بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام میں خودپسندی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اس کی جہاں ممانعت بھی وارد ہوئی ہے وہاں ہی کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے کہ کہیں شیطان اس بندے کو مغرور، متکبر نہ بنادے، اسلام ایک انسان کی ہر معاملے میں بہترین رہنمائی کرنے والا دین ہے اسلام نہیں چاہتا کہ ایک انسان اپنی حدود کو پار کرئے کہ جس کی وجہ سے اس کی زندگی میں خرابی آئے،اسلام نے ہر معاملے میں بہترین رہنمائے اصول دیئے ہیں اگر ان اصولوں کو فراموش کرکے ان کے خلاف اقدام کیئے جائیں تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے جو آخر کسی بڑے فتنے کا سبب بن جاتا ہے اور انہی اصولوں میں سے ایک اصول ہے کسی انسان کے سامنے اس کی تعریفوں کے پل باھندنا کہ جس کی وجہ سے وہ بندہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے انسان کے اندر تکبر کا بیج بو دینا ہے اور جس انسان میں تکبر آگیا تو سمجھ لو کہ اس کی آخرت تباہ ہو گئی۔
ابلیس ::شیطان::بھی اسی تکبر کی وجہ سے برباد ہوا تھا، تکبر اللہ کو بہت ناپسند عمل ہے اس لیئے اسلام نے اس تکبر کو ایک انسان کے اندر آنے کے رستے بند کرنے کی طرف توجہ دی ہے جیسا کہ ایک حدیث شریف میں نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ
حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا غندر عن شعبة عن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف عن معبد الجهني عن معاوية قال سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول إياکم والتمادح فإنه الذبح
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بہت بچو کیونکہ یہ توذبح کرنے کے مترادف ہے۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:باب:آداب کا بیان۔ :خوشامد کا بیان ۔
اس فرمانِ رسولﷺ سے واضح ہوا کہ کسی انسان کے سامنے اس کی تعریف کرنا اس کو ذبح یعنی ہلاک کرنے کے مترادف ہے یعنی ہوسکتا ہے کہ وہ شخص خودپسندی اور تکبر کا شکار ہوجائے اور شیطان کی طرح گمراہ ہوجائے۔اسی طرح کی ایک حدیث مسند احمد میں بھی ہے
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بہت کم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے تھے، البتہ یہ کلمات اکثر جگہوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کرتے تھے کہ ۔۔۔۔ ۔۔۔ منہ پر تعریف کرنے سے بچو کیونکہ یہ اس شخص کو ذبح کر دینا ہے۔