف انواع وجود میں آئیں ۔ قرآن میں دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے : وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ(الانبیاء 30 ) ۔’’ اور ہم نے پانی سے تمام جاندار چیزیں پیدا کیں ۔‘‘ 18 ۔ یہ ہے وہ مقصد جو اس کائنات کی تخلیق کے پیچھے کار فرما رہا ہے یعنی انسان کو امتحان گاہ میں کھڑا کر دیا گیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ایسے افراد منتخب فرماۓ جو عملاً اپنے بہتر ثابت کر دکھائیں اور پھر ان کو ابدی نعمتوں سے نوازے ۔
|
![]() |
| Bookmarks |
| Tags |
| دعوت, ہود |
|
|
Similar Threads
|
||||
| Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
| دعوت القرآن/سورۃ 2:البقرۃ | life | Quran | 98 | 08-13-2012 03:23 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 1:الفاتحۃ | life | Quran | 7 | 08-13-2012 03:23 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 7:الاعراف | life | Quran | 10 | 08-13-2012 03:12 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 9:التوبۃ | life | Quran | 180 | 08-13-2012 03:11 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 10:يونس | life | Quran | 93 | 08-13-2012 03:07 AM |