بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی
بام و دَر پہ نقش تحریرِ ہوا رہ جائے گی
آنسوﺅں کا رزق ہوں گی بے نتیجہ چاہتیں
خشک ہونٹوں پر لرزتی اِک دُعا رہ جائے گی
رُو برو منظر نہ ہوں تو آئنے کس کام کے
ہم نہیں ہوں گے تو دُنیا گردِ پا رہ جائے گی
خواب کے نشّے میں جھکتی جائے گی چشمِ قمر
رات کی آنکھوں میں پھیلی التجا رہ جائے گی
بے ثمر پیڑوں کو ُچومیں گے صبا کے سبز لب
دیکھ لینا‘ یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی