اوکھے لوگ
( ممتاز مفتی )
داستان گو
گزشتہ دو ایک سال سے اشفاق احمد نے بڑی دھوم مچا رکھی ہے۔ وہ جگہ جگہ مجمع لگائے کھڑا ہے۔ ریڈیو پر، ٹی وی پر، محفلوں میں، سماجی گیٹ ٹو گیدر میں عوام اس کے پروگرام کا انتظار کرتے ہیں۔ دانشور اس کے ڈراموں پر بحث کرتے ہیں۔
بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ یہ رنگین اور منفرد باتوں کے جال بن کر مجمع لگانے والا درحقیقت گونگا ہے۔ اس کی شخصیت دکھ اور چپ کے تانے بانے سے بنی ہے۔ اس کے بزم آرائی اور زعفران زاری شخصیت کے ان بنیادی عناصر سے فرار کی سعی ہے۔
اگر آپ اس کی شخصیت کے بنیادی عنا صر سے واقف ہونا چاہتے ہیں تو اسے اس وقت دیکھئےجب وہ اکیلے میں بیٹھا ہو۔ جب اسے کوئی احساس نہ ہو کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے یا اسے دیکھے جانے کا امکان موجود ہے۔ اگر اسے ذرا بھی شک پڑ گیا تو اس کے اندر کی بنی سجی طوائف خاتون ہوشیار ہو جائے گی۔
اکیلے میں اشفاق احمد کے چہرے کے خطوط نیچے کی طرف ڈھل جاتے ہیں۔ پیشانی کی سلوٹیں رینگ رینگ کر باہر نکل آتی ہیں۔ آنکھیں اندھے کنویں بن کر ڈوب جاتی ہیں۔ چہرے پر اکتاہٹ ڈھیر ہو جاتی ہے۔
اشفاق احمد کھاتے پیتے پٹھان گھرانے میں پیدا ہوا۔ بہت سے بھائیوں میں ایک کے سوا سب سے چھوٹا۔ باپ ایک قابل، محنتی اورجابر پٹھان تھا۔ جس کی مرضی کے خلاف گھر (یہاں کتاب کی تصویر ترتیب کے خلاف یہاں سے شروع ہوتی ہے)
ایک روز کیمپ کے ایک ویران کونے میں جب میں حالات کی وجہ سے پریشان کھڑا تھا تو ایک چٹی سفید شگفتگی اور تازگی سے بھرپور مٹیار میرے روبرو آکھڑی ہوئی۔ آنکھیں چمکا کر بولی آپ ممتاز مفتی ہیں۔
جی۔ میں نے جواب دیا۔