Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
Advertisement |
![]() ![]() |
|
Thread Tools | Display Modes |
(#41)
![]() |
|
|||
۵۸ مشرکوں اور کافروں کے ہاں دولت کی ریل پیل اور ان کی معاشی’’ ترقی‘‘ کو دیکھ کر لوگ اس مغالطہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اگر یہ لوگ لعنت کے مستحق ہوتے تو دنیا ان پر کشادہ کیسے ہوتی۔ اسی مغالطہ کو دور کرنے کے لیے فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ کی مشیت پر موقوف ہے اور انسان کی اس معاملہ میں آزمائش ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو مقصود بناتا ہے یا آخرت کو لہٰذا کسی کے لیے رزق کی فراخی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ پسندیدہ ہے ۔ ۵۹ لوگوں کا آخرت کی زندگی کو نظر انداز کر کے دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ لینا اور دنیوی ترقیوں پر اترانا وہ بنیادی غلطی ہے جس نے ان کو بالکل غلط رخ پر ڈال دیا ہے ۔ اس وقت تو وہ اپنی دنیا بنانے میں مگن ہیں مگر ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی جب آخرت برپا ہوگی۔ اس وقت انہیں احساس ہوگا کہ نہ دنیا کی دولت حقیقی دولت تھی اور نہ دنیوی ترقی حقیقی ترقی۔ انہوں نے اپنی زندگیوں کو غلط رخ پر ڈال کر آخرت کی ابدی دولت اور لازوال نعمتوں سے اپنے کو محروم کر لیا۔
|
Sponsored Links |
|
(#42)
![]() |
|
|||
۶۰ مراد حسی نشانی یعنی معجزہ ہے ۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورئہ انعام نوٹ ۶۴ اور ۶۵ ۶۱ مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں آپ کے نبی ہونے کی نشانیاں اتنی جمع ہو گئی ہیں کہ کسی حسی معجزہ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ان ساری نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد بھی جو لوگ آپ کی رسالت کو تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں ان کو یہ توفیق کہاں ہوسکتی ہے کہ راہِ حق کو پالیں ۔ را ہِحق کی طرف بڑھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ اس کو دیتا ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس سے درخواست کرتا ہے کہ خدا یا مجھے راہ حق دکھا۔ ۶۲ یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنے والے لوگ ہی ایمان لاتے ہیں اور جب ایمان لاتے ہیں تو اللہ کی یاد ان کے اطمینانِ قلب کا سامان بن جاتی ہے کیونکہ ایمان لانا اللہ کو پالینا ہے اور جب ایک مومن اللہ کو پالیتا ہے تو اسے تمام ذہنی الجھنوں سے نجات مل جاتی ہے اور اس کے جذبات اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہوجاتے ہیں جس سے دل میں سکون و طمانیت کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔
|
(#43)
![]() |
|
|||
یہ آیت اہل ایمان کو روحانی دولت سے مالا مال کر دیتی ہے ایک مؤمن اللہ کو جتنا یاد کرے گا اتنا ہی اسے روحانی اور قلبی سکون نصیب ہوگا اور یہ دولت ایسی ہے جس کے مقابلہ میں ساری دولتیں ہیچ ہیں ۔ ۶۳ اس مبارکباد میں اہل ایمان کے لیے مسرتوں اور امیدوں کی دنیا آباد ہے کیونکہ یہ مبارکباد اللہ کی طرف سے ہے اور جب اس کا احساس ایک مؤمن کو ہوجاتا ہے تو وہ موت سے پہلے ہی اڑنے کے لیے پرتول لیتا ہے ۔ ۶۴ اس آیت میں مشرکین کو قرآن سنانے کا حکم دیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مسلم اور غیر مسلم سب کے سمجھنے کی چیز ہے ۔ اگر وہ عربی داں نہیں ہیں تو ترجمہ کی مدد سے ان کو قرآن سمجھایا جانا چاہیے ۔ ۶۵ رسالت اور وحی کا انکار کرنے والے درحقیقت خدائے رحمن ہی کے منکر ہوتے ہیں کیونکہ اگر وہ اللہ کو رحمن( مہربان) مانتے تو انہیں رسول کی بعثت اور قرآن کے نزول پر تعجب نہیں ہوتا بلکہ وہ سمجھتے کہ خدائے رحمن اپنے بندوں پر مہربان ہونا چاہتا ہے اس لیے اس نے یہ رحمت نازل کی ہے ۔
|
(#44)
![]() |
|
|||
