دن اور آج کا دن پھر کبھی میں نے ایسی شرارت نہ& - MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

link| link| link
MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community » Literature » Urdu Literature » دن اور آج کا دن پھر کبھی میں نے ایسی شرارت نہ&
Urdu Literature !Share About Urdu Literature Here !

Advertisement
 
Post New Thread  Reply
 
Thread Tools Display Modes
(#1)
Old
bint-e-masroor bint-e-masroor is offline
 


Posts: 4,209
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Jun 2013
Location: ●♥ღ ÐязαmℓάиÐ ღ♥●
Gender: Female
New دن اور آج کا دن پھر کبھی میں نے ایسی شرارت نہ& - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   09-23-2014, 10:33 AM

آٹے کا کن کھجورا

گھر کا راشن لینے نکلا′ تو بیگم نے بچوں کی کاپیاں′ پنسلیں′ شارپنر′ ربڑ ′ کالی ونیلی روشنائی اور چار چار اُردو اور حساب کے رجسٹر بھی لانے کو کہا۔ ابھی میری سماعت سے یہ چیزیں ٹکرا ہی رہی تھیں کہ سب سے چھوٹے عرشیان نے ″چائنہ مٹی′′ اور اِنک ریموور لانے کی فرمائش کر ڈالی۔
چائنہ مٹی کیا کرنی ہے′ میں نے قدرے روکھے لہجے میں پوچھا۔
عرشیان بولا′ پاپا! اس سے بڑی چیزیں بنتی ہیں جو دل چاہے بنا لو۔ اسکول میں سب بچوں کے پاس ہے۔ اِس سے چڑیا بنا لو′ گھوڑا بنالو یا سانپ بنا لو اور ہاتھ بھی گندے نہیں ہوتے۔مختصر یہ کہ چائنہ مٹی لینے کے لیے چھوٹی سی جان نے خوب تمہید باندھی۔ یہ سن کر میرا لہجہ نرم اور تجسس بڑھ گیا کہ یہ چائنہ مٹی ہے کیا چیز…
میں جلدی جلدی سیڑھیاں پھلانگتا گھر سے نکل پڑا′ مبادا کوئی اور فرمائش نہ کان میں پڑ جائے۔
گلی کی نکڑ ہی پر شاہ جی کا جنرل اسٹور ہے۔ میں نے سب سے پہلے شاہ جی سے چائنہ مٹی ہی مانگی۔
شاہ جی نے رنگ برنگی پلاسٹک کی بڑی ہی خوبصورت چھوٹی چھوٹی بالٹیاں میرے سامنے سجا دیں۔ وہ دیکھنے ہی میں آنکھوں کو بڑی بھلی لگیں۔
ان بالٹیوں میں آٹے کی طرح گوندھی ہوئی مختلف رنگوں میں چائنہ مٹی بھری تھی۔ واقعی حیرت انگیز طور پر وہ ہاتھوں سے نہیں چپکتی تھی۔
میں نے چالیس روپوں کے عوض چاروں بالٹیاں خرید لیں جنھیں پاکر عرشیان بہت خوش ہوا۔
وہ اُسی وقت مٹی نکال کر کسی بُت تراش کی طرح مختلف جانور اور حشرات بنانے لگا جن میں ہاتھی′ اونٹ اور گھوڑے کے علاوہ مچھلی′ سانپ اور چھپکلی قابل دید تھی۔
اُنھیں دیکھ کر بے ساختہ مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا۔ اُس دور میں ہم بچے سرخ چکنی مٹی گوندھ کر مختلف کھلونے بنایا کرتے تھے ۔ مثلاً مٹی کا چولھا′ ڈوئی′ توا اور اسی طرح کی دیگر اشیا۔ مٹی زیادہ ہوتی تو مالٹا′ سیب′ آم ′ کیلا ′ اخروٹ اور بادام بھی بناتے ۔ پھر دھوپ میں سوکھا کر مختلف رنگوں سے اُنھیں رنگ دینے کی اپنی سی کوشش کرتے۔
