میں ہر شب سوچتا ہوں
دور ہو جائوں بچھڑ جاؤں
کسی آوارہ بادل کی طرح برسوں بکھر جاؤں
یا پھر اپنے لبوں کی مسکراہٹ کی طرح
خود سے بھی کھو جائوں، کبھی بھی مل نہیں پاؤں
کبھی یہ بھی خیال آتا ہے، اک دیوار بن جائے
بہت اونچی بہت لمبی کہ جس کے پار بس تم ہو
کبھی میں دیکھ نہ پاؤں
میں ہر شب سوچتا ہوں اور وہ دیوار اٹھاتا ہوں
اندھیری شب میں اس دیوار کی تعمیر ہوتی ہے
بہت مضبوط ہوتی ہے
مگر۔۔۔۔۔۔۔
سورج کی کرنیں صبح آکر یہ بتاتی ہیں
کبھی بھی ریت کی دیوار قائم رہ نہیں سکتی
تعلق جڑ نہ پائے تو فنا بھی ہو نہیں سکتا
جو زہن و دل پہ چھایا ہو جدا وہ ہو نہیں سکتا
میں ہر شب سوچتا ہوں
Mujey Sooney Do , Milna ha Kisi se Khawab Main