Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
Advertisement |
![]() ![]() |
|
Thread Tools | Display Modes |
(#1)
![]() |
|
|||
(۲) سورہ بقرہ (۲۸۶ آیات) بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف نام: اس سورہ کا نام البقرہ ہے۔ یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورہ ہے جو ۲۸۶ آیتوں پر مشتمل ہے۔ قرآن کی سورتوں میں نہایت وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں اس لیے ان کے نام عنوانات کے بجائے سورہ کے کسی مخصوص لفظ یا ابتدائی حروف کی مناسبت سے مقرر کئے گئے ہیں جو علامت کا کام دیتے ہیں۔ چونکہ اس سورہ میں ایک جگہ گائے کا ذکر ہے اس لیے علامت کے طور پر اس سورہ کا نام البقرہ(گائے) رکھا گیا ہے۔ سورتوں کے یہ نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق تجویز فرمائے تھے۔ زمانۂ نزول: یہ سورہ مدنی ہے۔ اس کا بیشتر حصہ ہجرت کے متصلاً بعد مدینہ میں دو سال کے اندر نازل ہوا۔ البتہ بعض آیتیں بعد میں نازل ہوئیں۔ مثلاً سود کی ممانعت سے متعلق آیتیں مدنی دور کے اخیر میں نازل ہوئیں لیکن مضمون کی مناسبت سے اس میں شامل کر دی گئیں۔ واضح رہے کہ قرآنی آیات کی ترتیب بھی اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے ہوئی ہے۔ پس منظر: ہجرت کے بعد سابقہ یہود سے پیش آیا تھا جن کی بستیاں مدینہ کے قرب و جوار میں تھیں۔ یہ لوگ توحید رسالت اور آخرت کو مانتے تھے۔ اور اصلاً ان کا دین اسلام ہی تھا۔ لیکن صدیوں کے انحطاط نے ان کو اصل دین سے بہت دور کر دیا تھا۔ چنانچہ ان کے عقائد میں غیر اسلامی عناصر کی آمیزش ہو گئی تھی۔ اور ان کی عملی زندگی میں بہت سی ایسی رسمیں اور طریقے رواج پا گئے تھے جو اصل دین میں نہ تھے۔ اور جن کا ثبوت ان کی کتاب تورات میں نہ تھا۔ اس سورہ میں ان کو اصل دین یعنی اسلام کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ مرکزی مضمون: سورہ کا مرکزی مضمون ہدایت ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ جس طرح اس سے پہلے اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ کتابیں بھیجتا رہا ہے اسی طرح اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ لہٰذا قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔ اس کے بغیر نہ اللہ کو ماننے کے کوئی معنی رہتے ہیں اور نہ اس کے بغیر زندگی اللہ کے رنگ میں رنگ سکتی ہے۔ نظم کلام: نظمِ کلام کے لحاظ سے سورہ کا ابتدائی حصہ آیت ۱ تا۲۰ تمہید کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ اس ہدایت کو کس طرح کے لوگ قبول کریں گے اور کس طرح کے لوگ قبول نہیں کریں گے۔ آیت ۲۱ تا ۲۹ میں عام انسانوں کو مخاطب کر کے انہیں بندگیِ رب کی دعوت دی گئی ہے کہ ہدایت کی راہ یہی ہے نیز واضح کیا گیا ہے کہ جو لوگ ہدایت الٰہی سے منہ موڑتے ہیں ان کی عملی زندگی کتنی غلط ہو کر رہ جاتی ہے اور (انجام کتنا بُرا ہو گا۔ برعکس اس کے جو لوگ ہدایتِ الٰہی کو قبول کرتے ہیں ان کی عملی زندگی کس طرح سنورتی ہے۔ اور ان کا انجام کس قدر خوشگوار ہو گا۔ آیت ۳۰ تا ۳۹ میں آدم__سب سے پہلا انسان۔ کی خلافت اور شیطان کی مخالفت کی سر گذشت بیان کی گئی ہے جس سے تاریخ انسانی کا اولین باب روشن ہو کر سامنے آ جاتا ہے اور بنیادی سوالات کا اطمینان بخش جواب مل جاتا ہے مثلاً یہ کہ انسانیت کا آغاز کس طرح ہوا؟ دنیا میں انسان کی پوزیشن کیا ہے؟ اس کی تخلیق کے پیچھے کوئی اسکیم ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہے تو وہ کیا ؟ انسان کی کامیابی کا دار و مدار کس بات پر ہے؟ اس سر گذشت سے یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اولین انسان حضرت آدم کو جو ہدایت دی گئی تھی وہ اسلام ہی تھا۔ اور وہی انسانیت کا اصل دین ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ انسان کی رہنمائی آغازِ تخلیق ہی سے فرماتا رہا ہے اور انسانیت کی بسم اللہ دین اسلام ہی سے ہوئی ہے۔ آیت ۴۰ تا ۱۲۳ میں بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے اس ہدایت نامہ پر اور اس کے لانے والے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ اس ہدایت نامہ کا نزول اور آپؐ کی بعثت ٹھیک ٹھیک ان پیشین گوئیوں کے مطابق ہوئی ہے جو ان کی اپنی کتابوں تورات وغیرہ میں موجود ہیں۔ بنی اسرائیل اس زعم میں مبتلا تھے کہ نبوت ان ہی کے خاندان میں محصور ہے اور ایک ایسے نبی پر ایمان لانا جو اس خاندان سے باہر عرب کے امیوں میں پیدا ہوا ہو اپنی توہین سمجھتے تھے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے کے معاملہ میں کسی عصبیت کا دخل نہیں ہونا چاہیے ورنہ آدمی ہدایتِ الٰہی سے یکسر محروم ہو جاتا ہے اگرچہ کہ وہ اپنے کو کتنا ہی دیندار سمجھتا رہے۔ ساتھ ہی بنی اسرائیل کے عہد شکنیوں کی تاریخ بیان کی گئی ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ ان کے اندر کیسی مجرمانہ ذہنیت پرورش پاتی رہی ہے اور کس طرح وہ ذہنی، فکر ی، اخلاقی اور عملی انحطاط میں مبتلا ہو گئے۔ جس کا اصل سبب یہ ہے کہ انہوں نے عملاً ہدایت الٰہی سے انحراف کیا۔ بنی اسرائیل کی مذہبیت کا جائزہ پیش کرتے ہوئے دین کی اس حقیقت کو واشگاف الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے کہ نجات کا دار و مدار ایمان اور عمل صالح پر ہے نہ کہ مخصوص نسل یا مخصوص مذہبی فرقہ سے وابستگی پر۔ آیت ۱۲۴ تا ۱۶۷ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خانۂ کعبہ _مرکزِ توحید_کو تعمیر کرنے کی سر گذشت بیان ہوئی ہے۔ اس ضمن میں واضح کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ جو بنی اسرائیل اور بنی اسمعٰیل دونوں خاندانوں کے جد امجد ہیں اور جن کو یہود، نصاریٰ، مشرکین مکہ اور مسلمان سب اپنا پیشوا مانتے ہیں خالصۃً ہدایت الٰہی کے پیرو تھے اور ان کا دین اسلام تھا نہ کہ یہودیت یا نصرانیت یا کوئی اور مذہب۔ اسی اسلام کی دعوت دینے اور دنیا والوں کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے امت وسط برپا کی ہے۔ جس کا قبلہ مسجد حرام ہے۔ اس قبلہ کو مشرکین مکہ کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لیے اہل ایمان کو جہاد کرنا پڑے گا۔ اور جان و مال کی قربانیاں دینی پڑینگی۔ ساتھ ہی واضح کیا گیا ہے کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی تھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کے مظہر ہیں اور آپؐ کی دعوت مخالفتوں کے باوجود کامیاب رہے گی اور دین اسلام غالب ہو کر رہے گا۔ آیت ۱۶۸ تا ۲۴۲ میں شریعت کے احکام و قوانین بیان کئے گئے ہیں جو انفرادی زندگی سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور اجتماعی زندگی سے بھی ، مذہبی بھی ہیں اور اخلاقی بھی، عائلی بھی ہیں اور سوشل بھی۔ یہ وہ رہنمائی ہے جو اسلام نے زندگی کے مختلف گوشوں میں کی ہے۔ موقع موقع سے بنیادی عقائد بھی پیش کئے گئے ہیں کیوں کہ ان ہی کی بدولت آدمی راہِ ہدایت پر قائم رہ سکتا ہے۔ آیت ۲۴۳ تا ۲۸۳ میں مرکز ہدایت خانۂ کعبہ کو مشرکین کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کی اور اس سلسلہ میں انفاق کی ترغیب دی گئی ہے۔ ساتھ ہی انفاق کی ضد یعنی سود کی حرمت بیان کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں کاروباری معاملات کو درست رکھنے کے سلسلہ میں بھی ہدایت دی گئی ہیں۔ آیت ۲۸۴ تا ۲۸۶ خاتمۂ کلام ہے۔ اس میں ان لوگوں کے ایمان لانے کا ذکر ہے۔ جو کسی تعصب میں مبتلا نہ تھے کہ کسی رسول کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں بلکہ حق پسند تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر ہدایت کی راہ کھول دی چنانچہ ان کی زبان سے وہ دعا ادا ہوئی جو ان کے احساسِ ذمہ داری کی ترجمانی کرتی ہے۔ تلاوت کی ترغیب: حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تجعلوا بیوتکم مقابر ان الشیطان ینفرمن البیت الذی تُقرَئُ فیہ سورۃ البقرہ ’’ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔ ‘‘ (مسلم) یہ اس لیے کہ سورۂ بقرہ میں شیطان کی سازشوں کو بے نقاب کیا گیا ہے اور اس میں عائلی زندگی کے احکام بھی بیان کئے گئے ہیں نیز ایمان اور ہدایت کی راہ بخوبی واضح کی گئی ہے۔ اس لیے جس گھر میں اس کو سمجھ کر پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیا جائے گا وہاں شیطان کو فتنہ اور شر برپا کرنے میں کامیابی نہیں ہو سکے گی۔
|
Sponsored Links |
|
(#2)
![]() |
|
|||
ترجمہ اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے ۱۔۔۔ الف۔ لام۔ میم ۱* ۲۔۔۔ یہ کتاب ۲* الہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ۳* ہے متقیوں ۴* کے لیے ۳۔۔۔ جو غیب ۵* پر ایمان ۶* لاتے ہی، نماز ۷* قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا اس میں سے خرچ ۸* کرتے ہیں۔ ۴۔۔۔ جو کتاب (اے پیغمبر!) تم پر نازل کی گئی ہے اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان ۹* لاتے ہیں۔ اور آخرت ۱۰* پر یقین رکھتے ہیں۔ ۵۔۔۔ یہی ۱۱* لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح ۱۲* پانے والے ہیں۔ ۶۔۔۔ جن لوگوں نے کفر کیا ۱۳* ان کے لیے یکساں ہے۔ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو۱۴* ، وہ ایمان لانے والے نہیں۔ ۷۔۔۔ اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر ۱۵* لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ وہ سخت عذاب ۱۶* کے مستحق ہیں۔ ۸۔۔۔ اور لوگوں میں ایسے ۱۷* بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہیں مگر حقیقت میں وہ مومن نہیں ہیں۔ ۹۔۔۔ وہ اللہ اور اہل ایمان کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ مگر انہیں اس کا احساس نہیں ہے۔ ۱۰۔۔۔ ان کے دلوں میں روگ ۱۸* ہے۔ جسے اللہ نے اور زیادہ کر دیا ہے اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں اس کی وجہ سے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ۱۱۔۔۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد ۱۹* برپا نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ ۱۲۔۔۔ خبردار ! یہی لوگ ہیں جو فساد پھیلانے والے ہیں لیکن انہیں اس کا احساس نہیں۔ ۱۳۔۔۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح دوسرے لوگ ۲۰* ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو کہتے ہیں کیا ہم اس طرح ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں ؟ خبردار! بے وقوف در حقیقت یہی لوگ ۲۱* ہیں۔ لیکن جانتے نہیں ہیں۔ ۱۴۔۔۔ جب یہ اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ان لوگوں سے تو ہم مذاق کر رہے ہیں۔ اور جب علیٰحدگی میں اپنے شیطانوں ۲۲* سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ان لوگوں سے تو ہم مذاق کر رہے ہیں۔
|
(#3)
![]() |
|
|||
۱۵۔۔۔ اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے۔ اور ان کو ان کی سرکشی میں ڈھیل دیئے جا رہا ہے۔ اور حال یہ ہے کہ وہ اندھوں کی طرح بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ ۱۶۔۔۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلہ گمراہی مول لی لیکن نہ تو ان کا سودا نفع بخش ہوا اور نہ وہ ہدایت یاب ہی ہو سکے۔ ۱۷۔۔۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ جلائی اور جب اس سے ماحول روشن ہوا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کر لی اور ان کو تاریکیوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا ۲۳* ۱۸۔۔۔ یہ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں۔ اب یہ نہ لوٹیں گے ۲۴* ۱۹۔۔۔ یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے۔ جس کے ساتھ کالی گھٹائیں کڑک اور بجلی بھی ہے۔ یہ بجلی کے کڑاکے سن کر موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں حالانکہ اللہ ان منکرین کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ ۲۰۔۔۔ قریب ہے کہ بجلی ان کی بصارت اچک لے جائے۔ جب جب چمک جاتی ہے یہ چل پڑتے ہیں۔ اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں ۲۵*۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت سلب کر لیتا ۲۶*۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
|
(#4)
![]() |
|
|||
۲۱۔۔۔ اے لوگو! عبادت ۲۷* کرو اپنے رب کی جس نے تم کو بھی پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے گزرے ہیں ۲۸*۔ تاکہ (دوزخ کی آگ سے) بچو۔ ۲۲۔۔۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا۔ آسمان سے پانی برسایا اور اس سے پھل پیدا کر کے تمہارے رزق کا ساماں کیا۔ تو دیکھو! یہ جانتے ہوئے دوسروں کو اللہ کا ہم سر ۲۹* نہ ٹھہراؤ۔ ۲۳۔۔۔ اور اگر تمھیں اس کے بارے میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس کی مانند ایک سورہ ہی لے آؤ۔ ور اللہ کے وا جو تمہارے حمایتی ہیں ان سب کو بلا لو۔ اگر تم سچے ہو ۳۰*۔ (تو ایسا کر کے دکھاؤ) ۲۴۔۔۔ لیکن اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن بنیں گے آدمی اور پتھر ۳۱* جو تیار کی گئی ہے کافروں کے لیے۔
|
(#5)
![]() |
|
|||
۲۵۔۔۔ اور(اے پیغمبر!) جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیا ان کو بشارت دے دو کہ ان کے لیے ایسے باغ ہیں ۳۲*۔ جن کے تلے نہریں رواں ہوں گی۔ جب جب ان کے پھل ان کو کھانے کے لیے دیئے جائیں گے وہ کہیں گے کہ یہ وہی پھل ہیں جو اس سے پہلے ہمیں (دنیا میں) ملے تھے اور ا سے مشابہ ان کو عطاء کیے جائیں گے ۳۳*۔ نیز ان باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ۲۶۔۔۔ اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ کوئی مثال بیان کرے خواہ وہ مچھر کی ہو یا اس سے کمتر کسی چیز کی ۳۴*۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے ان کے رب کی جانب سے اور جو منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس تمثیل سے اللہ کا کیا مطلب ؟ (اس طرح وہ اس کے ذریعہ کتنوں ہی کو گمراہ کرتا ہے اور کتنوں ہی کو ہدایت بخشتا ہے اور گمراہ ان ہی کو کرتا ہے جو فاسق ہیں ۳۵*۔ ۲۷۔۔۔ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں ، جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم اللہ نے دیا ہے ان کو قطع کرتے ۳۶* ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ یہی لوگ گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔ ۲۸۔۔۔ تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو ۳۷* حالانکہ تم مردہ تھے تو اس نے تم کو زندگی بخشی، پھر وہی تم کو موت دے گا اور اس کے بعد تم کو زندہ ۳۸* کرے گا۔ پھر اسی کی طرف تم لوٹائیے جاؤ گے۔
