Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
Advertisement |
![]() ![]() |
|
Thread Tools | Display Modes |
(#1)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
ریاض الصالحین۔ باب 12-13 باب 12 آخری عمر میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی ترغیب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس میں نصیحت پکڑ لے جس نے نصیحت پکڑنی ہو اور تمہارے پاس یاد دہانی کرانے والا، ڈرانے والا بھی آیا۔'' (سورة فاطر :37) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور محققین کے نزدیک اس کا معنی ہے کہ کیا ہم نے تمہیں ساٹھ سال کی عمر نہیں دی تھی؟ اور اس معنی کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے ہم ان شاء اللہ بیان کریں گے۔ بعض نے کہا اس کے معنی اٹھارہ سال اور بعض نے کہا چالیس سال ہیں، یہ قول حسن بصری، محمد بن سائب کلبی اور امام مسروق کا ہے اور یہ قول ابن عباس سے بھی منقول ہے اور انھوں نے نقل کیا ہے کہ اہل مدینہ میں سے جب کوئی شخص چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا تو وہ اپنے آپ کو عبادت کیلئے فارغ کرلیتا اور بعض کے نزدیک اس سے مراد بلوغت کی عمر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ''تمہارے پاس ڈرانے والا آیا'' کے بارے میں حضرت ابن عباس اور جمہور نے کہا ہے کہ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ بعض نے کہا کہ اس سے مراد ''بڑھاپا'' ہے، یہ قول عکرمہ اور ابن عینیہ وغیرہ کا ہے۔ اللہ أعلم۔
|
Sponsored Links |
|
(#2)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
حدیث نمبر 112 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لئے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا جس کی موت کو اس نے مؤخر کیا حتی ٰ کہ وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔'' (بخاری) علماء نے بیان کیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب اس کو اتنی مدت تک مہلت دی جائے تو پھر اس کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (23811۔ فتح) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
|
(#3)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
حدیث نمبر 113 حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر مجھے غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے اکابر صحابہ کرام کے ساتھ اپنی مجلس میں شریک فرماتے، اس سے بعض نے اپنے دل میں برا محسوس کیا اور کہا کہ یہ ہمارے ساتھ کیوں مجلس میں شریک ہوتا ہے۔ حالانکہ اس جیسے (اس کے ہم عمر) تو ہمارے بیٹے ہیں؟ حضرت عمر نے فرمایا: ''ان کا جو مقام ہے اسے تم جانتے ہی ہو۔" پس انھوں (حضرت عمر) نے ایک روز مجھے بلایا اور ان کبار صحابہ کرام کے ساتھ ہی مجلس میں شریک کیا، میرا خیال ہے کہ آپ نے اس روز مجھے صرف اس لئے بلایا کہ آپ انہیں میری قدر و منزلت اور قابلیت دکھائیں۔ حضرت عمر نے پوچھا: "تمہارا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: "اذاجاء نصراللَّہ والفتح" (جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی فتح آجائے) کے متعلق کیا خیال ہے؟" (صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے) بعض نے کہا: "ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی فتح آجائے تو ہم اس کی حمد بیان کریں اور اس سے مغفرت طلب کریں اور بعض خاموش رہے، انھوں نے کچھ بھی نہ کہا، پھر حضرت عمر نے مجھ سے کہا: "اے ابن عباس! کیا تم بھی اسی طرح کہتے ہو؟" میں نے کہا: "نہیں" انھوں نے کہا: "تو پھر تم کیا کہتے ہو؟" میں نے کہا: "اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہے، جس کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دی ہے (اذا جاء نصر اللَّہ والفتح) یہ آپکی وفات کی علامت ہے کہ جب یہ مدد اور فتح آجائے تو اپنے رب کی تسبیح اس کی خوبیوں کے ساتھ بیان کر اور اس سے مغفرت طلب کر یقیناً وہ بہت رجوع فرمانے والا ہے۔'' پس حضرت عمر نے فرمایا: "اس(سورت) کے بارے میں میں بھی وہی کچھ جانتا ہوں جو تم بیان کر رہے ہو۔" (بخاری) توثیق الحدث: أخرجہ البخاری(6286،فتح)
|
(#4)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
حدیث نمبر 114 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ "اذا جاء نصر اللہ والفتح" (سورۂ نصر) کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہر نماز میں یہ پڑھتے تھے "سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی'' (ترجمہ) "پاک ہے تو اے ہمارے رب! اپنی خوبیوں کے ساتھ اے اللہ! مجھے بخش دے۔'' (متفق علیہ) صحیحین میں حضرت عائشہ ہی سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تاویل کرتے ہوئے اپنے رکوع اور سجدوں میں اکثر "سبحانک اللھم ربناو بحمدک الھم اغفرلی" پڑھا کرتے تھے۔ قرآن میں تاویل کرنے کا مقصد ہے قرآن کے حکم پر عمل کرتے ہوئے جو اس آیت میں ہے۔ "فسبح بحمدربک واستغفرہ" اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات سے قبل اکثر یہ پڑھا کرتے تھے "سبحانک اللھم وبحمدک استغفرک واتوب الیک" حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا: "اے اللہ کے رسول! یہ کیا (نئے) کلمات ہیں۔ جنہیں میں آپ کو پڑھتے ہوئے دیکھتی ہوں؟" آپ نے فرمایا: ''میرے لیے میری امت میں ایک علامت مقرر کی گئی ہے کہ جب میں اسے دیکھوں تو وہ کلمات پڑھوں (اذاجاء نصر اللَّہ والفتح) آخر سورت تک۔''
|
(#5)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ پڑھا کرتے تھے۔ "سبحان اللہ و بحمدہ استغفر اللہ واتوب الیہ" حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا: "اے اللہ کے رسول! میں آپ کو اکثر یہ پڑھتے ہوئے دیکھتی ہوں" (یعنی "سبحان اللہ و بحمدہ استغفر اللہ والتوب الیہ") آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میرے رب نے مجھے بتایا ہے کہ میں عنقریب اپنی امت میں ایک علامت دیکھوں گا پس جب میں اسے دیکھوں تو کثرت سے یہ پڑھوں پس تحقیق میں نے وہ علامت دیکھ لی ہے۔ "اذا جاء نصر اللہ والفتح" یعنی فتحِ مکہ اور "ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا" (یعنی لوگوں کافوج درفوج اسلام میں داخل ہونا)، اس لیے میں (فسبح بحمدک واستغفرہ) کے مطابق کثرت سے اپنے رب کی تسبیح و تحمید اور استغفار میں مشغول رہتا ہوں۔ توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2812۔فتح) و مسلم (483)(219) والروایة الثانیة عند البخاری (2992۔فتح) و مسلم(484) والروایة الثالثة عند مسلم (483)(218) والروایة الرابعة لہ (284)(220)
|
(#6)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ حدیث نمبر 115 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل آپ پر کثرت سے پے درپے وحی نازل فرمائی حتیٰ کہ آپ کی وفات کے وقت آپ پر پہلے سے کہیں زیادہ وحی نازل ہوئی۔ (متفق علیہ) توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (39۔فتح) مسلم (3016) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ حدیث نمبر 116 حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بندے کو اسی حالت پر اٹھایا جائے گا جس پر اس کو موت آئی ہوگی۔ (مسلم)
|
(#7)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
.................................................. ................................. باب13 نیکی اوربھلائی کے راستے بہت ہیں: نیکی اور بھلائی کے راستے کئی قسم کے ہیں تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے مختلف اوقات میں اطاعت کے مختلف کام سر انجام دے اور اس میں نشاط برقرار رہے۔ بندہ اگر ایک عمل سے اکتا جائے تو دوسرا عمل کرلے۔ وہ اس طرح کہ جس وقت میں جو کام کرنا ہے وہی کیا جائے، یعنی نماز کے وقت نماز ادا کی جائے، جہاد کے وقت جہاد اور اگر مہمان آجائے تو اس وقت اس کی ضیافت کی جائے اور اس کی مہمانی کا حق ادا کیا جائے۔ پس ایسا شخص جو رسم رواج کا پابند نہیں ہوتا بلکہ ہر کام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے وقت اور طریقے پر کرتا ہے تو اس کے لیے خوش خبری ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''تم جو بھلائی بھی کروگے بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسے جاننے والا ہے۔'' (سورةالبقرة:215) اور فرمایا: ''اورتم جو بھلائی بھی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔'' (سورةالبقرة:197)
|
(#8)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
اور فرمایا: ''جو شخص ایک ذرے کے برابر بھی کوئی بھلائی کرے گا وہ اسے قیامت والے دن دیکھ لے گا.'' (سورةالزلزلة:7) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''جس نے نیک عمل کیا تو وہ اس کے اپنے نفس کے لیے ہے۔'' (سورةالجاثیة:15) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ حدیث نمبر 117 حضرت ابوذر جندب بن جنادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کون سا عمل سب سے افضل ہے؟" آپ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔'' میں نے عرض کیا: "کون سا غلام آزاد کرنا بہترہے؟" آپ نے فرمایا: ''جو اپنے گھر والے یعنی مالک کے ہاں سب سے زیادہ نفیس اور زیادہ قیمتی ہو۔'' میں نے عرض کیا: "اگر میں یہ نہ کرسکوں؟" آپ نے فرمایا: ''کسی کاریگر کی اعانت کردو یا پھر کسی بے ہنر کا کام کردو۔'' میں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے یہ بتائیں کہ اگر میں ان میں سے بعض عمل نہ کرسکوں؟" آپ نے فرمایا: ''(پھر) تم لوگوں کو اپنے شر سے بچائے رکھو، یہ بھی تمہاری طرف سے اپنے نفس پر صدقہ ہے۔'' (متفق علیہ) توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1485) و مسلم (84)
|
(#9)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ حدیث نمبر 118 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے ہر ایک کے ہر جوڑ پر صبح کو ایک صدقہ ہے، پس ہر تسبیح (سبحان اللہ) کہنا صدقہ ہے ہر حمد (الحمداللہ) کہنا صدقہ ہے، ہر تہلیل (لا الہ الااللہ) کہنا صدقہ ہے اور ہر تکبیر (اللہ اکبر) کہنا صدقہ ہے۔ نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور ان سب سے وہ دو رکعتیں کافی ہوجاتی ہیں جو انسان چاشت کے وقت پڑھے۔'' (مسلم) توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم(720) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
|
(#10)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
حدیث نمبر 119 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میری امت کے اچھے اور برے اعمال مجھ پر پیش کیے گئے، پس میں نے اس کے اچھے اعمال میں راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی پایا اور اس کے برے اعمال میں وہ تھوک پایا جو مسجد میں تھوکا گیا ہو اور اسے مٹی میں دبایا نہ گیا ہو۔'' (مسلم) توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(553) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
|
![]() ![]() |
Bookmarks |
Tags |
, آخری, سے, عمر, میں, کرنے, کی |
|
|
![]() |
||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
میری کہانی “ یادوں کی پٹاری “ سے ایک اقتباس،!!!!!! | life | Urdu Literature | 7 | 10-25-2012 08:17 PM |
وہ (خود) زمینی دنیا کی (پستی کی) طرف راغب ہوگیا | ROSE | Quran | 3 | 01-25-2012 03:50 AM |
غزل سن کر پریشاں ہو گئے کیا کسی کے دھیان میں & | ROSE | Miscellaneous/Mix Poetry | 3 | 12-01-2011 10:17 PM |
~[ خزاں میں جب ہے یہ اپنا عالم، بہار آیی تو کیا | CaReLeSs | Urdu Writing Poetry | 2 | 11-30-2011 12:19 AM |
میری تحریر کی زد میں ابھی تو کچھ نہیں آیا | Shaam | Miscellaneous/Mix Poetry | 4 | 08-31-2011 07:18 AM |