اسی طرح سگریٹ اور ماچس کی خالی ڈبیاں اکٹھی کر کے اُنھیں لئی کے ساتھ جوڑ کر صوفہ سیٹ′ میز اور دو دو منزلہ مکان بناتے۔ اگر کوئی کھلونا اچھا بن جاتا′ تو وہ گھر کے ڈرائنگ روم کی زینت بن جاتا اور گھر آئے ہر مہمان کو فخر سے دکھایا جاتا کہ یہ ہمارے فلاں بچے نے بنایا ہے۔ اب یہ باتیںعنقا ہیں۔ جدت پسندی نے اِن کا وجود ہی مٹا ڈالا ہے۔
جب کبھی مٹی نہ ملتی′ تو والدہ سے آنکھ بچا کر گوندھے ہوئے آٹے سے مٹھی بھر آٹا کھینچ لیتا۔پھر خشک آٹا ہاتھوں کو لگا کر گوندھے ہوئے آٹے کی چھپکلی′ چوہا اور سانپ بنا کر محلے میں ہم عمر بچوں کو ڈراتا۔ اُنھیں خوفزدہ ہوتے دیکھ کر میں خوب قہقہے لگاتا۔ پھر ایک دن میں نے بڑی محنت سے آٹے کا کن کھجورا بنایا۔ جب وہ سوکھ کر اکڑ گیا تو اُس پر کالے′ پیلے اور سبز رنگ سے اُس کے نقش و نگار بنائے۔وہ میری اس قدرشاندار تخلیق تھی کہ پل بھر کو مجھے بھی اُسے چھوتے ہوئے خوف محسوس ہوا۔
دن بھر میں اُس کن کھجورے سے گھر والوں اور بچوں کو ڈرا کے خوب محظوظ ہوا۔میں نے اپنا وہ شاہکار ضائع نہیں کیا بلکہ اگلے دن دوستوں کو ڈرانے کے لیے اُسے محفوظ کر لیا۔
ہمارے پڑوس میں شریف بھائی کا گھرتھا۔یوں کہہ لیںکہ اُن کی اور ہماری دیوار مشترکہ تھی۔ دوسری طرف ہمارے محلے کے مشہور و معروف حکیم صاحب کا گھر تھا جن کے گھر والوںسے بات چیت کے لیے ہماری دیوار میں ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی جس میں سے صرف سر ہی نکل سکتا تھا۔انھوں نے گھر میں بھینس رکھی ہوئی تھی ۔ گرمیوں میں ہم اکثر اُن کے گھر سے چاٹی کی لسی منگوایا کرتے تھے جو اُن کی بیگم ڈول بھر کر خوشی خوشی دیا کرتی تھیں۔ تیسرے پڑوسی نصیر صاحب تھے جو صرف اتوار کے دن ہی محلے میں نظر آتے۔باقی چھ دن وہ کہاں گزارتے تھے ہمیں کچھ علم نہیں تھا نہ ہی کبھی ہم نے پوچھنے کی جسارت کی تھی۔
اگلے روز مصروفیت کچھ ایسی رہی کہ کن کھجورے کا خیال ہی نہ آیا۔ کئی دن ایسے ہی گزر گئے۔ میں اپنے تخلیق کردہ″شاہکار′′ کو بھول چکا تھا۔ پھر ایک دن کوئی چیز ڈھونڈتے ڈھونڈتے اُسی جگہ پہنچ گیا جہاں کن کھجورا رکھا تھا اور انجانے سے جو اُسے اُٹھایا تو میری چیخیں نکل گئیں۔ یہ شکر ہے کہ اُس وقت کمرے میں کوئی نہیں تھا ورنہ اپنا خوب تمسخر اُڑنا تھا۔
شریف بھائی کی بیگم کھانا پکانے سے پہلے مسالا سِل پر پیستی۔ پیاز′لہسن ′ ادرک′ سوکھا دھنیا′ثابت لال مرچ حتیٰ کہ ہلدی بھی ثابت ہی ہوتی۔ ایک ایک کر کے باری باری وہ یہ اجناس سِل پر بٹے کی مدد سے ایسے پیستی جیسے آٹا گوندھا جاتا ہے′ فرق صرف یہ تھا کہ آٹا گوندھتے ہوئے مٹھیاں بھینچ کر آٹے سے زورآزمائی کی جاتی ہے جبکہ سِل پر دونوں ہاتھوں میں پتھر کا گول سا بٹا پکڑ کر آگے پیچھے جھولتے ہوئے اجناس کا ملیدہ بنایا جاتا ہے۔ اِس دوران مختلف مسالوں کی خوب مہک اٹھتی جو خوامخواہ بھوک چمکا دیتی اور جب یہ ملغوبہ سرخ رنگ آٹے کے پیڑے کی شکل دھار لیتا′ تو مٹی کی کٹوری میں یہ ملغوبہ سِل سے اُتار کر رکھی لیتی۔ پھر تھوڑا سا پانی سِل پر ڈال کر اُس سے چپکا ہوا مسالا بھی اُتار لیتی۔میں قریب کھڑا یہ سب دیکھتا رہتا۔