۶۶ اس شرطیہ جملہ کا جواب حذف کر دیاگیا ہے کیونکہ اس کا جواب واضح ہے ۔ عربی کا اسلوب یہ ہے کہ ایسے موقع پر جواب حذف کر دیتے ہیں اور پڑھنے والا اس کا مفہوم سمجھ لیتا ہے ۔ ہم نے اس کو قوسین میں کھول دیا ہے ۔ ۶۷ مطلب یہ ہے کہ اگر ان پر ایسا قرآن نازل کیا جاتا جس کے ذریعہ پہاڑوں کے چلنے یا زمین کے پاش پاش ہونے یا مردوں کے کلام کرنے جیسے معجزے ظاہر ہوتے تو بھی جو لوگ ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں وہ ایمان نہ لاتے بلکہ اس کو جادو وغیرہ پر مجہول کرتے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ معجزے دکھانا رسول کے اختیار کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا اختیار اللہ ہی کو ہے ۔ وہ چاہے گا تو معجزہ دکھائے گا نہیں چاہے گا تو نہیں دکھائے گا۔
|
(#45)
![]() |
|
|||
۶۸ کافروں کی طرف سے معجزہ کے شدید مطالبہ کے پیش نظر بعض مسلمان یہ خیال کررہے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی حسی معجزہ دکھاتا تو شاید یہ لوگ ایمان لے آتے ۔ ان کے اسی خیال کی تردید یہاں کی گئی ہے کہ ایمان کا تعلق عقل و بصیرت سے ہے اور عقل و بصیرت سے کام لینے والوں کے لیے قرآن بجائے خود بہت بڑا معجزہ ہے لیکن جو لوگ عقل وبصیرت سے کام لینا نہیں چاہتے ان کو اگر ان کا منہ مانگا معجزہ دکھادیا جائے تب بھی وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔ ہاں اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت کی راہ پر چلنے کے لیے مجبور کر دیتا لیکن جب اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ انسان کو یہ اختیار بخشا کہ وہ اپنی مرضی سے ہدایت یا گمراہی کا انتخاب کرے تو جن لوگوں نے گمراہی کا انتخاب کر کے ہٹ دھرمی کی راہ اختیار کی ہے ان سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ معجزہ دیکھ کر راہ راست پر آ جائیں گے ۔؟
|
(#46)
![]() |
|
|||
۶۹ یعنی قیامت تک کافروں پر ایک نہ ایک آفت نازل ہوتی رہے گی کبھی ایک قوم پر کبھی دوسری قوم پر ‘ کبھی ایک آبادی پر اور کبھی دوسری آبادی پر‘ کبھی ایک ملک میں اور کبھی دوسرے ملک میں تاکہ وہ اپنے کرتوتوں کا دنیا میں بھی مزا چکھیں اور تاکہ انہیں تنبیہ ہو۔ یہ آفتیں قدرتی بھی ہوسکتی ہیں اور انسانوں کے ہاتھوں بھی جیسا کہ جنگ وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے ۔ موجودہ زمانہ میں تو یہ آفتیں اس تیزی سے آرہی ہیں کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ کسی نہ کسی جگہ سے چھوٹی یا بڑی آفت کی خبر نہ ملتی ہو۔ طوفان‘ سیلاب‘ قحط اور زلزلہ جیسی قدرتی آفتوں کے علاوہ بڑے بڑے حادثات ‘ فسادات اور جنگی کاروائیوں نے المناک صورت پیدا کر دی ہے ۔
|
(#47)
![]() |
|
|||
۷۰ یعنی جو خدا ایک ایک شخص کے ایک ایک عمل کی نگرانی کررہا ہے وہ ان سے باز پرس کیسے نہیں کرے گا مگر ان لوگوں نے خدائی میں دوسروں کو شریک ٹھہراکر باز پرس کے تصور ہی سے نجات حاصل کر لی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے یہ حمایتی اور سفارشی ہر جگہ ہماری مدد کے لیے کافی ہیں ۔ اگر مرنے کے بعد کوئی مرحلہ پیش آیا تو وہاں بھی ہمارے یہی معبود ہمارے لیے وسیلۂ نجات بنیں گے ۔ ۷۱ یہ طنز ہے ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے بے حقیقت ہونے پر۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ اللہ تو وہ زبردست ہستی ہے جو ایک ایک شخص کی نگرانی کررہا ہے اس لیے اس کو معبود بنانا بھی برحق ہے اور اس کی باز پرس سے ڈرنا بھا برحق لیکن تم نے جن کو معبود بنا رکھا ہے ان میں کون ہے جو خدائی کی یہ شان رکھتا ہو؟ کیا تم ناموں کی صراحت کے ساتھ یہ بتاسکتے ہو کہ یہ اور ہستیاں اللہ کے جیسی صفات اور اختیارات رکھتی ہیں ؟
|
(#48)
![]() |
|
|||
