|
|
|
Posts: 32,565
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender:
|
|
|
امّ المؤمنین حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا
نام ہند، کنیت ام ّسلمہ، قریش کے خاندان مخزوم سے تھیں۔ نسب نامہ یہ ہے:
ہند بنت ابی امیّہ (سہیل یا حذیفہ) بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم۔
ماں کا نام عاتکہ بنت عامر تھا اور وہ خاندان فراس سے تھیں۔حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے والد ابو امیّہ ایک دولت مند اور فیاض آدمی تھے۔ان کی سخاوت اور دریا دلی کی شہرت ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اگر کبھی سفر کرتے تو اپنے تمام ہمراہیوں کی خوراک اور دوسری ضروریات کی کفالت ان ہی کے ذمے ہوتی۔ ان فیاضیوں کی بدولت لوگوں نے انہیں ’’زاد الراکب‘‘ کا لقب دے رکھا تھا اور وہ تمام قبائل قریش میں نہایت عزّت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح ان کے چچازاد بھائی ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بن عبدالاسد سے ہوا۔وہ نہایت سلیم الطّبع نوجوان تھے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ حق کا آغاز فرمایا تو ناممکن تھا کہ ان کی پاکباز طبیعت اس سے متاثر نہ ہوتی۔ انہوں نے اپنے قبیلے کی مخالفت اور دوسرے مصائب کے علی الغم فی الفور اسلام قبول کرلیا۔ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا بھی اسی زمانے میں اسلام کی دولت سے بہرہ یاب ہو گئیں۔ اس طرح یہ دونوں میاں بیوی ان عظیم پاک فطرت انسانوں میں شامل ہوگئے جنہیں سابقون الاوّلون بننے کا شرف حاصل ہوا۔ ان سعید روحوں نے اسلام کی خاطر بڑی مصیبتیں اٹھائیں لیکن جادہ حق سے ان کے قدم ذرّہ برابر بھی نہیں ڈگمگائے۔جوں جوں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی کفار بھی اپنی ایذا رسانیوں میں اضافہ کرتے جاتے تھے۔ جب ان کا ظلم حد سے گزر گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اجازت دے دی کہ جو شخص اپنے دین اور جان کے بچاؤ کیلئے ہجرت کرنا چاہے وہ حبشہ چلا جائے جہاں ایک نیک دل عیسائی بادشاہ کی حکومت ہے۔ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا اور ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اس وقت اسلام قبول کر چکے تھے چنانچہ ( بعض روایتوں کے مطابق) وہ بھی دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ عازم حبش ہوئے۔ کچھ دن وہاں گزارنے کے بعد واپس آگئے اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کا قصد کیا۔ اس وقت حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس صرف ایک اونٹ تھا۔ اس پر انہوں نے حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا اور اپنے ننھے بچے سلمہ کو سوار کرایا اور خود اونٹ کی نکیل پکڑ کر پا پیادہ ہی چل پڑے۔ ابھی چند قدم ہی چلے ہونگے کہ امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے خاندان کے لوگوں یعنی بنو مغیرہ کو پتہ چل گیا۔ انہوں نے اونٹ کو گھیر لیا اور ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا تم جا سکتے ہو لیکن ہماری لڑکی تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی۔ یہ کہہ کر انہوں نے اونٹ کی نکیل ابو سلمہ کے ہاتھ سے چھین لی اور امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو زبردستی اپنے ساتھ لے چلے۔ اتنے میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے خاندان کے لوگ بنو عبدالاسد آ پہنچے۔ انہوں نے امّ سلمہ کے بچے سلمہ پر قبضہ کر لیا اور بنو مغیرہ سے کہا کہ اگر تم اپنی لڑکی کو ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں جانے دیتے تو ہم اپنے قبیلے کے بچے کو تمہارے پاس نہیں چھوڑیں گے اور ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا ’’ تو اکیلا جہاں جی چاہے جا سکتا ہے۔‘‘
|
Posting Rules
|
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts
HTML code is Off
|
|
|
All times are GMT +5. The time now is 05:22 PM.
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.