Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
Advertisement |
|
Thread Tools | Display Modes |
|
(#1)
![]() |
|
|||
![]() ھدایت السالکین فاسالواھل الذکران کنتم لاتعلمون(سورہ النحل) اس آیہ مبارک کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت علامہ قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ان شککم فی ارسال اللہ الرجال فاسئلوااہل العلم بالکتب السابقہ من الیہود والناصریٰ۔ یعنی اگر تم کو انسانوں کے رسول بناکر بھیجنے میں شک ہے تو سابقہ کتابوں کے علم رکھنے والے علماء یہودونصاریٰ سے پوچھہ لووہ بھی یہی گواہی دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی جتنے انبیاہ کرام تشریف لائے وہ بھی انسان ہی تھے نہ (فرشتے)۔واضح ہوکہ قرآن مجید کا نزول خاص اور حکم عام ہوتا ہے۔ نزول اگرچہ زمانہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی خاص موقع میں ہواہوتا ہے مگر تاقیامت اس کا حکم بعینہ جاری رہتا ہے۔اس لئے لکھتے ہیں۔وفی الاٰیتہ دلیل علیٰ وجوب المراجعتہ الی العلماء للجھال فیما لا یعلمون وان الاحبار مفیدتہ للعلم ان کان المخبرثقتہ علیہ۔ (تفسیر مظہری صفحہ ٣٤٢جلد خامسہ) حضرت امام محمد فخر الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ نے تو یہاں تک لکھہ دیاہے کہ واحتج بھٰذہ الاٰیتہ فقال لمالم یکن احدالمجتھدین عالما وجب علیہ الرجوع الیٰ المجتھد الاٰخرالذی یکون عالما لقولہ تعالیٰ فاسئلو اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون فان لم یجب فلااقل من الجواز۔ (تفسیر کبیر ٩٠٣ جلد خامس) اس آیتہ کریمہ سے وہ لوگ دلیل پکڑتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اگر مجتہد کو کوئی مسئلہ معلوم نہ ہو تو اس کے لیے واجب ہے کہ دوسرے مجتہد کی طرف رجوع کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا ہے فاسلواھل الذکر ان کنتم لا تعلمون اگر یہ مان لیا جائے کہ علماءحق سے پوچھنا کرنا واجب نہیں پھر بھی کم از کم جواز تو ثابت رہے گا یہاں معلوم ہواکہ عوام الناس کے لیے تقلید مجتہد ازحد ضروری ہے۔ اس لیے کہ جب مجتہد کے لیےیہ واجب و لازم قرار پایا کہ جب اسے کسی مسئلہ میں مکمل تحقیق نہ ہو تو دوسرے مجتہد کی طرف رجوع کرے تو عوام الناس کو بطریق اولیٰ ہر مسئلہ میں آئمہ مجتہدین کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اسی طرح اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنا علماء و عوام سبھی کے لئے یکساں مفید بلکہ ضروری ہے۔ اس لیے کہ کاملوں کی صحبت میں رہنے سے انکے اطلاق و عادات اپنانے کا شوق پیداہوگا۔جس میں دارین کی سعادت ہے۔ اسی آیہ مبارکہ کے ماتحت شیخ المشائخ حافظ ابوالفداء اسماعیل نے سیدنا حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نحن اھل ذکر و مرادہ ان ھٰذاہ الامتہ اھل الذکر صحیح فان ھٰذہ الامتہ اعلم من جمیع الامم السالفتہ و علماء اھل بیت رسول اللہ علیھم السلام والرحمتہ من خیر العلماء اذا کانو علی السنتہ کعلی وابن عباس وابنی علی الحسن والحسین محمد بن الحنیفیتہ و علی بن الحسین زین العابدین و علی بن عبداللہ بن عباس وابی جعفر الباقروھو محمد بن علی بن الحسین وجعفر ابنہ اومثالھم واضرابھم واشکالھم ممن ھو متمسک بحبل اللہ متین وصراطہ المستقیم (تفسیر ابن کثیر صفحہ ٥٧ جلد ٢): (اور اہل ذکر ہم ہی ہیں اور اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ ساری امت محمدیہ اہل ذکر ہے کیونکہ یہی امت سابقہ جمیع امتوں سے زیادہ جاننے والی ہے اور علماء اہل بیت نبوت سب علماء سے بہتر ہیں بشرطیکہ وہ قرآن و حدیث پر کاربند ہوں جس طرح حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت حسن، حضرت حسین،حضرت محمد بن حنیفہ،حضرت علی بن حسین، زین العابدین، حضرت علی بن عبداللہ بن عباس،حضرت امام باقر(محمد بن علی بن حسین) اور ان کے صاحبزادے حضرت جعفررضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ جتنے بھی علماء اہل بیت نبوت میں سے دین برحق پر پوری طرح عامل ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی رسی (دین) کو پوری طرح پکڑے ہوئے ہوں۔ صراط مستقیم پر گامزن ہوں وہ دیگر علماء امت سے بہتر و برتر ہیں) ان واضع دلائل سے معلوم ہواکہ کوئی بھی شخص جاہل ہو یا عالم فقیہ ہو یا مجتہد اس کو جو چیز امور شرعیہ ضروریہ میں سے معلوم نہ ہو اس کے حصول کے لئے فقہاء اور مشائخ کی خدمت میں جانا ضروری ہے۔ سیدنا حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہما نوسو٩٠٠ علماء و مشائخ کی خدمت میں حاضر ہوکر علوم و فیوض حاصل کئے۔ جن میں تین سو تابعین تھے (رضی اللہ عنہم) مشہور حکیم دان اور ولی حضرت لقمان حکیم رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق بعض روایات میں مذکور ہے کہ انہوں نے ایک ہزار انبیاء اکرام کی صحبت کی ہے۔ غرضیکہ علم و عقل بھی جب کارآمد و مفید ہوں گے جب مقربان الٰہی انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام علیہم الرحمتہ الغفر ان کی صحبت اختیار کی جائے گی ان سے عقیدت و محبت ہوگی۔ چنانچہ حضرت امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الانوارالقدسیتہ فی بیان آداب العبودیتہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ علم بغیر صحبت صالحین کے ثمردارنہیں ہوسکتا۔ وعلم انہ لایمکن یطالب العلم العمل بالعلم وآدابہ ویضیر علیہ الانس الخیر الا اذاکان معتقدا فی طالقتہ الفقراء مخالطالھم فبذالک یثمرلہالعمل بالعلم لانھم ینبھونہ علی الدسائس المانعتہ للقلب عن قبول الخیر لان العلم قوت للنفس وکلما کثرقویت وتکبرت وابت علی الخیر (الانوارالقدسیتہ صفحہ٤٥ ) (یہ ممکن ہی نہیں کہ فقراء کے ساتھہ حسن و عقیدت اور ان کی صحبت کے بغیر کوئی طالب علم اپنے علم کے مطابق عمل کرے اور اس کے آداب (مقتضیات) بجالائے اور قلبی اطمینان حاصل کرے۔ مشائخ کی صحبت سے ہی علم کے ساتھہ عمل کا ثمرہ شامل ہوسکتا ہے کیونکہ یہی فقراء ان خرابیوں سے مطلع اور متنبہ (باخبر) کرتے ہیں جوکہ طالب کے قلب میں خیر و بھلائی کے قبول کرنے سے مانع ہوتے ہیں، اس لیے کہ علم کے ساتھہ تو نفس کو اور بھی تقویت ملتی ہے جتنا علم زیادہ ہوتا جاتا ہے اتنا نفس بھی بڑھتا جاتاہے اور تکبر کرتا ہے اور نیکی کے کاموں سے انکار کر بیٹھتا ہے) حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے لیس العلم بکثرت الروایت انما ھو نور یضعہ اللہ تعالیٰ فی القلب۔ (طبقات کبریٰ صفحہ ٤٥) علم زیادہ اور روایات نقل کرنے یا یاد کرنے کا نام نہیں ہے علم ایک نور ہے جو اللہ تعالیٰ دلوں میں رکھواتا ہے اورحضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں لعس العلم ما حفظ انما العلم ما نفع۔ علم یہ نہیں کہ اس کو یاد کیا اور بس علم وہ ہے جو نفع پہنچائے۔ اور علم نافع کے متعلق حدیث شریف میں تصریح موجود ہے کہ علم نافع علم قلب و باطن ہے۔ عن الحسن رضی اللہ عنہ العلم علمان فعلم فی القلب فذالک العلم النافع وعلم علی اللسان فذاک حجتہ اللہ عزوجل علیٰ ابن آدم۔ (رواہ الدارمی (مشکوات)) علم دو قسم پر پے ایک دل کا علم ہے اور یہی نفع دینے والا ہے اور دوسرا علم زبان کا ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع انسان پر حجت ہے۔ محدث اعظم حضرت علامہ ملا علی قاری رحمت اللہ الباری اسی حدیث شریف کے ماتحت لکھتے ہیں (فی القلب) ای حاصل و داخل فیہ لایطلع علیہ غیراللہ۔۔۔۔۔۔۔۔والقاء السبیت ای فبسبب اسقرارہ فی القلب الذی ھو محل حب الرب ھو العلم نافع فی الدارین۔ (مرقات مشکواٰت ٢٥٦) یعنی وہ علم دل میں حاصل اور داخل ہوجاتاہے سوائے اللہ رب العزت کے کوئی بھی اسے نہیں جانتا اور لفظ فاء یہاں سبیبت کے لیے وارد ہے اور مطلب یہ ہے کہ دل اللہ رب العزت کی محبت و معرفت کا مکان ہے۔ اسی لیے یہ علم دنیا وآخرت میں نافع ہے کسی اہل دل نے کیا ہی خوب فرمایا ہے میان عاشق و معشوق رمزے است کراما کاتبین راہم خبرنیست قدیحل الاول علیٰ علم الباطن والثانی علیٰ علم الظاھر لٰکن فیہ انہ لایتحق شیء من علم الباطن الا بعد التحقق باصلاح الظاھر کما ان علم الظاھر لایتم الا باصلاح الباطن ولذاقال الامام مالک من تفقہ ولم یتصوف فقد تفسق ومن تصوف ولم یتفقہ فقد تزندق ومن جمع بینھما فقد تحقق۔ (مرقات صفحہ ٢٥٦ جلد١) پہلے (علم فی القلب) سے مراد علم باطن اور دوسرے (علم علی اللسان) سے علم ظاہر بھی مراد لیا گیا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اصلاح ظاہر کے بغیر علم باطن حاصل نہیں ہوتا۔بعینہ اسی طرح جس طرح علم ظہاراصلاح باطن کے سوائے کامل نہیں ہوتا۔اسی لئے حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جس نے علم دین پڑھا اور تصوف و فقیری کے علوم سے دور رہا تو وہ فاسق ہے اور جس نے زہد و فقیری تو اختیار کی مگر علوم شرعیہ فرائض و سنن کا علم حاصل نہیں کیا تو وہ زندیق ہے اور جس نے علم شرعیہ اور تصوف و فقیری دونوں چیزیں اکھٹی کیں اس نے سچ اور حق حاصل کرلیا) سادات طریقہ علیہ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسراراہا لیہا علم فی القلب سے ذکر قلبی مراد لیتے ہیں بالفاظ شیخ محقق لایطلع علیہ غیراللہ بھی یہی ذکر ہے محبت رب العزت کا محل و مکان بھی قلب مؤمن ہی ہے قلب المؤمن بیت اللہ قلب المؤمن عرش اللہ مؤمن بندے کا دل خداتعالیٰ کا بیت (گھر) اور عرش ہے۔ حدیث قدی میں آتا ہے لایسعنی ارضی ولاسمائی ولٰکن یسعنی قلب عبدمؤمن۔ (مجھے میرے زمین وآسمان نہیں سماکتے لیکن میں اپنے مؤمن بندے کے دل میں سماجاتاہوں) بیت کعبہ بنگاہ خلیل اکبر است دل گزرگاہ جلیل اکبر است کعبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا بنایاہوامکان ہے۔ لیکن دل تو اللہ تعالیٰ کا بنایاہوا اور اس کا رہ گزرہے۔
|
Sponsored Links |
|
Bookmarks |
|
|
![]() |
||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
لہسن کی افادیت کا راز کھل گیا | ROSE | Health & Care | 5 | 05-28-2013 11:36 PM |
بے خیال ہستی نوں کم دا دھیان لا دتا | ROSE | Punjabi Poetry | 13 | 05-30-2011 11:25 AM |
ے خیال ہستی نوں کم دا دھیان لا دتا | ROSE | Punjabi Poetry | 13 | 05-28-2011 06:07 PM |
بے خیال ہستی نوں کم دا دھیان لا دتا | ROSE | Punjabi Poetry | 6 | 05-16-2011 11:00 AM |
ساحل کی ریت پہ لکھا جو نام تھا مٹا دیا | ROSE | Miscellaneous/Mix Poetry | 7 | 10-05-2010 04:19 AM |