Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
Advertisement |
![]() ![]() |
|
Thread Tools | Display Modes |
(#11)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ وَلَنَصْبِرَ*نَّ عَلَىٰ مَا آذَيْتُمُونَا ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴿١٢﴾ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ رکھیں جبکہ اسی نے ہمیں ہماری راہیں سمجھائی ہیں۔ واللہ جو ایذائیں تم ہمیں دو گے ہم ان پر صبر ہی کریں گے۔ توکل کرنے والوں کو یہی ﻻئق ہے کہ اللہ ہی پر توکل کریں (12) تفسیر ١٢۔١ کہ وہی کفار کی شرارتوں اور سفاہتوں سے بچانے والا ہے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہم سے معجزات طلب نہ کریں، اللہ پر توکل کریں، اس کی مشیت ہوگی تو معجزہ ظاہر فرما دے گا ورنہ نہیں۔
|
Sponsored Links |
|
(#12)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ*وا لِرُ*سُلِهِمْ لَنُخْرِ*جَنَّكُم مِّنْ أَرْ*ضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَ*بُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ ﴿١٣﴾ کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ﻇالموں کو ہی غارت کر دیں گے (13) تفسیر ١٣۔١ جیسے اور بھی کئی مقامات پر اللہ تعالٰی نے فرمایا '(ولقدسبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین)۔ (انھم لھم المنصٓورون)۔ (وان جندنا لھم الغلبون)۔ سورۃ الصٓافات171 , 173۔ پہلے ہو چکا ہمارا حکم اپنے ان بندوں کے حق میں جو رسول ہیں کہ بیشک وہ منصوراور کامیاب ہوں گے اور ہمارا لشکر بھی غالب ہوگا '(کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی)۔ المجادلہ21۔ اور اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہونگے۔
|
(#13)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْ*ضَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ ﴿١٤﴾ اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے۔ یہ ہے ان کے لئے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیں اور میری وعید سے خوفزده رہیں (14) تفسیر ١٤۔١ یہ مضمون بھی اللہ نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے مثلاً، (ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصٓلحون)۔ الانبیا۔ 105ہم نے لکھ دیا زبور میں، نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے ' چنانچہ اس کے مطابق اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی، آپ کو با دل نخواستہ مکے سے نکلنا پڑا لیکن چند سالوں بعد ہی آپ فاتحانہ مکے میں داخل ہوئے اور آپ کو نکلنے پر مجبور کرنے والے ظالم مشرکین سر جھکائے، کھڑے آپ کے اشارہ ابرو کے منتظر تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلق عظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے (لَا تَثْرِیبَ عَلیْکُمْ) کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔صٓلوات اللہ وسلامہ علیہ ۱٤۔۲ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ۔(واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۔ فان الجنۃ ہی الماوی)۔ النازعات۔41 42 جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکے رکھا یقینا جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔ ۔(ولمن خاف مقام ربہ جنتن)۔ الرحمن46۔ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔
|
(#14)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
اسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ* عَنِيدٍ ﴿١٥﴾ اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا اور تمام سرکش ضدی لوگ نامراد ہوگئے (15) تفسیر ١٥۔١ اس کا فاعل ظالم مشرک بھی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے بالآخر اللہ سے فیصلہ طلب کیا۔ یعنی اگر یہ رسول سچے ہیں تو یا اللہ ہم کو اپنے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دے جیسے مشرکین مکہ نے کہا (اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِر عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنْ السَّمَآءِ اَوِائُتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ) سورۃ انفال۔ ٣٢) ' اور جب کہ ان لوگوں نے کہا، اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے '۔ جس طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے اس قسم کی آرزو کی تھی جس کا ذکر اللہ نے (انفال۔ ١٩) میں کیا ہے یا اس کا فاعل رسول ہوں کہ انہوں نے اللہ سے فتح و نصرت کی دعائیں کیں، جنہیں اللہ نے قبول کیا۔
|
