Islamic Issues And Topics !!! Post Islamic Issues And Topics Here !!! |
Advertisement |
![]() ![]() |
|
Thread Tools | Display Modes |
(#21)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
اسکے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمران رضی اللہ عنہ اندر تشریف لے گئے اور سیّدہ سے ان کا حال پوچھا۔ فاطمہ الزہرا نے عرض کیا: ’’ اباجان شدّت درد سے بےچین ہوں اور بھوک نے نڈھال کر رکھا ہے کیونکہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے میری بیٹی صبر کر۔ میں بھی آج تین دن سے بھوکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگتا وہ ضرور مجھے عطا کرتا لیکن میں نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست شفقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پشت پر پھیرا اور فرمایا: ’’ اے لخت جگر دنیا کے مصائب سے دل شکستہ نہ ہو، تم جنّت کی عورتوں کی سردار ہو۔‘ فاطمہ الزہّرا اس فقروغنا کے ساتھ کمال درجہ کی عابدہ تھیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی ماں کو شام سے صبح تک عبادت کرتے اور اللہ کے حضور گریہ وزاری کرتے دیکھا لیکن انہوں نے اپنی دعاؤں میں اپنے لئے کبھی کوئی درخواست نہ کی۔ ایک دفعہ سیّدہ علیل تھیں لیکن علالت میں بھی رات بھر عبادت میں مصروف رہیں۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کیلئے مسجد گئے تو وہ نماز کیلئے کھڑی ہو گئیں۔ نماز سے فارغ ہو کر چکی پیسنے لگیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے واپس آکر انہیں چکی پیستے دیکھا تو فرمایا: ’’اے رسول خدا کی بیٹی اتنی مشقّت نہ اٹھایا کرو، تھوڑی دیر آرام کر لیا کرو کہیں زیادہ بیمار نہ ہو جاؤ۔‘‘
|
Sponsored Links |
|
(#22)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
فرمانے لگیں: ’’ خدا کی عبادت اور آپ کی اطاعت مرض کا بہترین علاج ہے اگر ان میں سے کوئی موت کا باعث بن جائے تو اس سے بڑھ کر میری خوش نصیبی کیا ہوگی۔‘‘ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ سے پوچھا: ’’ جان پدر! (مسلمان) عورت کے اوصاف کیاہیں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: اباجان عورت کو چاہیئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرے، اولاد پر شفقت کرے، اپنی نگاہ نیچی رکھے، اپنی زینت کو چھپائے، نہ خود غیر کو دیکھے نہ غیر اس کو دیکھ پائے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غورا بنت ابی جہل سے نکاح کا ارادہ کیا۔ سیّدہ النساء سخت آرزدہ ہوئیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو سیّدہ نے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ ! علی مجھ پر سوت (سوکن) لانا چاہتے ہیں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر سخت چوٹ لگی۔ ادھر غورا کے سرپرست بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نکاح کی اجازت لینے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا: ’’آل ہشام علی سے اپنی لڑکی کا عقد کرنے کیلئے مجھ سے اجازت چاہتے ہیں لیکن میں اجازت نہ دوں گا۔ البتہ علی میری لڑکی کو طلاق دے کر دوسری لڑکی سے شادی کر سکتے ہیں۔ فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت دی، اس نے مجھے اذیت دی، جس نے اس کو دکھ پہنچایا اس نے مجھے دکھ پہنچایا، میں حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن اللہ کی قسم اللہ کے رسول کی بیٹی اور دشمن خدا کی بیٹی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔‘‘ اس کا یہ اثر ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارادہ نکاح فوراً ترک کر دیا اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی تک پھر دوسرے نکاح کا خیال تک دل میں نہ لائے۔
|
