پاؤں کا کانٹا
پاؤں سے کانٹا نکالتے ہوئے ننھے کریم کی چیخ نکل گئی۔ وہ ایڑی کو دونوں ہتھیلیوں سے دباتے ہوئے پکارا ’’ ہائے اماں !‘‘ وہ مبہوت و ساکن بیٹھ گیا اور سامنے ویران کھیتوں پر نگاہیں گاڑھ دیں، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنی ماں کی آواز کا منتظر ہوتا ہے۔ " میرے انمول لال! میں آئی، میں ابھی کانٹا نکالے دیتی ہوں !"۔۔۔ اس کے سر پر ایک کّوا کائیں کائیں کرتا ہوا گزرا اور لڑکھڑاتا ہوا ایک جھاڑی میں جا گرا کریم بھول گیا کہ اس کے پاؤں میں کانٹا ہے۔ وہ لنگڑاتا ہو بھاگا اور کّوے کو پکڑ لیا ۔ وہ اپنے پروں کو پھڑپھڑانے لگا۔ اڑنے کی کوشش کی مگر اس کا داہنا بازو زخمی ہوچکا تھا ۔ کریم نے زمین سے مٹی اٹھا کر اس کے زخم پر چھڑکی، دو چار ٹھنڈی سانسیں دیں کّوے کو آرام پہنچا تو کھلی ہوئی چونچ بند کر لی اور آنکھوں میں وحشت کی بجائے اطمینان چھلکنے لگا ۔ کریم نے بہت سے پتے اکھٹے کر کے سب سے بڑے نیم کی سب سے اونچی چوٹی پر جمائے ۔ کّوے کو ایک دو بار تھپک کر وہاں بٹھا دیا اور گھر کو لوٹ آیا ۔ اس مصروفیت میں اس کے پاؤں کے درد میں نمایاں کمی آ گئی تھی۔
وہ ایک کسان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ایک سال ہوا اس کی ماں مر گئی۔ اس کے والد نے پچھلے دنوں ایک شادی کر لی تھی لیکن اب یہ نئی ماں اس سے عجیب طرح سے پیش آتی تھی۔
’’ وہ برتن اندر کیوں نہیں رکھا؟‘‘
’’ وہ پکار اٹھتا ۔‘‘ اندر ہی تو پڑا ہے۔‘‘
وہ اس کے جبڑوں میں گھونسا جماتے ہوئے کہتی۔ ’’ تو مجھے بتایا کیوں نہیں؟‘‘
وہ چیخ کر کہتا ۔’’ بتایا تو تھا میں نے!‘‘
کریم نے کئی بار محسوس کیا کہ گھونسے کے زور سے اس کا دل رک گیا ہے لیکن وہ کمبخت اچانک پھر دھڑک اٹھتا اور وہ سہمی ہوئی نظروں سے ایک اور گھونسا سر پر منڈلاتے ہوئے دیکھتا ۔ اوّل اوّل تو اس نے سوتیلی ماں کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کی۔’’ چھوڑ دے ۔ چھوڑ دے مجھے ۔ ورنہ میری امّی تیری بوٹیاں نوچ لے گی، چھوڑ دے مجھے ورنہ میرا ابّا تجھے مار ڈالے گا۔‘‘ لیکن ایک دن جب اس کی سوتیلی ماں نے یہ کہا کہ’’ تیری ماں کو تو قبر کے سانپ اور بچھو چمٹے پڑے ہوں گے، وہ تیرے باپ کا گھر تباہ کر کے اگلے جہاں میں آرام سے تھوڑا رہے گی!’’ تو ننھا کریم غصے سے بے بس ہو کر اس پر جھپٹا مگر دھکا کھا کر اوندھے منہ جا گرا ۔ دوڑا دوڑا باپ کے پاس گیا اور چیخنے لگا ’ ’ابّا، خالہ نے میرے دانت توڑ دیئے ۔ یہ دیکھو تو مسوڑھوں سے خون بہہ رہا ہے۔ یہ دیکھو نا میری کہنیاں چھل گئیں۔ وہ کہتی ہیں تیری ماں کو سانپ بچّھو کھا رہے ہیں۔ وہ جھوٹ بکتی ہے ابّا ۔ میری ماں ہر رات آ کر میرا ماتھا چوم ۔۔۔۔‘‘
تڑاخ کی آواز اور پھر کریم کا کان اس کے باپ کی انگلیوں میں تھا۔ کان کو اینٹھتے ہوئے بولا۔’’ خالہ کے خلاف بک رہا ہے ۔ اب تیری ماں کا راج نہیں رہا کہ گھر کا غلہ نکال کر دکانداروں کے آگے جا ڈالے اور گلچھڑے اڑائے، اب انسانوں کی طرح رہنا پڑے گا یہاں!‘‘