اُس روز شریف بھائی کے گھر والوں نے ماش کی دال پکانی تھی جو میری وجہ سے نہ پک سکی۔ اُن کی بیگم نے ماش کی دال چھان کر پرات میں پانی ڈالا اور اُسے چند گھنٹو ں کے لیے دھوپ میں دیوار پر رکھ دیا تاکہ دال نرم ہو جائے′ تو ہاتھوں سے مَسل کر اُس کے چھلکے اُتار لے۔میری والدہ بھی ایسے ہی ماش کی دال پکایا کرتی تھیں کیونکہ بقول والد صاحب کے دھلی ہوئی ماش کے چھلکے کیمیکل ڈال کر اُتارے جاتے ہیں جو صحت کے لیے مضر ہے۔ اِس لیے جب بھی ماش کی دال پکتی تو والدہ اُسے بھگو کر چھلکے اُتارتی۔لیکن آج کل مصروفیت کے باعث کوئی یہ بات ماننے یا جاننے کے لیے تیار ہی نہیں۔
خیر بیگم شریف پرات دیوار پر رکھ کے دوسرے کاموں میں مشغول ہو گئی جب کہ میرے ذہن میں بیٹھے بٹھائے شرارت سوجھی اور میں نے آنکھ بچا کر وہ تخلیق کیا ہوا آٹے کا کن کھجورا اڑوس پڑوس سے نظر بچا کر چپکے سے دال کے اوپر رکھ دیا جو قدرے پانی چوس چکی اور پھول کر پرات سے باہر آنے کو تھی۔
پھر اُن لوگوں کا ردعمل دیکھنے کے لیے میں چھت ہی پر چھپ کر بیٹھا رہا ′ مگر خاصی دیر گزرنے کے باوجود کوئی بھی دال والی پرات اُٹھانے نہ آیا اور میں مایوس ہو کر نیچے اُتر آیا۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ شریف بھائی کی بڑی بیٹی صفیہ کی مجھے چیخ سنائی دی ″امی دال میں کن کھجورا۔′′
بیگم شریف بھی دوڑی دوڑی آئی ۔ جیسے ہی پرات میں جھانک کر دیکھا ′ تو کراہت سے چھاتی پر دوہتڑ مار کرساری دال کوڑے کی ٹوکری میں اُلٹ دی۔
میں کھڑے کھڑے کانپنے لگا′ مبادا اگر اُنھیں پتا چل گیا کہ یہ شرارت میری ہے′ تو گھر والوں کو دال کی اُجرت دینا پڑے گی اور ابو سے میری دُھنائی الگ ہو گی۔
جیسے تیسے میں نے چپ سادھے رکھی اور آج تک اپنی اِس شرارت کا کسی سے ذکر نہیں کیا۔
آخر انہوں نے بازار سے حلیم منگوا کر دوپہر کی روٹی کھائی…
دوسری شرارت جو میرے ذہن میں آج بھی محفوظ ہے وہ یہ کہ ہماری گلی میں کمہار اپنے گدھوں پر سرخ مٹی کے بورے لاد کر بیچنے کے لیے آیا ۔ اُن دنوں زیادہ تر گھروندے کچے ہی ہوا کرتے تھے۔ پکا مکان کسی کسی کا ہوتا تھا۔ کوئی اپنا کوٹھا لیپنے کے لیے مٹی خریدتا اور کوئی اپنا صحن اونچا کرنے کے لیے۔ خواتین پیتل′ تانبے′ سلور اور مٹی کی ہانڈیوں کے تلوے پونچھنے کے لیے بھی کمہار سے مٹی خریدتیں اور مٹی سے کھلونے بنانے کا ذکر تو میں کر چکا ہوں۔ بس یہ ہی مصرف تھے اُس مٹی کے یا کچھ بزرگ وٹوانی کے لیے مٹی کے چھوٹے چھوٹے ڈھیلے بنا کر غسل خانوں میں رکھا کرتے تھے۔