|
(#6)
![]() |
|
|||
۲۹۔۔۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان ۳۹* استوار کیے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ۳۰۔۔۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں ۴۰* سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ ۴۱* بنانے والا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا کیا تو اس میں ایسی مخلوق بنائے گا جو بگاڑ دے گا کرے گی اور خونریزیاں ۴۲* کرے گی؟ ہم تو تیری حمد کے ساتھ تسبیح اور پاکی بیان کرتے ہیں۔ فرمایا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۴۳* ۳۱۔۔۔ اور اسنے آدمؑ کو سارے نام ۴۴* سکھا دیئے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کر کے کہا۔ اگر تم سچے ہو تو ۴۵* ان کے نام بتاؤ۔ ۳۲۔۔۔ انہوں نے عرض کیا: پاک ہے تو۔ جو علم تو نے ہمیں بخشا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی علم نہیں ، بے شک تو ہی صاحب علم اور صاحب حکمت ہے۔ ۳۳۔۔۔ فرمایا: اے آدمؑ ان کو ان کے نام بتاؤ۔ جب اس نے ان کو ان کے نام ۴۶* بتائے تو اس نے فرمایا : میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہوں اور جو کچھ تم چھپا رہے تھے وہ بھی میرے علم میں ہے۔ ۳۴۔۔۔ اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدمؑ کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ ۴۷* کیا مگر ابلیس ۴۸* نے نہیں کیا۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور کافروں ۴۹* میں سے ہو گیا۔ ۳۵۔۔۔ ہم نے کہا اے آدم! تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت ۵۰* میں رہو اور اس میں جو چاہو بفراغت کھاؤ۔ مگر اس درخت ۵۱* کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔
|
(#7)
![]() |
|
|||
۳۶۔۔۔ لیکن شیطان نے ان کو پھسلا ۵۲ * دیا اور جس عیش میں وہ تھے اس سے ان کو نکلوا چھوڑا۔ ہم نے کہا۔ تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ۵۳* ہو اور تمہیں ایک وقت خاص تک زمین میں رہنا اور گزر بسر کرنا ہے۔ ۳۷۔۔۔ پھر آدم نے اپنے رب سے (توبہ کے) چند کلمات سیکھ لیے تو اس کے رب نے اس کی توبہ ۵۴*قبول کی۔ بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ۳۸۔۔۔ ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جاؤ ۵۵*۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت ۵۶* تمہارے پاس آئے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ۵۷* ہوں گے۔ ۳۹۔۔۔ لیکن جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری آیتوں ۵۸* کو جھٹلائیں گے وہ آگ والے ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ۴۰۔۔۔ اے بنی اسرائیل ۵۹* ! یاد کرو میری اس نعمت ۶۰* کو جو میں نے تم پر کی اور میرے عہد ۶۱* کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔ ۶۲*
|
(#8)
![]() |
|
|||
