| Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
| Advertisement |
![]() |
|
|
Thread Tools | Display Modes |
|
|
|
(#1)
|
|
|||
|
101 ۔ ابراہیم علیہ السلام کی بیوی مہمانوں کی خدمت کے لی قریب ہی کھڑی تھی۔ اس نے جب سنا کہ یہ فرشتے ہیں اور ابراہیم کو بیٹے کی بشارت دے رہے ہیں تو اسے بے اختیار ہنسی آئی کیونکہ بڑھاپے میں بچے کی پیدائش کی خبر تعجب میں ڈالنے والی تھی۔ واضح رہے کہ خوش خبری دینے کا یہ واقعہ یہاں اختصار کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔ سورہ ذاریات میں ہے کہ فرشتوں نے لڑکے کی ولادت کی خوش خبری ابراہیم کو سنائی تھی اور اس پر ان کی بیوی نے تعجب کا اظہار کرتے ہوۓ کہا تھا کہ میں بڑھیا بانجھ ہوں ۔ اس لیے اس آیت میں ان کی بیوی کے ہنسنے کا جو ذکر ہے اس کا تعلق اسی خوش خبری سے ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی اور جب وہ تعجب سے ہنس پڑی تو اسے مزید یہ خوش خبری دی گئی کہ تمہارے گھر نہ صرف بیٹا پیدا ہوگا بلکہ اس کے بعد پوتا بھی پیدا ہوگا۔ ابراہیم کی بیوی کا نام سارہ تھا اور اس وقت تک ان کے کوئی اولاد نہیں تھی یہ قصہ بائبل کی کتاب پیدائش باب 18 میں بھی بیان ہوا ہے مگر رنگ آمیزی کے ساتھ ۔
|
| Sponsored Links |
|
|
|
(#2)
|
|
|||
|
102 ۔ بات تعجب کے اظہار کے لیے انہوں نے نسانی انداز میں کہی ایسے موقع پر لفظی معنی مراد نہیں ہوتے ۔ 103 ۔ بائبل میں ہے کہ اس وقت ابراہیم کی عمر سو سال اور سارہ کی عمر نوے (90) سال تھی(پیدائش 17:17) بڑھاپے کی اس عمر میں بیٹے کی سلادت کی خوش خبری ملنے پر حضرت سارہ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوۓ یہ بات کہی تھی تا کہ فرشتے مزید وضاحت کریں اور بات منقح ہو جاۓ۔ انہوں نے شک کے طور پر یہ بات نہیں کہی تھی ۔ 104 ۔ فرشتوں نے حضرت سارہ کے تعجب کو دور کرنے کے لیے ایک بات تو یہ فرمائی کہ اللہ کا کوئی حکم قابل تعجب نہیں ہے دوسری بات یہ فرمائی کہ تم نبی کے گھر والے ہو جن پر اللہ کی خاص عنایات ہیں اس لیے اگر اس نے تمہارے بڑھاپے کے باوجود تمہیں اولاد عطاء کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے تو اس کو اس کا فضل خاص سمجھنا چاہیے اور تیسری بات یہ فرمائی کہ وہ خوبیوں والا ہے اس کا ہر کام خوبی کا ہوتا ہے اور وہ بڑی شان والا ہے اس لیے اس کے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ہر فیصلہ سے خدائی کی شان کا اظہار ہوتا ہے ۔ ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ’’ اہل بیت ‘‘ میں بیوی بھی شامل ہے کیونکہ یہاں ابراہیم علیہ السلام کو خطاب کر کے فرشتوں نے اہل بیت کہا ہے ۔ اہل بیت کے اس واضح مفہوم کے باوجود مسلماوں کا ایک فرقہ ایسا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں آپ کی ازواج مطہرات کو شامل نہیں سمجھتا ۔ ظاہر ہے یہ اس کے معنی سے کھلا انحراف ہے ۔
|
|
(#3)
|
|
|||
|
کھلا انحراف ہے ۔ 105 ۔ یہ حجت اللہ تعالیٰ سے اپنی بات منوانے کے مفہوم میں نہیں تھی بلکہ ایک درد مندانہ درخواست تھی۔ عذاب کی خبر سن کر ابراہیم علیہ السلام کو ایک تو یہ تشویش ہوئی کہ اس قوم کے درمیان اللہ کا پیغمبر لوگ موجود ہے چنانچہ سورہ عنکبوت (آیت 32 ) میں ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول نقل ہوا ہے : اِنَّ فِیْھَا لُوْطاً ’’ اس میں لوط موجود ہیں ‘‘۔ دوسرے وہ یہ خیال کر رہے تھے کہ اس قوم میں سے کچھ لوگ تو ضرور ایمان لاۓ ہوں گے اور اگر اللہ تعالیٰ ے اس قوم کو مزید مہلت دی ممکن ہے اور لوگ بھی ایمان لے آئیں چونکہ ابراہیم علیہ السلام کو حالات کا پوری طرح علم نہیں تھا اس لیے وہ امکانی باتوں کے پیش نظر فرشتوں سے حجت کرتے رہے جس سے ان کی انسانی ہمدردی اور نرم دلی کا اظہار ہوتا ہے لیکن جیسا کہ آگے آیت 76 میں بیان ہوا ہے فرشتوں نے انہیں بتایا کہ اس مسئلہ پر حجت کرنا بے سود ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ قوم لوط پر عذاب کا فیصلہ صادر فرما چکا ہے ۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب کا فیصلہ اسی وقت فرابا ہے جب کہ اس کے اندر سے مزید ایسے لوگوں کے نکلنے کا امکان باقی نہ رہا ہو جو ایمان لے آئیں ۔
|
|
(#4)
|
|
|||
|
فرشتوں سے ابراہیم کی اس حجت کا ذکر بائبل میں تفصیل سے ہوا ہے (پیدائش باب 18) 106 ۔ یعنی ابراہیم میں چونکہ یہ خوبیاں تھیں اس لیے اس نے قوم لوط کے سلسلہ میں درد مندی کا ثبوت دیا اور عذاب کو ٹالنے کے لی اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ التماس کی۔ 107 ۔ لوط کی سرگزشت مختصراً سورہ اعراف آیت 80 تا 84 میں گزر چکی ۔ اس موقع پر اس کے تشریحی نوٹ 127 تا 133 پیش نظر رہیں ۔ 108 ۔ یعنی فرشتے جب ابراہیم کے پاس سے رخصت ہو کر لوط کے پاس پہنچے تو انہیں بڑی تشویش ہوئی اور کبیدہ خاطر ہوۓ ۔ واقعہ یہ ہے کہ فرشتے لوگ کے پاس انسانی روپ میں پہنچے تھے اور غالباً خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تاکہ قوم لوط جس بد کاری میں مبتلا تھی اس کے لیے آزمائش ہو اور مجرموں کو موقع واردات پر پکڑا جاۓ۔ اس مقصد کے پیش نظر انہوں نے لوط علیہ السلام پر بھی اپنا فرشتہ ہونا ظاہر نہیں کیا
|
|
(#5)
|
|
|||
|
ا اس لیے انہوں نے سمجھا کہ یہ مسافر ہیں ۔ اور میرے گھر مہمان کے طور پر آۓہیں اور مہمان کی عزت و تکریم تو ایمان کا تقاضا ہے لیکن قوم ایسی ناہنجار ہے کہ مسافوں کو اغواء کر لے جاتی ہے ۔ وہ ان نوجوانوں پر بھی دست درازی کرے گی اور گھناونی خواہشات کو پورا کرنا چاہے گی۔ اس خیال نے ان کے دل و دماغ کواس قدر متاثر کر دیا کہ وہ نہایت دلگیر ہو گۓ ورنہ مہمانوں کی آمد سے تو ایک نبی کو جو اخلاق کے نہایت بلند معیار پر ہوتا ہے خوشی ہی ہوسکتی تھی۔ 109 ۔ یعنی وہ ہم جنسی (Homo Sexuality) جیسے امراض میں پہلے سے مبتلا تھے اور ان نو وارد خوبصورت نوجوانوں کے لوط کے گھر پہنچنے کی اطلاع پا کر ان کو اغوا کرنے کی غرض سے ان کے گھر پہنچے ۔
|
|
(#6)
|
|
|||
|