اتفاق سے میںگلی ہی میں موجود تھا۔ جیسے ہی گدھے کمر پر مٹی کے بورے لدے میرے قریب سے گزرے مجھے اُس مٹی کے اندر کیچوے سرکتے ہوئے نظر آئے۔ یہ بھی عجیب و غریب قسم کا کیڑا ہے۔ اِس کے دو ٹکڑے بھی کر دیے جائیں′ تو اس کی موت واقع نہیں ہوتی بلکہ دونوں حصے الگ الگ سمتوں میں چل پڑتے ہیں اور جہاں نرم مٹی ملی اُس میں گھس جاتے ہیں۔ اِن کی چال سُنڈی جیسی ہوتی مگر شکل سانپ سے مشابہ ہوتی ہے۔
آنکھوں اور ناک سے محروم یہ کیڑا زمین کی زرخیزی کے لیے مفید ہے ۔شکاری مچھلی کا شکار کرنے کے لیے اِسی بچارے کی ″خدمات′′ مستعار لیتے ہیں۔
میں نے مٹی سے دو تین کیچوے نکال کر اپنی جیب میں رکھ لیے تاکہ بچوں کو ڈرایا جا سکے۔ اسی اثنا میں مجھے شاہد نظر آیا۔ یہ میرے دوست عابد کا چھوٹا بھائی تھا۔ کیچوے ہاتھ میں لیے′ میں اُس کے قریب گیا اور بڑی مہارت اور چالاکی سے اُس کی جیب میں ڈال دیے۔ لیکن اُسے پتا ہی نہ چلا اور وہ اپنی راہ چلتا گیا۔ مجھ سے یہ برداشت نہ ہوا کیونکہ میں تو اپنی شرارت سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔ میں اُس کے قریب گیا اور اُسے مخاطب کرتے ہوئے اپنی جیب دیکھنے کو کہا۔ جب اُس نے اپنی جیب میںزندہ کیچوے رینگتے دیکھے′ تو اُس کی حالت غیر ہو گئی۔ سارے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور وہ بار بار اپنی گردن ایسے ہلاتا جیسے کوئی نفرت انگیز شے دیکھ کر اپنی گردن ہلاتا ہے۔ اسی حالت میں وہ غش کھا کر گر پڑا۔
یہ دیکھ کر میرے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ پہلے تو میں نے وہاں سے بھاگنا چاہا′ لیکن چونکہ کچھ لڑکوں نے مجھے شرارت کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس لیے بھاگنا مناسب نہ سمجھا اور اُس کی جیب سے کیچوے نکال کر اُسے دلاسا دینے لگا۔ اُس کے ہاتھ اور پیروں کے تلوے اپنے ہاتھوں سے رگڑے′ مگر وہ کسی طرح ہوش میں نہ آیا۔
آخر نوبت ہسپتال تک جا پہنچی۔ ذرا سی شرارت کا وہ بتنگڑ بنا کی الامان الا حفیظ۔یہ بات چھپنے والی نہ تھی۔ شاہد کی دادی اماں ہمارے گھر شکایت لے کر پہنچ گئی۔ کہ آپ کے لونڈے نے میرے بچے کے ساتھ یہ شرارت کی ہے۔ والد صاحب بھی گھر پر موجود تھے۔ اگر یہ بات صرف والدہ تک پہنچتی′ تو اپنی بچت ہو جاتی مگر چونکہ یہ ڈائریکٹ ابا جان تک پہنچی تھی اِس لیے بچت کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اُس روز شاہد کی دادی کے سامنے ہی میری وہ دھنائی ہوئی کہ وہ بچاری بوڑھی میرے ابا سے کہنے لگی ″بائو جی میں اپنی شکایت واپس لیتی ہوں خدا کے لیے آپ اِس بچے کو چھوڑ دیں۔′′مگر ابا جان نے ایک نہ سنی کیونکہ اُن کی ڈکشنری میں معافی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
آخر محلے والوں نے جیسے تیسے ابا جان کے عتاب سے مجھے خلاصی دلائی۔ وہ دن اور آج کا دن پھر کبھی میں نے ایسی شرارت نہیں کی۔..
*