۷۲ اگر تم یہ دعویٰ کرتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کو متعدد خداؤں کے وجود کی خبر دے رہے ہو جبکہ اللہ کو نہیں معلوم کہ کہیں کسی خدا کا وجود ہے اور جو بات اللہ کے علم میں نہیں وہ لازماً اپنا وجود نہیں رکھتی۔ ۷۳ یعنی جس چیز کی کوئی حقیقت نہیں اس کا دعویٰ ایک بے سوچی سمجھی اور نا معقول بات ہی ہوسکتی ہے مگر تم لوگوں کو اس کا کوئی احساس نہیں کہ کیسی بے سروپا باتیں ہیں جو تم کرتے ہو۔ خدا کے بارے میں انسان کو سب سے زیادہ سنجیدہ ہونا چاہیے مگر واقعہ یہ ہے کہ اکثر لوگ خدا کے بارے میں سب سے زیادہ غیر سنجیدہ بنے ہوئے ہیں وہ بلا دلیل خدا کے بارے میں جو منہ میں آیا کہہ دیتے ہیں ۔ ۷۴ یعنی شرک کی نا معقولیت واضح ہوجانے کے بعد بھی لوگ اسے اس لیے چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے کہ اس صورت میں ان کے مفادات متاثر ہوں گے ، ان کو سماج میں جو مقام حاصل ہے وہ باقی نہیں رہے گا اور ان کا اقتدار خطرہ میں پڑے گا۔ وہ اپنی ان ناجائز اغراض پر پردہ ڈالنے کے لیے شرک اور مشرکانہ مذہب کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ سب ان کی چالبازیاں ہیں ۔
|
(#49)
![]() |
|
|||
۷۵ یعنی اللہ کا قانونِ ضلالت ان پر لاگو ہوگیا۔ ۷۶ قانون قدرت یہ ہے کہ جو شخص آنکھیں بند کئے رہتا ہو اس کو آفتابِ ہدایت دکھائی نہیں دیتا اور نہ کسی کے بس میں ہوتا ہے کہ اسے روشنی دکھائے ۔ ۷۷ دنیا میں جو عذاب کافروں ‘ مشرکوں اور ملحدوں پر آتا ہے وہ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اور درجہ کے اعتبار سے بھی وہ مختلف ہوتا ہے ۔ رسول کے ذریعہ حجت قائم ہوجانے کے بعد جو عذاب آتا ہے وہ تو ایک فیصلہ کن عذاب ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی چھوٹے بڑے عذابوں کا سلسلہ دنیا میں جاری رہتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ایک کافر پر خدا کی ایسی مار پڑتی رہتی ہے کہ اس کو سخت قلبی تکلیف اور روحانی الم محسوس ہونے لگتا ہے خواہ وہ کتنی ہی عیش و عشرت کی زندگی کیوں نہ گزاررہا ہو۔ بخلاف اس کے ایک مخلص مؤمن کو دنیا میں جو تکلیف پہنچتی ہے وہ چونکہ آزمائش کے طور پر ہوتی ہے اور اس کو برداشت کرنا باعثِ اجر ہوتا ہے اس لیے اس کے روحانی سکون میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہی ہوتا ہے اس لیے یہ تکلیفیں مؤمن کے حق میں عذاب نہیں بلکہ اس کو سکون و راحت سے ہم کنار کرنے والی ہوتی ہیں ۔
|
(#50)
![]() |
|
|||
۷۸ یعنی وہ سدا بہار جنت ہے جس کے پھل موسمی نہیں بلکہ دائمی ہیں اور جس کی چھاؤں بھی ہمیشہ قائم رہنے والی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنت کی دنیا موجودہ دنیا سے کتنی مختلف ہوں گی اور وہاں کی ہر چیز کس قدر معیاری اور اعلیٰ ہوگی۔ ۷۹ یہاں تقویٰ کا لفظ شرک اور کفر کے بالمقابل استعمال ہوا ہے جس سے واضح ہوا کہ تقویٰ کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ آدمی شرک اور کفر سے بچے جبکہ اس کے وسیع تر مفہوم میں ہر طرح کی معصیتوں سے بچنا شامل ہے ۔ ۸۰ مراد اہل کتاب میں سے وہ لوگ ہیں جو اللہ پر مخلصانہ ایمان رکھتے تھے اور کسی گروہ بندی اور مذہبی تعصب کا شکار نہ تھے ۔ جب قرآن ان کے سامنے آیا تو انہیں خوشی ہوئی کہ ہمارے رب کی طرف سے ہماری ہدایت کا سامان ہوا۔ اشارہ غالباً حبشہ کے نصاریٰ کی طرف ہے جہاں مسلمان ہجرت کر کے گئے تھے اور جہاں کے بادشا ن اسلام قبول کر لیا تھا۔ ۸۱ اشارہ ہے اہلِکتاب کے ان فرقوں کی طرف جنہیں قرآن کی بعض باتوں اور خاص طور سے توحید خالص سے انکار تھا۔
|
![]() ![]() |
Bookmarks |
Tags |
دعوت |
Thread Tools | |
Display Modes | |
|
|
![]() |
||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
دعوت القرآن/سورۃ 11: ہود | life | Quran | 99 | 08-13-2012 02:58 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 2:البقرۃ | life | Quran | 98 | 08-13-2012 02:23 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 1:الفاتحۃ | life | Quran | 7 | 08-13-2012 02:23 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 7:الاعراف | life | Quran | 10 | 08-13-2012 02:12 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 9:التوبۃ | life | Quran | 180 | 08-13-2012 02:11 AM |