|
|
|
Posts: 28,336
Country:
Star Sign:
Join Date: Jan 2012
Location: Maa ki duaon mey
Gender:
|
|
|
٭٭٭نفس کی اقسام٭٭٭
نفس امارہ:
وہ نفس جو برائی پر ابھارتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حیوانیت کا نام دیا ہے کیونکہ یہ نفس انسان کو جانوروں والی حیوانیت اور سفاکیت پر ابھارتا ہے۔ یعنی جب نفس حیوانی کا قوت روحانی پر غلبہ ہوجائے تو اس کو نفس امارہ کہتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے احکام کے تابع نہ کردے“۔
یہ نفس کی سب سے خراب قسم ہے، اس طرح کے نفس کے حامل افراد گناہوں سے بھرپور زندگی گزارتے ہیں اور ایسے افراد کے نفس نہایت طاقتور ہوتے ہیں اور بعض اوقات نفس کی یہ شیطانی طاقتیں یہ لوگ استعمال بھی کرتے ہیں، زیادہ تر ایسے لوگ کافر و منافق، عامل، جوگی یا سادھو وغیرہ ہوتے ہیں۔ جن کا مقصد محض خلقِ خدا کو آزار پہنچانا ہوتا ہے۔ ان کو گناہ میں لذت ملتی ہے۔
نفسِ لوامہ
یہ نفس امارہ کی نسبت کچھ بہتر ہوتا ہے، ایسے نفس کے حامل افراد سے بھی گناہ سرزد ہوتے ہیں، لیکن ان میں خدا کا خوف بھی ہوتا ہے اور یہ جان بوجھ کر گناہ کرنے سے باز رہتے ہیں۔ ایسے نفوس کے حامل افراد زیادہ تر عبادت گزار ہوتے ہیں۔
نفسِ الہامہ
نفس یہ کی قسم مذکورہ بالا اقسام سے بہتر ہے، یہ نفس دنیا کثافتوں اور آلودگیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے نفوس کے حامل افراد عموماً سچے خواب یا رویائے صادقہ دیکھتے ہیں۔ ان پر عموماً آگہی بھی ہوتی ہے اور یہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے نفوس اُن لوگوں کے ہوتے ہیں جوکہ ظاہری عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے مجاہدات و ریاضتیں بھی کرتے ہیں۔ خواب کی صورت میں بھی یہ اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے پاک محفلوں میں جاتے ہیں۔
نفسِ مطمئنہ
یہ نفس کی سب سے اچھی قسم ہے جوکہ ہر قسم کے گناہوں سے پاک ہوجاتی ہے اور اللہ کی نافرمانی پر مشتمل ہرقسم کے فعل سے بیزار ہوتی ہے۔ یہ عبادت میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ ایسے نفوس کے حامل پیغمبر یا ولی ہوتے ہیں۔
نفس اور خواہشات کو قابو کرنے سے متعلق حضرت شیخ شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ لکھا ہے خلاصۃً پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”نفس ہر وقت خواہشات کی طلب میں رہتا ہے اور اگر اس کی خواہشات کو پورا کردیا جائے تو ایک بہت لمبی فہرست تیار کرلیتا ہے۔“ اسلام نے انسان کی خواہشات کو دبانے کے بجائے اعتدال پر رکھنے کو پسند کیا ہے۔ عقلمند کے لیے ضروری ہے کہ نفس کو دبانے کی جدوجہد کرتا رہے لیکن یکبارگی اس پر دھاوا بول دینا اور اس کو زیرکردینا دشوار ہے بلکہ اس میں نقصان وغیرہ کا اندیشہ ہے۔ راہ اعتدال یہ ہے کہ قوت دیتے ہوئے اس پر کاموں کا بوجھ ڈالا جائے تاکہ وہ متحمل ہوسکے اور نفس کو اس حد تک کمزور کیا جائے اور سختی سے کام لیا جائے کہ وہ تمہارے حکم سے گریز نہ کرسکے۔ اس کے علاوہ جو طریقے ہیں وہ غلط ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ سخت ریاضت و مجاہدہ کی وجہ سے نہایت کمزور ہوگئے ہیں اور ہاتھ پاؤں ہلانے سے بھی عاجز ہیں، انکی آنکھیں اندر دھنسی گئی ہیں، تو نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے عبداللہ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے۔“ اس سے معلوم ہوا کہ نفس کو ہلاک کرنا گناہ ہے۔ اس لیے ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ نہ وہ انسان پر غالب ہوسکے اور نہ اسکی نافرمانی کرسکے۔ میانہ روی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اسے تھوڑا نرم کیا جائے تاکہ لگام دینے کے قابل ہوجائے۔ اس کے راستے کے عاملوں نےکہا کہ نفس کو نرم کرنے کی تین چیزیں ہیں۔
1۔ نفس کو خواہشات اور لذتوں سے روک دیا جائے کیونکہ جب چوپائے دانہ گھاس نہیں پاتے تو نرم ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا دانہ پانی روک دیا جائے تاکہ ساری شرارتیں غائب ہوجائیں۔
2۔ عبادت کا بھاری بوجھ اس پر لادا جائے۔
3۔ اللہ رب العزت سے مدد مانگی جائے اور اس کی بارگاہ میں پناہ تلاش کی جائے۔ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔ ترجمہ: جنہوں نے ہماری راہ میں مجاہدہ کیا ہم ان کو اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں۔
(العنکبوت 96/29)
|