| Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
| Advertisement |
![]() |
|
|
Thread Tools | Display Modes |
|
|
|
(#1)
|
|
|||
|
69 ۔ اللہ تعالیٰ کے متنبہ کرنے پر جب نوح علیہ السلام کو یہ احساس ہوا کہ ان کا سوال مناسب نہیں تھا تو انہوں نے فوراً معافی اور رحم کی درخواست کی اور جس انداز سے کی وہ ان کے خلوص اور ان کی راست بازی کا ثبوت ہے ۔ 70 ۔ سلامتی یعنی امن و امان اور برکت یعنی وہ خیر جو جاری رہے ۔ 71 ۔ نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں جو لوگ سوار ہوۓ تھے وہ تعداد میں اگر چہ تھوڑے تھے مگر پوری انسانی سوسائٹی کا یہ مکھن تھا جو چھٹ کر آگیا تھا اور دنیا کی نسلیں اور قومیں انہی سے وجود میں آنے والی تھیں ۔ گویا کشتی کے یہ سوار بالقوہ اپنے اندر قوموں اور ملتوں کو لئے ہوئے تھے ۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا گیا ہے کہ جو امتیں تمہارے ساستھ ہیں ان پر بھی سلامتی اور برکتیں ہوں لیکن کتنی ہی اُمتیں ایسی بھی ہوں گی جو سلامتی کی مستحق نہیں ٹھہریں گی۔ انہیں دنیا کا مال و متاع تو دیا جاۓ گا ، لیکن بالا آخر انہیں پاداش عمل میں عذاب بھگتنا ہو گا۔
|
| Sponsored Links |
|
|
|
(#2)
|
|
|||
|
72 ۔ نوح علیہ السلام کی جو سرگزشت قرآن میں بیان ہوئی ہے اس کا علم اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھا چنانچہ نزول قرآن سے پہلے آپ نے یہ قصہ کبھی کسی کو نہیں سنایا اور آپ کی قوم بھی اس سے نابلد تھی ، رہے اہل کتاب تو بائبل کی کتاب پیدائش (باب 8،9،10 ) میں اس قصہ کے کچھ اجزاء بیان ہوۓ ہیں مگر وہ بھی مسخ شدہ حالت میں ۔ اور اس قصے کے اہم ترین پہلوؤں کا تو اس میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر یہ ات کی نوح علیہ السلام کی دعوت کیا تھی؟ مخالفین کے اعتراضات کیا تھے ؟ نوح علیہ السلام نے ان کا کیا جواب دیا؟ عذاب آنے سے پہلے انہوں نے اپنی قوم کو اس سے کس طرح آگاہ کیا تھا ؟ پسر نوح کے غرق ہونے کا قصہ، نوح علیہ السلام کا توبہ کرنا، آئندہ نسلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ جو معاملہ فرماۓ گا اس سے آگاہی ۔ ان تمام پہلوؤں سے بائبل کا قصہ خالی ہے البتہ اس میں کشتی کی لمبائی چوڑائی وغیرہ تفصیل سے بیان ہوئی ہے نیز بائبل میں جہاں نوح کو خدا کی نظر میں مقبول اور مرد راست باز کہا گیا ہے (پیدائش 6،8، 9،) ۔ وہاں ایسی باتیں بھی ان کی طرف منسوب کی گئیں ہیں جو ان کے کردار کو مجروح کرنے والی ہیں (پیدائش باب 9: 20 تا 25) لیکن قرآن نے جزئیات سے قطع نظر وہ حقائق پیش کر دیئے جو اس واقعہ کی جان تھے ۔ ان حقائق کو اس وثوق کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ دلوں میں یقین کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ کیا اس تاریخی واقعہ کا ان پوشیدہ حقیقت کے ساتھ ایک امی کی زبان سے ادا ہو جانا اس کے پیغمبر ہونے اور قرآن کے کلام الٓہی ہونے کا واضح ثبوت نہیں ہے ؟
|
|
(#3)
|
|
|||
|
73 ۔ یعنی اس واضح دلیل کے بعد بھی اگر تمہاری قوم تم کو جھٹلاتی ہے تو صبر کرو انجام ان ہی لوگوں کا اچھا ہو گا ، جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں ۔ اور قرآن کی یہ بات دنیا میں بھی حرف نہ حرف پوری ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی سچی عزت اور سرفرازی نصیب ہوئی اور جن لوگوں نے آپ کو جھٹلایا تھا وہ ذلت کی موت مرے اور ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا ۔ رسول اور اس کے ساتھیوں کی کامیابی کا یہ منظر تو لوگوں نے دنیا میں دیکھ لیا اور ابھی آخرت باقی ہے ۔ 74 ۔ قوم عاد کی سرگزشت سورہ اعراف آیات 68 تا 72 میں گزر چکی ۔ اس موقع پر یہ آئتیں اور ان کے تشریحی نوٹ 105 تا 114 نیز سورہ فجر کی آیات 6 تا 8 اور ان کے تشریحی نوٹ 8 تا 11 پیش نظر رہیں ۔ 75 ۔ یعنی اللہ کے سوا جن کو تم نے معبود بنا رکھا ہے وہ تمہارے من گھڑت خدا ہیں ۔ 76 ۔ عقل سے کام لینے اور خواہشات کے پیچھے چلنے میں بڑا فرق ہے پہلی چیز بصیرت ہے اور دوسری چیز جہالت ۔ 77۔ اس کی تشریح نوٹ 8 میں گزر چکی ۔
