چھیڑ دیتا ہے دل پھر سے پرانی کوئی بات
کوئی دکھ کوئی گلہ کوئی کہانی کوئی بات
ایک چُپ تھی کہ جو خوشبو کی طرح پھیلی تھی
صبحدم کہہ نہ سکی رات کی رانی کوئی بات
اہلِ گلشن کا تو شیوہ ہے کہ بدنام کریں
گُل بھی سنتا کبھی بلبل کی زبانی کوئی بات
وہ ترا عہدِ وفا تھا کہ وفائے وعدہ
میں کہ پھر بھول گیا یاد دلانی کوئی بات
جانے کیوں اب کے پریشاں ہیں ترے خانہ بدوش
ورنہ ایسی بھی نہ تھی نقلِ مکانی کوئی بات
جس طرح ساری غزل میں کوئی عمدہ مصرع
جس طرح یاد میں رہ جائے نشانی کوئی بات
اہلِ دستار و قبا تُرش جبیں کیوں ہیں فرازؔ
کہہ گئی کیا مری آشفتہ بیانی کوئی بات؟