اجڑے ہوۓ لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانئیے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے؟
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
اس شخص کےتم سے بھی مراسم ہیں، تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا میرے سامنے آکر
اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمٍ احباب
میں نے تو کہا تھا، میرے دل میں رہا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پے کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
برہم نہ ہو، کم فہمی کو تہ نظراں پر
اے قامت فن اپنی بلندی کا گلا کر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے!
تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر
میں مر بھی چکا، مل بھی چکا، موج ہوا میں
اب ریت کے سینےپہ مرا نام لکھا کر
پہلا سا کہاں اب مری رفتار کا عالم!
اےگر دش دوراں، ذرا تھم تھم کے چلا کر
اس رت میں کہاں پھول کھلیں گے دل ناداں؟
زخموں کو ہی وابستہ زنجیر صبا کر
اک روح کی فریاد نے چونکا دیا مجھ کو
تُو اب تو مجھے جسم کے زنداں سے رہا کر
اس شب کے مقدّر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
محسن نقوی