110 ۔ موقع کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ لوط علیہ السلام نے قوم کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں کہا تھا اور یہ ایسی ہی بات تھی جیسے کوئی بزرگ آدمی دوسروں کی بیٹیوں کو از راہ شفقت اپنی بیٹیاں کہتا ہے ۔ ظاہر ہے ایسے موقع پر لفظی معنی مراد نہیں ہوتے اس لیے یہ سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں کہ لوط علیہ السلام نے اپنی بیٹیوں کی پیشکش کی تھی۔ اول تو ان کی بیٹیاں جیسا کہ بائبل میں بیان ہوا ہے صرف دو تھیں جب کہ قرآن ان کے لیے ثثنیہ (دو) کا صیغہ (بنتین ) نہیں بلکہ جمع کا صیغہ (بنات) استعمال کرتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ب ایک ہجوم نے لوط علیہ السلام کے گھر کو گھیر لیا تھا تو دو یا چند بیٹیوں کا نکاح تو چند افراد ہی سے ہوسکتا تھا ۔ ہجوم کے تمام افراد کا نکاح تو اس صورت میں ممکن نہیں تھا ۔ تیسرے یہ کہکیا یہ سب غیر شادی شدہ تھے جو ان کو نکاح کرنے کے لیے کہا گیا ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بیویوں کو چھوڑ رکھا تھا اور امر د پرستی میں مبتلا ہو گۓ تھے چنانچہ
|
|
(#7)
|
|
|||
|
سورہ شعرا میں فرمایا گیا ہے : اَتَأ تُوْنَ الذُّ کْرَانَ مِنَ العَا لَمِیْنَ وَتَذَرُوْنَمَا خَلَقَ لَکُمْ ر بُّکُمْ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ (الشعرا 165 ۔166 ) ’’کیا تم دنیا کی مخلوق سے نرالے ہو کر یہ حرکت کرتے ہو کہ لڑکوں پر مائل ہوتے ہو اور اپنی بیویوں کو جن کو تمہارے رب نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے چھوڑ دیتے ہو۔‘‘ اس لیے لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کی بیویوں کو از راہ شفقت و احترام اپنی بیٹیاں کہتے ہوۓ یہ فرمایا کہ جب فطری خواہشات کو پورا کرنے کے لیے پاکیزہ ذریعہ موجود ہے ۔ تو تم نا پاک ذریعہ کیوں اختیار کرتے ہو۔ ھٰو لاء بناتی (یہ میری بیٹیاں ہیں ) کی یہ تفسیر سعید بن جبیر سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں : ’’یعنی قوم ک نبی ہونے کی حیثیت سے ان کی عورتیں لوط کی بیٹیاں تھیں ۔‘‘(تفسیر طبری ج 11 ص 51)
|
|
(#8)
|
|
|||
|
’’یعنی قوم ک نبی ہونے کی حیثیت سے ان کی عورتیں لوط کی بیٹیاں تھیں ۔‘‘(تفسیر طبری ج 11 ص 51) اور مجاہد وغیرہ سے بھی قریب قریب یہی تفسیر منقول ہے نیز ابن جریر طبری اور امام رازی جیسے مفسرین نے بھی اس سے قوم کی عورتیں ہی مراد لی ہیں ۔ اور لوط علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ ’’یہ تمہارے لیے خوب پاکیزہ ہیں تو اللہ سے ڈرو‘‘۔ کسی ایسے مفہوم کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا جو ناجائز طریقے سے شہوت کو پورا کرنے کے ہم معنی ہو۔ 111۔ یعنی عورتوں سے جن کو تم اپنی بیٹیاں کہتے ہو ہمیں کوئی غرض نہیں ان کے اس جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہکس قماش کے لوگ تھے اور بے حیائی میں کترنے ڈھیٹ تھے ۔ ان کا لوط سے یہ کہنا کہ ’’ تمہیں معلوم ہی ہے ‘‘ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ بیٹیوں کی جو بات لوط نے کہی تھی وہ عام عورتوں کے معنی میں تھی نہ کہ ان کی خاص بیٹیوں کے بارے میں ورنہ ان کی قوم کے لوگ یہ نہ کہتے کہ تمہیں یہ بات معلوم ہی ہے ۔ یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ بات عام عورتوں سے متعلق تھی جس کے بارے میں لوط کو معلوم تھا کہ ان کی قوم کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔
|
|
(#9)
|
|
|||
|
ہے ۔ 112 ۔ یعنی یہ بات کی ہم مردوں سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ 113 ۔ لوط علیہ السلام کی یہ فریاد بتاتی ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کی عزت بچانے کے لیے کس قدر بے چین تھے اور ظالموں نے ان کو کیسی مصیبت میں ڈال دیا تھا۔ اس موقع پر جو کلمات ان کی زبان سے نکلے ان کا مطلب یہ ہے کہ کاش میرے پاس وہ طاقت ہوتی جس کو استعمال کر کے تم کو اس تشدد سے روکتا اور تمہارے دماغ درست کر دیتا اور اگر یہ طاقت میسر نہیں تو کم از کم ایسا مضبوط سہارا ہی ہوتا جہاں پناہ لے کر میں اپنے مہمانوں کی عزت بچاتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوط علیہ السلام کی اس فریاد کے سلسلہ میں فرمایا ۔ یَغفر اللہُ لِلُوطٍ اِنْ کَانَ لَیَأ وی اِلٰی رُکنٍ شَدِیْدٍ (بخاری کتاب احادیث الالنبیاء ) ’’اللہ لوط کو معاف کرے ۔ وہ ایک مضبوط سہارے کی پناہ میں تھے ۔‘‘
|
|
(#10)
|
|
|||
|
سہارے کی پناہ میں تھے ۔‘‘ یعنی گو لوط کے لیے کوئی مادی سہارانہیں تھا لیکن ان کے لیے سب سے بڑا سہارا خدا کا تھا اور خدا نے ان کی حفاظت کا ایسا سامان کیا کہ کافر ان کا بال بیکا نہ کر سکے اور نہ مہمانوں کے تعلق سے اپنے گھناؤنے منصوبہ میں کامیاب ہو سکے ۔ 114 ۔ جب بات انتہاء کو پہنچ گئی اور قوم نے اپنے مجرم ہونے کا آخری ثبوت بھی فراہم کر دیا تو ان مہمانوں نے اپنا اصل تعارف لوط سے کرایا کہ ہم فرشتے ہیں اور خدا نے ہیمیں ایک خاص مقصد کے لیے بھیجا ہے ۔ 115 ۔ یعنی تم پر قابو نہ پاسکیں گے ۔ 116 ۔ یعنی رات کی تاریکی میں اس طرح نکل جاؤ کہ قوم کو خبر بھی نہ ہو اور اس ہجرت میں تمہیں سیدھے اپنی منزل کا رخ کرنا چاہیے ۔ مال و اسباب کے چھوٹ جانے پر کوئی شخص واپس جا کر لانے کا ارادہ نہ کرے اور نہ بستی والوں پر کیا گزرتی ہے اس کو دیکھنے کے لیے گھڑا ہوجاۓ یہاں تک کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھے ۔ بائیبل میں ہے :
|
![]() |
| Bookmarks |
| Tags |
| دعوت, ہود |
|
|
Similar Threads
|
||||
| Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
| دعوت القرآن/سورۃ 2:البقرۃ | life | Quran | 98 | 08-13-2012 03:23 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 1:الفاتحۃ | life | Quran | 7 | 08-13-2012 03:23 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 7:الاعراف | life | Quran | 10 | 08-13-2012 03:12 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 9:التوبۃ | life | Quran | 180 | 08-13-2012 03:11 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 10:يونس | life | Quran | 93 | 08-13-2012 03:07 AM |