(#23)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسی محبت اپنی بیٹی سے تھی ویسے ہی اپنے داماد اور نواسوں سے بھی بےحد پیار تھا۔ ان سے فرمایا کرتے: ’’جن لوگوں سے تم ناراض ہونگے میں بھی ان سے ناخوش ہوں گا، جن سے تمہاری لڑائی ہے ان سے میری بھی لڑائی ہے، جن سے تمہاری صلح ہے ان سے میری بھی صلح ہے۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کرتے:’’اے علی تم دنیا میں اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔‘‘ فاطمۃ الزّہرا کے فرزندوں سیّدنا حسن اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے جگر کے ٹکڑے سمجھتے تھے،نہایت محبت سے ان کو بوسے دیتے اور اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے تھے۔ وصال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دن پہلے حضرت فاطمہ الزّہرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خبرگیری کیلئے حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے میں تشریف لائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے انہیں اپنے پاس بٹھا لیا اور ان کے کان میں کوئی بات آہستہ سے کہی جسے سن کر وہ رونے لگیں، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اور بات ان کے کان میں کہی جسے سن کر وہ ہنسنے لگیں۔ جب چلنے لگیں تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا ’’اے فاطمہ تیرے رونے اور ہنسنے میں کیا بھید تھا۔‘‘ سیّدۃ نے فرمایا جو بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اخفا رکھی ہے وہ میں ظاہر نہ کرونگی۔‘‘
|
(#24)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور بعض روایتوں کے مطابق حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اس دن کے واقعہ کی تفصیل پوچھی۔ حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ پہلی دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کے پہلے جبرائیل امین علیہ السلام سال میں ہمیشہ ایک بار قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے، اس سال خلاف معمول دوبار کیا ہے اس سے قیاس ہوتا ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آ گیا ہے۔‘‘ اس پر میں رونے لگی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:’’ تم اہل بیت میں سے سب سے پہلے مجھے ملوگی اور تم جنّت کی عورتوں کی سردار ہوگی۔‘‘ اس بات سے مجھے خوشی ہوئی اور میں ہنسنے لگی۔ رحلت سے قبل جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بار بار غشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ فرمایا ’’وَاَکَرْبُ اَبَاہُ‘‘ ہائے میرے باپ کی بے چینی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارا باپ آج کے بعد بےچین نہیں ہوگا۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا پر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ انہوں نے بے اختیار ہو کر فرمایا: ’’ پیارے باپ نے دعوت حق کو قبول کیا اور فردوس بریں میں داخل ہوئے۔ آہ جبرائیل کو ان کے انتقال کی خبر کون پہنچا سکتا ہے۔‘‘ پھر دعا مانگی: ’’ بارالٰہا روح فاطمہ کو روح محمّد کے پاس پہنچا دے۔ خدایا مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مسرور کردے۔ الٰہی بروز محشر شفاعت محمّد سے محروم نہ فرما۔‘‘
|
(#25)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
بعض روایتوں میں ان سے ایک مرثیہ بھی منسوب ہے جو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر کہا۔ اس مرثیہ میں وہ کہتی ہیں: ’’آسمان غبار آلود ہو گیا۔ آفتاب لپیٹ دیا گیا۔ دنیا میں تاریکی ہو گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زمین نہ صرف غمگین ہے بلکہ فرط الم سے شق ہو گئی ہے۔ ان پر قبیلہ مضر کے لوگ اور تمام اہل یمن روتے ہیں۔ بڑے بڑے پہاڑ اور محلاّت روتے ہیں۔ اے خاتم رسل، خدا آپ پر رحمت نازل فرمائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیزوتکفین کے بعد صحابیات اور صحابہ کرام تعزیت کیلئے ان کے پاس آتے تھے لیکن ان کو کسی پہلو قرار نہ آتا تھا۔ تمام کرب سیئر متفق ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کسی نے حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضور کی میراث کا مسئلہ پیش ہوا۔ فَدَک ایک موضع تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو اس شرط پر دے رکھا تھا کہ جو پیداوار ہو نصف وہ رکھیں اور نصف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دیا کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حصے میں سے کچھ اپنے اہل وعیال کے خرچ کیلئے رکھ لیتے اور باقی مسافروں اور مساکین پر صرف کر دیتے تھے۔ حضرت فاطمہ الزّہرا کو بعض لوگوں نے بتایا کہ فَدَک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی مِلک تھا اور آپ اسکی وارث ہیں چانچہ انہوں نے خیلفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس فَدَک کی وراثت کا دعویٰ کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’اے فاطمہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزّہ کو اپنے اعزّہ سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ انبیائے کرام جو متروکہ چھوڑتے ہیں وہ کُل کا کُل کا صدقہ ہوتا ہے اور اس میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔ اسلئے میں اس جائداد کو تقسیم نہیں کرسکتا البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اقدس میں اہل بیت اس سے جو استفادہ کرتے تھے وہ اب بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
|
(#26)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس جواب سے بہت رنج پہنچا اور وہ حضرت ابوبکر صدیق سے ناراض ہو گئیں اور اپنی وفات تک ان سے نہ بولیں۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ بیمار ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عیادت کیلئے تشریف لے گئے تو سیّدہ نے انہیں اپنے مکان کے اندر آنے کی اجازت دے دی اور اپنی رنجش دور کردی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا سب سے زیادہ صدمہ سیّدہ فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کو ہوا اور وہ ہر وقت غمگین اور دل گرفتہ رہنے لگیں۔ ان کا دل ٹوٹ چکا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے چھہ ماہ بعد ہی 3 رمضان المبارک سنہ 11 ہجری کو 29 سال کی عمر میں عازم فردوس بریں ہوئیں۔وفات سے پہلے حضرت اسماء بنت عُمیس رضی اللہ عنہا کو بلا کر فرمایا: میرا جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردہ کا پورا لحاظ رکھنا اور سوائے اپنے اور میرے شوہر نامدار کے اور کسی سے میرے غسل میں مدد نہ لینا۔ تدفین کے وقت زیادہ ہجوم نہ ہونے دینا۔‘‘ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’اے بنت رسول! میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ایک ڈولے کی صورت بنا لیتے ہیں اور اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔‘‘
|
(#27)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
پھر انہوں نے کھجور کی چند شاخیں منگوائیں اور انہیں جوڑ کر اور پھر ان پر کپڑا باندھ کر سیّدہ بتول رضی اللہ عنہا کو دکھایا۔ انہوں نے پسند فرمایا۔ چانچہ وفات کے بعد ان کا جنازہ اسی طرح اسی طریقہ سے اٹھا اور جنازے میں بہت کم لوگوں کو شرکت کا موقع ملا کیونکہ سیّدہ کی وفات رات کے وقت ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وصیت کے مطابق رات ہی کو دفن کیا۔ نماز جنازہ حضرت عباس رضی اللہ عنہا نے پڑھائی اور حضرت علی ، حضرت عباس اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہم نے قبر میں اتارا۔ دار عقیل کے ایک گوشے میں مدفون ہوئیں۔ سیّدۃ النساء فاطمۃ الزّہرا رضی اللہ عنہا کی چھہ اولادیں ہوئیں۔ حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت محسن رضی اللہ عنہم اور حضرت امّ کلثوم، حضرت زینب، اور رقیّہ رضی اللہ عنہما۔ محسن اور رقیّہ نے بچپن ہی میں انتقال کیا۔ حضرت سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ، حضرت سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت امّ کلثوم رضی اللہ عنہا تاریخ اسلام کی نامور شخصیات ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل فاطمہ الزّہرا ہی سے باقی رہی۔ اہل سیئر نے حضرت فاطمہ الزّہرا کے بے شمار فضائل و مناقب بیان کیے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔ سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جنّت کی عورتوں کی سردار فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کرتے ’’اے فاطمہ تم اور تمہارا خاوند اور تمہاری اولاد میرے ساتھ جنّت میں سب ایک جگہ ہونگے۔‘‘