(#15)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
مِّن وَرَ*ائِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَىٰ مِن مَّاءٍ صَدِيدٍ ﴿١٦﴾ اس کے سامنے دوزخ ہے جہاں وه پیﭗ کا پانی پلایا جائے گا (16) تفسیر ١٦۔١ صَدِیْد، پیپ اور خون جو جہنمیوں کے گوشت اور ان کی کھالوں سے بہا ہوگا۔ بعض احادیث میں اسے وصاۃ احل النار(مسند احمد جلد 5 صفحہ 171) (جہنمیوں کے جسم سے نچوڑا ہوا) اور بعض احادیث میں ہے یہ صدید اتنا گرم اور کھولتا ہوا ہوگا کہ ان کے منہ کے قریب پہنچتے ہی ان کے چہرے کی کھال جھلس کر گر پڑے گی اور اس کا ایک گھونٹ پیتے ہی ان کے پیٹ کی آنتیں پاخانے کے راستے باہر نکل پڑیں گی۔ اَعَاذَنَا اللہ مِنہُ
|
(#16)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ*حْمَـٰنِ الرَّ*حِيمِ کمپوزنگ: irum تفسیر سورۃ النحل ---------- از تفسیر احسن البیان أَتَىٰ أَمْرُ* اللَّـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِ*كُونَ ﴿١﴾ يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّ*وحِ مِنْ أَمْرِ*هِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُ*وا أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ ﴿٢﴾ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ*ضَ بِالْحَقِّ ۚ تَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِ*كُونَ ﴿٣﴾ اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا، اب اس کی جلدی نہ مچاؤ۔ تمام پاکی اس کے لیے ہے وه برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں (1) وہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاه کر دو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو (2) اسی نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا وه اس سے بری ہے جو مشرک کرتے ہیں (3) تفسیر تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ حمد ثنا کریں ، نماز پڑھیں اور رب کی عبادت کریں ، اس سے قلبی سکون بھی ملے گا اور اللہ کی مدد بھی حاصل ہوگی ، سجدے سے یہان*نماز اور یقین سے مراد موت ہے۔ اس سے مراد قیامت ہے ، یعنی وہ قیامت قریب آگئی ہے جسے تم دور سمجھتے تھے پس جلدی نہ مچاؤ یا وہ عذاب مراد ہے جسے مشرکین طلب کرتے تھے اسے مستقبل کی بجائے ماضی کے صیغے سے بیان کیا کیوں کہ اس کا وقع یقینی ہے۔ روح سے مراد وحی ہے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ رُوحًۭا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِى مَا ٱلْكِتَٰبُ وَلَا ٱلْإِيمَٰنُ (الشوری52) اس طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے وحی کی ، اس سے پہلے آپ کو علم نہیں تھا کہ کتاب کیا ہے ، اور ایمان کیا ہے ، ۔ 3 مراد انبیاعلیہم السلام ہیں جن پر وحی نازل ہوتی ہے ۔ جس طرح اللہ نے فرمایا ٱللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُۥ ۗ (النعام124) اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کہاں اپنی رسالت رکھے ،، ''وہ اپنے حکم سے بندوں میں جس پر چاہتا ہے وحی ڈالتا یعنی نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات والے( قیامت کے) دن سے لوگون کو ڈرائے ''( المومن15 ) 4 یعنی محض تماشے اور کھیل کود کے طور پر نہیں پیدا کیا بلکہ ایک مقصد پیش نظر ہے وہ ہے جزاو سزا ، جیسا کہ ابھی تفصیل گرزی ۔
|
(#17)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ ﴿٤﴾ وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ﴿٥﴾ وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِ*يحُونَ وَحِينَ تَسْرَ*حُونَ ﴿٦﴾ اس نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا پھر وه صریح جھگڑالو بن بیٹھا (4) اسی نے چوپائے پیدا کیے جن میں تمہارے لیے گرمی کے لباس ہیں اور بھی بہت سے نفع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں (5) اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر ﻻؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی (6) تفسیر یعنی ایک جامد چیز سے جو ایک جاندار کے اندرد سے نکلتی ہے جسے منی کہا جات اہے اسے مختلف اطوار سے گزار کر ایک مکمل صورت دی جاتی ہے ، پھر اس مٰن اللہ تعالٰی روح پھونکتا ہے اور ماں کے پیٹ سے نکال کر اس دنیا میں لاتا ہے جس میں وہ زندگی گزارتا ہے لیکن جب اسے شعور آتا ہے تو اسی رب کے معاملے میں جھگڑتا ، اس کا انکارکرتا یا اس کے ساتھ شریک ٹہراتا ہے 2 اسی احسان کے ساتھ دوسرے احسان کا ذکر فرمایا کہ چوپائے (اونٹ ، گائے بکریاں )بھی اسی نے پیدا کیے ، جن کے بالوں اور اون سے تم گرم کپڑے تیار کر کے گرمی حاصل کرتے ہو ، اسی طرح ان سے دیگر منافع حاصل کرتے ہو مثلا ان سے دودھ حاصل کرتے ہو ان پر سواری کرت ہو اور سامان لادتے ہو ان کے ذریعے سے ہل چلاتے اور کھیتوں کو سیراب کرتے ہو ، وغیرہ وغیرہ 3 تریحون جب شام کو چراگاہوں سے چا کر گھر لاؤ تسرحون جب صبح چرانے کے لیے لے جاؤ ان دونوں وقتوں میں یہ لوگوں کی نظروں میں آتے ہیں جس سے تمہارے حسنو جمال میں آضافہ ہوتا ہے ان دونوں اوقات کے علاوہ وہ نظروں سے اوجھل رہتے یا باڑوں میں بند رہتے ہیں ۔