|
|
(#4)
|
|
|||
|
77۔ اس کی تشریح نوٹ 8 میں گزر چکی ۔ 78 ۔ یعنی توحید کو قبول کرنے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی صورت میں وہ تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے گا ۔ رزق بھی وافر ملے گا اور اجتماعی قوت میں بھی اضافہ ہو گا ۔ مطلب یہ ہے کہ قومی اور اجتماعی سطح پر اس کے خوش گوار نتائج نکلیں گے ۔ واضح رہے کہ دعوت توحید کو پیش کرتے ہوۓ اس کے دینوی ثمرات کا ذکر محض ضمناً ہوا ہے نہ کہ اصل کامیابی کی حیثیت سے کیونکہ اصل کامیابی جس کو تمام انبیاء علیہم السلام زندگی کا نصب العین بنانے کی دعوت دیتے رہے ہیں وہ آخرت کی کامیابی ہی ہے ۔ 79 ۔ ہود علیہ السلام کی ذات میں نبوت کی کھلی نشانیاں موجود تھیں جن کو دیکھ کر یقین کیا جاسکتا تھا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوۓ ہیں لیکن ان کی قوم عقل کی اندھی تھی اس لیے ان کو یہ نشانیاں نظر نہیں آ رہی تھیں ۔ 80 ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے وہم پرست تھے لیکن ان کے اوہام کی قلعی اس وقت کھل گئی جب اللہ کا قہر ان پر نازل ہوا اور ان کے مرعومہ دیوی دیتا ان کی مدد کو پہنچ نہ سکے اور نہ ہود علیہ السلام ہی کا کچھ بگاڑ سکے ۔
|
|
(#5)
|
|
|||
|
81 ۔ یعنی انسان سمیت تمام جاندار مخلوق اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے اس کی گرفت سے کوئی بھی آزاد نہیں ۔ 82 ۔ سیدھی راہ سے مراد عدل اور راستی کی راہ ہے اور اللہ کے سیدھی راہ پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام کام صحیح اور اس کے سب فیصلے استی اور عدل پر مبنی ہوتے ہیں ۔ اس کے ہاتھ اگرچہ ہر جاندار کی چوٹی ہے مگر وہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا۔ 83 ۔ قوم عاد پر عذاب ہوا کے طوفان اور ایک زبردست آندھی کی شکل میں آیا تھا۔ (ملاحظہ ہو سورہ احقاف آیت 24 و 25 اور سورہ ذاریا آیت 41 و 42 ) 84 ۔ تمام رسول کی نافرمانی در حقیقت تمام رسولوں کی نافرمانی ہے ۔ اس لیے یہاں ہود علیہ السلام کی نافرمانی کو تمام رسولوں کی نافرمانی قرار دیا گیا ہے ۔
|
|
(#6)
|
|
|||
|
85 ۔ رسول اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مجاز (Authority) ہوتے ہیں کہ ان کی اطاعت کی جاۓ لیکن جو لوگ اللہ کے وفادار بن کر رہنا نہیں چاہتے وہ اس کے رسول کی اطاعت کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ رسول کے مقابلہ میں ایسے پیشواؤں ، لیڈروں ، اور اصحاب اقتدار کے احکام کی پیروی کرنے اور ان کی باتوں پر عمل کرنے لگتے ہیں جو خدا کے باغی اور حق کے دشمن ہوتے ہیں ۔ ان کا یہ رویہ خدا کے غضب کو دعوت دیتا ہے ۔ 86 ۔ قوم ثمود کی سرگزشت سورہ اعراف آیت 83 تا 79 میں گزرچکی اس موقع پر مذکورہ آیت اور ان کے نوٹ 116 تا 126 نیز سورہ فجر آیت 9 اور اس کے نوٹ 12 تا 14 پیش نظر رہیں ۔ 87 ۔ خرہ ارضی پر نوع انسانی کا آغاز اس طرح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اولین انسان یعنی آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا اس لیے یہ حقیقت ہے کہ انسان کو زمین سے پیدا کیا گیا ہے اور یہ بھی واقعہ ہے کہ انسان کی زندگی کا دارو مدار جن غذاؤں پر ہے وہ زمین ہی سے حاصل ہوتی ہیں یہاں تک کہ جن جانوروں کا گوشت وہ کھاتا ہے وہ بھی زمین ہی سے غزا حاصل کرتے ہیں ۔
|
|
(#7)
|
|
|||
|
88 ۔ تشریح کے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ 247 اور 248 ۔ 89 ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ صالح علیہ السلام کی زندگی نبوت سے پہلے نہایت صاف ستھری رہی ہے اور ان کی غیر معمولی قابلیت اور پر وقار شخصیت کو دیکھ کر لوگوں نے ان سے یہ توقعات وابستہ کر لی تھیں کہ وہ قوم کا نام روشن کریں گے لیکن جب انہوں نے شرک کے خلاف آواز اٹھائی اور توحید کی دعوت پیش کی تو ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ 90 ۔ قوم ثمود کے پاس بت پرستی کے جائز اور معقول ہونے کی کوئی دلیل نہیں تھی بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس طریقہ کی پیروی اس لیے کی جانی چاہیے کہ یہ اس کلچر کا جز ہے جو باپ دادا سے چلا آ رہا ہے ۔ 91۔ یعنی اگر میں تمہاری باتوں میں آ کر اللہ کی نافرمانی کروں جب کہ مجھ پر بصیرت کی راہ کھل چکی ہے تو اللہ کی گرفت سے بچانے سے تو تم رہے البتہ تمہاری وجہ سے میں گناہ پر گناہ کا مرتکب ہوسکتا ہوں اور یہ بات میری تباہی میں اضافہ ہی کا موجب بن سکتی ہے ۔