|
(#28)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’فاطمہ میرا پارہ گوشت ہے جس نے اس کو غصّہ دلایا اور ناراض کیا اس نے مجھے غصّہ دلایا اور ناراض کیا۔‘‘ حضرت فاطمہ الزّہرا، ان کے شوہر نامدار اور فرزندوں کی شان میں اللہ تعالیٰ نے آیت تطہیر نازل کی۔ حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا سے کُتُب احادیث میں اٹھارہ حدیثیں مروی ہیں۔ ان کے راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت حسن، حضرت حسین رضی اللہ عنہم، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا جیسی جلیل القدر ہستیاں شامل ہیں۔ علاّمہ اقبال رحمہ اللہ نے حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مزرعِ تسلیم را حاصل بتول مادراں را اسوہ کامل بتول بہر محتاجے دِلَش آن گونہ سوخت با یہودے چادرِ خودرا فروخت نوری وہم آتشی فرمانبرش گم رضائش درضائے شوہرش آں ادب پروردہ صبرورضا آسیا گردان و لب قرآں سرا گریہ ہائے اوزِبالیں بے نیاز گوہر افشاندے بدامانِ نماز رضی اللہ تعالیٰ عنہا
|
(#29)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حالات زندگی میں بہت ساری ایسی باتیں مجھے قابل توجہ لگیں، جو ہماری روزمرّہ کی زندگی میں واقع ہوتی ہیں لیکن ہم ان کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے یا اگر دیتے بھی ہیں تو بعد میں نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ اگر ہم ان پر عمل کریں تو زندگی بہت آسان اور پرسکون ہو سکتی ہے۔ میں ان باتوں کو آپ سے شیئر کر رہی ہوں آپ کو بھی جو باتیں اچھی لگیں یہاں شیئر کر سکتی⁄ سکتے ہیں۔ (۱) سب سے پہلے مجھے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی نکاح کےمعاملے میں فطری حیا کا مظاہرہ پسند آیا۔ جس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے بزرگوں اور قابل احترام ہستیوں کے سامنے حیا کا پاس رکھنا چاہیئے۔ نہ صرف نکاح کے معاملے میں بلکہ ہر بات کے معاملے میں ادب احترام اور حیا کا خیال رکھنا چاہیئے۔ جب مردوں کی حیا کا یہ عالم ہے تو عورتوں میں کتنی حیا ہونی چاہیئے یہ ہمیں خود سوچنا چاہیئے۔
|
(#30)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
(۲) نکاح کے انتظامات کیلئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زرہ فروخت کی گئی جس سے گھر کا سامان اور دلہن کی تیاری کیلئے خوشبو وغیرہ خریدی گئی۔ حتّیٰ کے ولیمہ کے کھانے کا بھی اسی زرہ کی فروخت سے بچ جانے والی رقم سے انتظام کیا گیا۔ ہمارے ہاں جہیز فاطمی کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو جہیز دیا تھا اور یہ یہ اشیاء اس میں شامل تھیں، یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جہیز نام کی تو کوئی چیز ہوتی ہی نہیں۔ سارا انتظام لڑکے کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دولھا لاکھوں روپے سامان اور ولیمہ کے کھانے پر خرچ کردے۔ اگر نکاح اتنا ہی سادہ ہو تو کتنے مسائل حل ہو جائیں۔ انشاء اللہ۔
|
![]() ![]() |
Bookmarks |
Tags |
اللہ, جنّت, حضرت, رضی, عن¬ |
|
|
![]() |
||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا | life | Islamic Issues And Topics | 19 | 08-21-2012 09:31 PM |
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کی فضیلت | ROSE | Hadees Shareef | 3 | 07-15-2012 09:13 PM |
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کی فضیلت | ROSE | Hadees Shareef | 2 | 07-14-2012 07:14 AM |
حضرت حارثة بن وهب الخزاعي رضی اللہ عنہ سے ر | ROSE | Hadees Shareef | 6 | 02-10-2012 10:53 PM |
حضرت عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہ | ROSE | Hadees Shareef | 6 | 02-10-2012 10:52 PM |