۴۱۔۔۔ اور میں نے جو کتاب اتاری ہے اس پر ایمان لاؤ۔ یہ تصدیق ۶۳*کرتی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس موجود ہے لہذا تم سب سے پہلے انکار کرنے والے نہ بنو اور میری آیتوں کو حقیر قیمت ۶۴* پر بیچ نہ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔ ۴۲۔۔۔ حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپاؤ۔ ۴۳۔۔۔ نماز ۶۵ * قائم کرو، زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع ۶۶* کرو ۴۴۔۔۔۔ کیا لوگوں کو تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہو۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ ۴۵۔۔۔ صبر اور نماز سے مدد لو۔ بیشک یہ شاق ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو خشوع ۶۷* اختیار کرنے والے ہیں۔ ۴۶۔۔۔ جو سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
|
(#9)
![]() |
|
|||
۴۷۔۔۔ اے بنی اسرائیل ! یاد کرو ۶۸* میری اس نعمت کو جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں اقوام عالم پر فضیلت ۶۹* عطا کی تھی۔ ۴۸۔۔۔ اور اس دن سے ڈرو جب کوئی نفس کی نفس کے کچھ کام نہ آئے گا، اس کی طرف سے کوئی سفارش قبول نہیں کی جائے گی، نہ اس سے فدیہ لیا جائے گا اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔ ۴۹۔۔۔ یاد کرو جب ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات بخشی انہوں نے تم کو برے عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔ ۵۰۔۔۔ یاد کرو جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہیں اس میں سے گزار دیا اور آل فرعون کو غرق کر دیا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے۔ ۵۱۔۔۔ یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ ۷۰* مقرر کیا۔ پھر موسیٰ کے پیچھے تم بچھڑے ۷۱*کو معبود بنا بیٹھے اس طرح تم ظلم کے مرتکب ہوئے۔ ۵۲۔۔۔ اس پر بھی ہم نے تم سے درگزر کیا تاکہ تم شکر گزار بنو۔
|
(#10)
![]() |
|
|||
۵۳۔۔۔ یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور فرقان ۷۲* عطا کی تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔ ۵۴۔۔۔ یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے لہذا اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنے (مجرموں) کو قتل کرو ۷۳*۔ یہ تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے حق میں بہتر ۷۴* ہے پس اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔ بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۵۵۔۔۔ یاد کرو جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم آپ کی بات ماننے والے نہیں ہیں جب تک کہ ہم خدا کو کھل کھلا دیکھ نہ لیں اس وقت تم کو کڑک نے آ لیا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے ۷۵*۔ ۵۶۔۔۔ پھر ہم نے تمہیں موت کے بعد جلا اٹھایا تاکہ تم شکر گزار بنو۔ ۵۷۔۔۔ ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ ۷۶* اتارا کھاؤ ان پاک چیزوں کو جو ہم نے تمہیں بخشی ہیں۔ مگر انہوں نے جو کچھ کیا وہ ہم پر ظلم نہ تھا بلکہ وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرتے رہے۔
|
![]() ![]() |
Bookmarks |
Tags |
دعوت |
|
|
![]() |
||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
سورۃ الملک کی تلاوت عذاب قبر سے بچاتی ہے | life | Quran | 6 | 08-13-2012 02:26 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 1:الفاتحۃ | life | Quran | 7 | 08-13-2012 02:23 AM |
سورۃ الملک کی تلاوت عذاب قبر سے بچاتی ہے | ROSE | Quran | 4 | 07-06-2012 08:38 PM |
تلاوتِ قرآن کریم اور علامہ اقبال | ayaz_sb | Quran | 6 | 07-06-2012 08:37 PM |
ابو ھریرۃ رضي الله عنه سے روایت ہے | ROSE | Islamic Issues And Topics | 5 | 04-30-2010 07:34 PM |