"میں بہت پریشان ہوں.. ڈیپرشن کا مریض ہو گیا ہوں اور مجهے لگتا ہے کہ میں نشہ کرنا شروع کر دوں گا."
میں نے کہا: میری بات سنو. ابهی کل ہی تمهاری بهابهی کچن کی کچھ چیزیں خرید ک لائی اور اس میں چمچے لٹکانے کے لیے ایک دیوار گیر سٹینڈ بهی تها. میں نے کہا. "بیگم! آپ کے پاس تو میرے خیال میں کوئی دس بارہ چمچے ہیں اور وہ بهی سٹیل کے جبکہ یہ سٹینڈ بہت نازک سا ہے اور اس پر تو صرف 6 چمچے لٹکانے کی گنجائش ہے." لیکن چونکہ وہ بہت مہنگا خرید کر کے آئی تهی اور دکاندار کی باتوں پر اس کو ایک سو ایک فیصد اعتماد تها تو اس نے میری بات کو کوئی خاص اہمیت نہ دی. ہنس کر ٹال گئی. تهوڑی دیر بعد اس نے بڑے شوق سے وہ سٹینڈ کچن میں جا کر ایک جگہ لگا دیا اور اس پر سارے کے سارے چمچے آگے پیچھے کر کے لٹکا دیے. میں بڑی دیر دیکهتا رہا سٹینڈ بڑی آن بان سے قائم تها. میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ پیسے ضائع نہیں ہوئے اور میری پیاری بیگم کا بهرم بهی رہ گیا.
اگلی صبح ہماری آنکھ پڑوس کے مرغے کی بانگ سے نہیں بلکہ "تڑ تڑ تڑاخ ٹن ٹن ٹننن" سے کهلی. آخر بے چارہ سٹینڈ کب تک "غیر قانونی" بوجھ برداشت کرتا. گر گیا اور ستم یہ کہ اس کے عین نیچے جو کانچ کے گلاسوں والا سٹینڈ تها اس کو بهی "لے ڈوبا!"
میں نے دیکها میرے دوست کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تهی.
"تو میرے بهائی تمهارا مسئلہ بهی یہی ہے. ہم سب کچھ خود برداشت نہیں کر سکتے. ساری پریشانی اکیلے نہیں اٹها سکتے. ہماری روح ٹوٹ جاتی ہے تهک جاتی ہے. ہمارا دل اتنے زیادہ بوجھ سے پرشان ہو جاتا ہے. تم اپنی پریشانیاں اپنے بوجھ اللہ تعالیٰ کو دے دو. پتہ ہے جو لوگ اللہ سے اپنے غم شئیر نہیں کر پاتے وہ ایک دن کڑهتے کڑهتے اور ڈهیر سارے دکهوں کا بوجھ ڈهوتے ڈهوتے اسی طرح گر جاتے ہیں جیسے وہ سٹینڈ گر گیا تها. اور اپنے اردگرد کتنے ہی پیارے عزیزوں کو بهی اپنے ساتھ ساتھ اداس اور پریشان رکهتے ہیں. تو کیا بہتر نہیں ہے کہ ہم اپنی تکلیفوں اور غموں کا بوجھ پیارے رب کو دے دیں؟ اور وہ تو پہلے ہی کہ چکا ہے تمهاری پریشانیوں اور دکهوں کا علاج میرے پاس ہے.. میرے ذکر میں ہے مجهے یاد کرنے میں ہے. میں ہوں جو تمهارے سب سے زیادہ قریب ہوں. میں ہوں جو تمهیں سب سے زیادہ سمجهتا ہوں. پهر تم مجهے ہی چهوڑ کر چلے جاتے ہو میری ہی یاد سے منہ موڑ لیتے ہو تو پهر پوری دنیا مل کر تمهیں سکون نہیں دے سکتی تمهارا غم ہلکا نہیں کر سکتی........."
میرا دوست رو رہا تها. میں اسے چهوڑ کر چلا آیا کونکہ اب اس نے سارا بوجھ اللہ تعالیٰ سے شئیر کرنا تها.