|
(#18)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنفُسِ ۚ إِنَّ رَ*بَّكُمْ لَرَ*ءُوفٌ رَّ*حِيمٌ ﴿٧﴾ اور وه تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں جہاں تم بغیر آدھی جان کیے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ یقیناً تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے (7) تفسیر 4 یعنی ان کی پیدائش کا اصل مقصد اور فائدہ تو ان پر سواری کرنا ہے یہ زینت کا بھی باعث ہیں ۔ گھوڑے ، خچر، اور گدھون کے الگ ذکر کرنے سے بعض فقہا نے استدلال کیا ہے کہ گھوڑا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح گدھا اور خچرعلاوہ ازیں کھانے والے چوپایوں کا پہلے ذکر آچکا ہے ۔ اس لیے اس آیت میں جن تین جانوروں کا ذکر ہے یہ صرف رکوب (سواری)کے لیے ہے ۔ لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ صحیح احادیث سے گھوڑے کی حلت ثابت ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی کی موجودگی میں خیبر اور مدینہ میں گھوڑا ذبح کر کے اس کا گوشت پاکا اور کھایا ۔ آپ ص نے منع نہیں فرمایا (ماحط ہوصحیح مسلم باب مذکور و مسند احمد ض 3 ص356ابوداود کتاب الاطعمہ باب فی اکل لحوم الخیل )اسی لیے جمہور علما اور سلفو خلف کی اکثریت گھوڑے کی حلت کی قائل ہے (تفسیر ان کثیر )یہاں گھوڑے کا ذکر محض سواری کے ضمن میں اس لیے کیا گی اہے کہ اس کا گالب ترین استعمال اسئ مقصد کے لیے ہے وہ ساری دنیا میں ہمہشہ اتنا گراں اور قیمتی ہوا کرتا ہے کہ خوراک کے طور پر اس کا استعمال بہت نادر ہے بھٹ بکری کی طرح اس کو خوراک کے لیے ذبح نہیں کیا جاتا لیکن اس کے معنی نہیں کہ اس کو بلا دلیل حرام ٹھرا دیا جائے
|
(#19)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ* لِتَرْ*كَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨﴾ گھوڑوں کو، خچروں کو، گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وه باعﺚ زینت بھی ہیں۔ اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں (8) تفسیر زمین کے زیریں حصے میں اسی طرح سمندر میں اور بے آب و گیاہ صحراؤں اور جنگلوں میں اللہ تعالٰی مخلوق پیدا فرماتا رہتا ہے جن کا علم اللی کے سوا کسی کو نہیں اور اسی مین انسان کی بنائی ہوئی وہ چیزیں بھی آجاتی ہیں جو اللہ کے دیئے ہوےئ دماغ اور صلاحیتں کو بروئے کا لاتے ہوئے اسی کی پیدا کردا چیزوں کو مختلف انداز مٰن جوڑ کر وہ تیار کرتا ہے مثلا بس کار ،ریل گاڑی، جہاز اور ہوائی جہاز اور اس طرح کی بے شمار چیزیں اور جو مستقبل میں متوقع ہیں
|
(#20)
![]() |
|
|||
![]() ![]() ![]()
وَعَلَى اللَّـهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ* ۚ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٩﴾ اور اللہ پر سیدھی راه کا بتا دینا ہے اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں، اور اگر وه چاہتا تو تم سب کو راه راست پر لگا دیتا (9) تفسیر اس کے ایک دوسرے معنی ہیں'' اوراللہ پر ہی ہے سیدی راہ''یعنی اس کا بیان کرنا۔ چناچہ اس نے اسے بیان فرمادیا اور ہدایت اور ضلالت دونوں کو واضح کر دیا اسی لیے آگے فرمایا کہ بعض راہیں ٹیرھی ہیں یعنی گمراہی کی ۔ 3 لیکن اس میں چونکہ ضبر ہوتا ہے اور انسان کی آزمائش نہ ہوتی ، اس لیے اللہ نے اپنی مشیت سے سب کو مجبور نہیں کیا بلکہ دونوں راستوں کی نشاندہی کر کے انسان کو ارادہ اور اختیار کی آزادی دی ہے
|
![]() ![]() |
Bookmarks |
Tags |
احسن, از, سورة, |
|
|
![]() |
||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
اسلامی طرز معاشرت اور انسانی زندگی پر اس ک | life | Islamic Issues And Topics | 10 | 08-13-2012 02:19 AM |
سورة الإسراء آیت نمبر ٣١،٣٢ | PRINCE SHAAN | Quran | 7 | 02-24-2012 09:28 PM |
حضرت حارثة بن وهب الخزاعي رضی اللہ عنہ سے ر | ROSE | Hadees Shareef | 6 | 02-10-2012 10:53 PM |
سنسنی خیز مقابلہ، آسٹریلیا فاتح | -|A|- | Sports | 3 | 01-15-2012 11:42 PM |
انگریزی رسالہ انسپائر-7 اردو زبان میں : اور م | ~ABDULLAH~ | Islamic Issues And Topics | 2 | 11-23-2011 10:46 AM |