 



Reply With Quote Share on facebook
Sponsored Links
(#2)
Old
AYAZ's Avatar
AYAZ AYAZ is offline
 


Posts: 12,370
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Location: Karachi
Gender: Male
Default Re: دن اور آج کا دن پھر کبھی میں نے ایسی شرارت ن - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   09-23-2014, 04:50 PM

Shukria share karney ke liye

 







ALLAH FARMATA HAI :
AEY BANDEY JO HUA
WO ACHA HUA .
JO HORAHA HAI ACHA HO RAHA HAI.
JO HOGA WO BHI ACHA HOGA.
TERA KIYA GAIYA JO TU ROTA HAI
TU KIA LAYA JO TU NE KHO DIYA.
JO LIYA YAHIN (DUNYA) SEI LIYA
JO DIYA YAHIN (DUNYA) PE DIYA
JO AAJ TERA HAI PEHLAY KISI AUR KA THA
AUR KAL KISI AUR KA HOGA.
TABDEELI KAINAAT KA MAMOOL HAI
BAS TU WO JAMA KAR JO TU SATH LEI KAR JANEY WALA HAI
YANI NAIK AMAAL.


Post New Thread  Reply

Bookmarks

Tags
آج, اور, ایسی, دن, میں, نہ&, نے, پھر, کا, کبھی

Thread Tools
Display Modes

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off

Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
کِسی اور چہرے کو دیکھ کر، تیری شکل ذہن میں آ&# pakeeza Miscellaneous/Mix Poetry 24 12-23-2013 09:38 PM
2 بھارتی جنگی طیاروں کی پاکستانی فضائی حدو (‘“*JiĢäR*”’) Political Issues Of Pakistan 8 08-20-2013 08:37 AM
غزل سن کر پریشاں ہو گئے کیا کسی کے دھیان میں & ROSE Miscellaneous/Mix Poetry 3 12-01-2011 10:17 PM
تیرے پیار نُوں اپنا دین اِیمان آکھا ROSE Punjabi Poetry 4 09-14-2011 01:09 PM
میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میر ROSE Punjabi Poetry 2 07-15-2011 01:47 AM


All times are GMT +5. The time now is 12:40 AM.
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.

All the logos and copyrights are the property of their respective owners. All stuff found on this site is posted by members / users and displayed here as they are believed to be in the "public domain". If you are the rightful owner of any content posted here, and object to them being displayed, please contact us and it will be removed promptly.

Nav Item BG