![]() |
میں خواب ہو تو گیا ہوں، اب اور کیا ہو جاؤں؟
وفا کے باب میں اپنا مثالیہ ہوجاؤں ترے فراق سے پہلے ہی میں جدا ہو جاؤں ...میں اپنے آپ کو تیرے سبب سے جانتا ہوں ترے یقین سے ہٹ کر تو واہمہ ہو جاؤں تعلقات کے برزخ میں عین ممکن ہے ذرا سا دکھ وہ مجھے دے تو میں ترا ہو جاؤں ابھی میں خوش ہوں تو غافل نہ جان خود سے مجھے نجانے کون سی لغزش پہ میں خفا ہو جاؤں ابھی تو راہ میں حائل ہے آرزو کی فصیل ذرا یہ عشق سِوا ہو تو جابجا ہو جاؤں ابھی تو وقت تنّفس کے ساتھ چلتا ہے ذرا ٹھہر کہ میں اِس جسم سے رِہا ہو جاؤں ابھی تو میں بھی تری جستجو میں شامل ہوں قریب ہے کہ تمنّا سے ماورا ہو جاؤں خموشیاں ہیں، اندھیرا ہے، بے یقینی ہے نہ ہو جو یاد بھی تیری تو میں خلا ہو جاؤں کسی سے مل کے بچھڑنا بڑی اذیّت ہے تو کیا میں عہد ِ تمنّا کا فاصلہ ہو جاؤں؟ ترے خیال کی صورت گری کا شوق لیے میں خواب ہو تو گیا ہوں، اب اور کیا ہو جاؤں؟ یہ حرف و صوت کا رشتہ ہے زندگی کی دلیل خدا وہ دن نہ دکھائے کہ بے صدا ہو جاؤں وہ جس نے مجھ کو ترے ہجر میں بحال رکھا تُو آگیا ہے تو کیا اُس سے بے وفا ہوجاؤں؟ |
Re: میں خواب ہو تو گیا ہوں، اب اور کیا ہو جاؤں؟
Zaberdst
|
All times are GMT +5. The time now is 06:45 PM. |
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.