| Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
| Advertisement |
![]() |
|
|
Thread Tools | Display Modes |
|
|
|
(#1)
|
|
|||
|
بائیبل میں ہے : ’’نہ تو پیچھے مڑ کر دیکھنا نہ کہیں میدان میں ٹھہرنا ۔ اس پہاڑ کو چلا جا۔ تا نہ ہو کہ تو ہلاک ہو جاۓ۔‘‘ (پیدائش 19:17) 117 ۔ یعنی تمہاری بیوی عذاب کی زد میں آۓ گی۔ لوط کی بیوی بظاہر لوگ کے ساتھ تھی لیکن در حقیقت وہ کافروں کے ساتھ تھی اس لیے وہ بھی عذاب کی مستحق ہوئی۔ نوح کے بیٹے کی مثال اور پر گزر چکی۔ اب یہ دوسری مثال لوط کی بیوی کی پیش کی گئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انصاف بے لاگ ہے جوبھی کفرکرے گا عذاب کا مستحق ٹھہرے گا خواہ وہ کسی نبی کا بیٹا ہو یا کسی نبی کی بیوی ہو ۔ 118 ۔ اس س لوط علیہ السلام کو تسلی دینا مقصود تھا کہ صبح کا آفتاب اس اوباش قوم کے لیے ہلاکت کا پیغام لے کر آۓ گا نیز یہ تاکید کرنا بھی کہ صبح سے پہلے پہلے تمہیں اپنے گھر والوں کو لے کر اس علاقہ سے نکل جانا چاہیے جو عذاب کے لیے مقدر ہو چکا ہے ۔
|
| Sponsored Links |
|
|
|
(#2)
|
|
|||
|
چاہیے جو عذاب کے لیے مقدر ہو چکا ہے ۔ 119 ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عذاب زلزلہ کی صورت میں آیا جس نے عمارتوں کو زمین دوز اور بستی کو تلپٹ کر دیا ۔ ساتھ ہی آتش فشاں کے پھٹ جانے سے پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش ہوئی جس کے ساتھ عجب نہیں کہ لاوا بھی رہا ہو چنانچہ بائبل کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ لاوا پھٹ پڑا تھا۔ ’’تب خداوند نے اپنی طرف سے سدوم اور عمورہ پر گندھک اور آگ آسمان سے برسائی ۔ اور اس نے ان شہروں کو اور اس ساری ترائی کو اور ان شہروں کے سب رہنے والوں کو اور سب کچھ جو زمین سے اگا تھا غارت کیا۔ مگر اس کی بیوی نے پیچھے سے مڑ کر دیکھا اور وہ نمک کا ستون بن گئی ۔ اور ابراہام صبح سویرے اٹھ کر اس جگہ گیا جہاں وہ خداوند کے حضور کھڑا ہو تھا اور اس نے سدون اور عمورہ اور ترائی کی ساری زمین کی طرف نظر کی اور کیا دیکھتا ہے کہ زمین پر سے دھواں ایسا اٹھ رہا ہے ج8سے بھٹی کا دھواں ۔‘‘ (پیدائش 19: 24 تا 28 )
|
|
(#3)
|
|
|||
|
قوم لوط کفر کے ساتھ بے حیائی کی بھی مرتکب ہوئی تھی اس لیے اس کے جرم کے مطابق ٹھیک ٹھیک اس کو ذلت کی سزا ملی یعنی پتھروں کی بارش کے ذریعہ اسے سنگسار کر دیا گیا۔ 120 ۔ یعنی یہ خاص قسم کے پتھر تھے اور ان کو ہلاکت کے لیے نامزد کر دیا گیا تھا۔ 121 ۔ یعنی یہ علاقہ جس پر عذاب آیا مشرکین مکہ سے کچھ دور نہیں ہے سدوم اور عمورہ کی بستیاں بحرمیت کے کنارے تھیں اور شام کے جاتے ہوۓ راستہ میں یہ تباہ شدہ علاقہ پڑتا تھا اس لیے اشارہ کیا گیا کہ مکہ کے ان ظالموں کے لیے جاۓ عبرت ان کے قریب ہی میں موجود ہے دوسرے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس قسم کا عذاب ان ظالموں پر بھی آسکتا ہے ۔
|
|
(#4)
|
|
|||
|
ان ظالموں پر بھی آسکتا ہے ۔ اگرچہ رسولوں کی حجت قائم کرنے کے بعد ان کی قوموں پر کفر کی پاداش میں جو عذاب آتا ہے اس کی نوعیت ایک فیصلہ کن عذاب کی ہوتی ہے اس کے ذریعہ باطل کو مٹا دیا جاتا ہے ۔ اور حق کو فتح مند کیا جاتا ہے ۔ لیکن جہاں گی سرکش اور فاسق قوموں کو اس دنیا میں سزا دینے کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کا قانون سزا مختلف طریقوں سے ان پر نافذ ہوتا رہتا ہے ۔ اس کی تازہ مثال میکسیکو (Mexico) کا (1985 ء کا) واقعہ ہے جہاں آتش فشاں کے پھٹ جانے سے تقریباً بیس ہزار لوگ موت کے گھاٹ اتر گۓ اور جدید تمدن کی ساری جگمگا ہٹ خاک میں مل گئی ۔ ٹی وی پر اس تباہی کے مناظر بھی دکھاۓ گۓ مگر عبرت کی نگاہ سے دیکھنے والی آنکھیں کہاں ! 122 ۔ مدین والوں کی سرگذشت سورہ اعراف آیت 85 تا 93 میں گزر چکی۔ اس موقع پر مذکورہ آیات ور ان کے تشریحی نوٹ 134 تا 149 پیش نظر رہیں ۔
|
|
(#5)
|
|
|||
|
123 ۔ ناپ تول میں کمی کرنا ایک زبردست گناہ ہے اور یہ ان لوگوں کا کام ہے جو خدا کے حضور جواب دہی کا خیال نہیں رکھتے ۔ ملاحظہ ہو سورہ مطففین نوٹ 1 124 ۔ یعنی اگر تم ایمان لاؤ اور جائز نفع پر اکتفا کر لو تو دنیا میں بھی یہ خیر و برکت کا باعث ہو گا اور آخرت کی کامیابی بھی حاصل ہو گی ۔ کاروبار میں لوگوں کو دھوکا دینے سے بظاہر مال بڑھتا ہے مگر ایسا مال خیر سے خالی ہوتا ہے اور آخرت میں تباہی کا باعث بنتا ہے ۔ 125 ۔ یعنی میرا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے ۔ سراغ رساں (Detective) بن کر تمہارے ہر ہر عمل کی نگرانی کرتے رہنا نہیں ہے اور نہ خدا کے ہاں تمہارے عمل کے بارے میں مجھے جواب دہی کرنا ہے ۔
|
|
(#6)
|
|
|||
|
126 ۔ ان کی ایہ سوال ان کی اس ذہنیت کی غمازی کرتا ہے کہ جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے وہ نماز پڑھے لیکن اس کو کیا حق ہے کہ کسی ایسے مذہب کو جس میں کلچر کے طور پر بت پرستی چلی آ رہی ہو غلط اور باطل قرار دینے لگے ؟ اسی طرح کاروبار اور تجارت میں جائز اور ناجائز اور انصاف اور حق تلفی کی بحث چھیڑ کر ہماری معاشی آزادی کو محدود کرنے کا سے کیا اختیار ؟ موجودہ دور کے سیکولر سٹ (Secularist) اسی ذہنیت کا مظاہر کر رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک مذہب کا دائرہ ذاتی عقیدہ اور پرستش تک محدود ہے ۔ اجتماعی زندگی معیشت ، معاشرت اور سیاست وغیرہ میں اسے دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اسی بنا پر وہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ نماز روزہ کی حد تک اسلام پر عمل کرو لیکن اجتماعی معاملات میں اسلام کو داخل نہ کرو ، یہ ذہنیت اب اس درجہ جارحانہ بن گئی ہے کہ نکاح ، طلاق اور وراثت جیسے گھریلو مسائل میں بھی انہیں مسلمانوں کے الٰٓہی قوانین (Devine Law) کی اتباع کرنے پر اعتراض ہوتا ہے ۔ 127 ۔ یہ طنز تھا جو انہوں نے پیغمبر شعیب پر کیا ۔
|
|
(#7)
|
|
|||
|
128 ۔ رزق حسن(اچھا رزق) سے مراد روحانی رزق (وحی الٰٓہی ) بھی ہے اور مادی رزق بھی مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مجھے نبوت بھی عطا فرمائی ہے اور رزق حلال بھی ۔ اس کے بعد بھی کیا میں اس کی ناشکری کروں اور جو راہ اس نے مجھ پر کھولی ہے اسے میں اختیار نہ کروں ؟ 129 ۔ یعنی میں شرک سے بھی اپنا دامن بچاۓ ہوۓ ہوں اور حرام کی کمائی سے بھی اور یہ باتیں میری صداقت پر دلیل ہیں ۔ 130 ۔ شعیب علیہ السلام کے اس ارشاد میں ان لوگوں کے لیے جو عوام کی اصلاح کے لیے اٹھیں یہ رہنمائی ہے کہ ان کا کام جہاں تک ان کے بس میں ہے اصلاح کی کوشش کرنا ہے لیکن بھروسہ اپنی کوششوں پر نہیں بلکہ اللہ کی توفیق پر ہونا چاہیے ۔ 131 ۔قوم لوط کی تباہی کا واقعہ مدین والوں کے لیے کچھ پرانا نہ تھا بلکہ قریبی دور ہی میں پیش آیا تھا نیز قوم لوط کا علاقہ بھی مدین سے قریب ہی تھا۔ 132 ۔ اسکی تشریح نوٹ 8 میں گزر چکی ۔