|
|
(#8)
|
|
|||
|
92۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ 119 93 ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ شمس نوٹ 15 94 ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ 123 اور 124 ۔ 95 ۔ یہ ایک بہت بڑا تاریخی واقعہ ہے جس میں حق کا بول بالا ہوا چنانچہ صالح اور ان کے اہل ایمان ساتھی تو بچا لیے گۓ اور تمام مشرک اور کافر عذاب کی لپیٹ میں آ گۓ ۔ اور یہ سب کچھ اسی طرح ہوا جس طرح کہ صالح علیہ السلام کو اس کی پیشگی خبر ہوسکتی تھی اور نہ اس کی زد سے اہل ایمان بچ سکتے تھے ۔ 96 ۔ یہ فرشتے تھے جو انسانی صورت میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچے تھے ۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ وہ اپنے وطن سے ہجرت کرنے کے بعد فلسطین میں آباد ہو گۓ تھے ۔
|
|
(#9)
|
|
|||
|
97 ۔ سلام کا مطلب ہے اللہ تمہیں سلامت رکھے ۔ یہ دعائیہ کلمہ ملکوتی آداب اور انبیائی تہذیب کا جز ہے اس لیے اسلام نے اس کو شعار کی حیثیت دی ہے کہ جب مسلمان آپس میں ملیں تو سب سے پہلے ایک دوسرے کو سلام کریں ۔ یہ سلام رسمی نہیں بلکہ حقیقۃً خدا سے دعا ہے اور اپنے بھائی سے خیر خواہی کا اظہار بھی۔ 98 ۔ چونکہ فرشتے انسانی صورت میں تھی اس لیے اجنبی مردوں کو دیکھ کر ابراہیم علیہ السلام سمجھ گؑے کہ یہ مہمان ہیں جو سفر کر کے آۓ ہیں اسے لی انہوں نے فوراً ان کی ضیافت کا اہتمام کیا۔ ایک بچھڑا بھون کر لاۓ اور اس کا گوشت مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔ اس واقعہ سے جہان ابراہیم علیہ السلام کی فیاضی اور مہمان نوازی کا ثبوت ملتا ہے وہاں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ مہمان کی آمد پر آدمی ان کے کھانے کا فوراً انتظام کرے کیونکہ مسافرت کی حالت میں آدمی کو بسا اوقات کھانا میسر نہیں آتا۔
|
|
(#10)
|
|
|||
|
اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ گاۓ اللہ تعالیٰ کی شریعت میں قدیم زمانہ سے حلال چلی آرہی ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام کی شریعت قدیم ترین شریعت ہے جس میں گاۓ حلال تھی اسی لیے انہوں نے بچھڑے کو ذبح کیا اور اس کا گوشت بھون کر مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔ 99 ۔ ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں تو وہ بھانپ گۓ کہ یہ آدمی نہیں بلکہ فرشتے ہیں اور ان کے انسانی روپ میں آنے کی وجہ ممکن ہے کوئی آزمائش ہو اور آزمائش کا خیال ہی ان کے لیے اندیشہ ناک تھا کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو کس کی آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور اس کی نوعیت کیا ہے ۔ 100 ۔ یعنی ہم قوم کی آزمائش کے لیے بھیجے گۓ ہیں تاکہ انہیں رنگے ہوتھوں پکڑ لیں اور ان پر وہ عذاب لے آئیں جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے ۔
|
![]() |
| Bookmarks |
| Tags |
| دعوت, ہود |
|
|
Similar Threads
|
||||
| Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
| دعوت القرآن/سورۃ 2:البقرۃ | life | Quran | 98 | 08-13-2012 03:23 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 1:الفاتحۃ | life | Quran | 7 | 08-13-2012 03:23 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 7:الاعراف | life | Quran | 10 | 08-13-2012 03:12 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 9:التوبۃ | life | Quran | 180 | 08-13-2012 03:11 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 10:يونس | life | Quran | 93 | 08-13-2012 03:07 AM |