|
|
(#8)
|
|
|||
|
133 ۔ یعنی اس کو اپنے بندوں سے نفرت نہیں بلکہ محبت ہے اس لیے وہ خواہ مخواہ اپنے بندوں کو آگ میں جھونکنا نہیں چاہتا بلکہ خیر اور نعمتوں کی راہ ان پر کھولنا چاہتا ہے البتہ بندے اس سے نفرت کرنے لگیں اور سرکشی کا رویہ اختیار کر لیں تو پھر وہ اس کے غضب ہی کے مستحق ہو سکتے ہیں ۔ 134 ۔ شعیب کی باتیں نہ فلسفیانہ تھیں اور نہ الجھی ہوئی بلکہ سیدھی سادی اور قلب و ذہن میں اتر جانے والی تھیں لیکن چونکہ وہ صاف ذہن اور کھلے دل سے سوچنے کے لیے آمادہ نہیں تھے اس لیے یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھیں ۔ انسان جب اپنے ذہن کو مخصوص سانچے میں ڈھال لیتا ہے تو اس سے مختلف کوئی بات بھی اس کے لیے قابل رحم نہیں ہوتی خواہ وہ کتنی ہی روشن حقیقت کیوں نہ ہو ۔ 135 ۔ یعنی جتھے اور طاقت کے لحاظ سے ۔
|
|
(#9)
|
|
|||
|
135 ۔ یعنی جتھے اور طاقت کے لحاظ سے ۔ 136 ۔ قبائلی سسٹم میں برادری اور خاندانوں کا بڑا لحاظ کرنا پڑتا تھا ورنہ کسی کے قتل پر انتقام کا سلسلہ چلتا ۔ شعیب کو سنگسار کرنے میں یہی رکاوٹ تھی۔ قوم نے سنگسار کرنے کی دھمکی دی اس سے ان کی ظالمانہ ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ نیز اس بات کا کہ اس سماج میں لوگوں کو توحید کی دعوت دینا اور برائیوں کو مٹانے کی کوشش کرنا بھی جرم تصور کیا جاتا تھا۔ 137 ۔ یعنی تم محض میری برادری کے خوف سے میرے خلاف اقدام کرنے سے رک گئے اور اللہ کا خوف تم نے نہیں کیا ۔ تو کیا میری برادری تمہارے نزدیک اللہ سے زیادہ قہر اور غلبہ والی ہے ؟
|
|
(#10)
|
|
|||
|
کیا ۔ تو کیا میری برادری تمہارے نزدیک اللہ سے زیادہ قہر اور غلبہ والی ہے ؟ 138 ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ 147 139 ۔ مراد اللہ کی رحمت سے محرومی ہے ۔ 140 ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ثمود پر جو عذاب آیا تھا اس سے ملتا جلتا عذاب مدین والوں پر آیا تھا۔ 141 ۔ یعنی موسٰی کی رسالت پر دلالت کرنے والی جو نشانیاں تھیں ان میں بعض نشانیاں تھیں ان میں بعض نشانیاں تو بالکل حجت قاہرہ کی حیثیت رکھتی تھیں چنانچہ ان کی لاٹھی کا سانپ بن جانا اور جادو گروں کے مقابلہ میں ان کا غالب آ جانا اس کی واضح مثال ہے ۔ اور اس حجت قاہرہ کے بعد ان کی رسالت کے معاملہ میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی تھی۔
|
![]() |
| Bookmarks |
| Tags |
| دعوت, ہود |
| Thread Tools | |
| Display Modes | |
|
|
Similar Threads
|
||||
| Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
| دعوت القرآن/سورۃ 2:البقرۃ | life | Quran | 98 | 08-13-2012 03:23 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 1:الفاتحۃ | life | Quran | 7 | 08-13-2012 03:23 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 7:الاعراف | life | Quran | 10 | 08-13-2012 03:12 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 9:التوبۃ | life | Quran | 180 | 08-13-2012 03:11 AM |
| دعوت القرآن/سورۃ 10:يونس | life | Quran | 93 | 08-13-2012 03:07 AM |