Islamic Issues And Topics !!! Post Islamic Issues And Topics Here !!! |
Advertisement |
![]() ![]() |
|
Thread Tools
![]() |
Display Modes
![]() |
(#1)
![]() |
|
|||
Read Kar K Hi CommenTs Dijiga ’’ہادی… اب بس بھی کرو‘ کتنی دیر سے بیٹھے ویڈیو گیم کھیل رہے ہو۔‘‘ نوشی دوپہر کے کھانے کے بعد کچن صاف کرکے بارہ سالہ ہادی کے کمرے میں آئی تو اسے ویڈیو گیم کھیلتے دیکھ کر بھڑک اٹھی۔ اس کی زور دار آواز سے ہادی کی بھی محویت ٹوٹی اور وہ ہڑبڑاتے ہوئے چونک سا گیا۔ ’’ایک تو تمہاری نظر کمزور ہے اوپر سے اتنی دیر گیم کھیلتے رہتے ہو پھر اس کے فوراً بعد تمہیں کارٹون دیکھنے یاد آجائیں گے… آخر کوئی اور ایکٹویٹی نہیں ہے کیا تمہارے پاس؟‘‘ ’’مما صرف ایک گھنٹہ ہی تو ہوا ہے ابھی۔‘‘ ہادی نے منہ بسورتے ہوئے اسکرین پر موجود کرداروں کو دیکھا جو اس کی طرف سے کمانڈ کے منتظر تھے۔ ’’ایک گھنٹہ؟‘‘ حیرت سے نوشی کی آنکھیں پھیل گئیں۔ جبھی تیزی سے آگے بڑھ کر اس نے گیم کا ریموٹ اٹھا کر آف کا بٹن دبایا اور پھر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا؟ اتنی دیر ویڈیو گیم کھیلتے ہیں کیا؟‘‘ ’’تو اور کیا کروں؟ آج ہوم ورک بھی نہیں ہے‘ کھیل لینے دیں ناں۔‘‘ منہ بسورتے ہوئے اس نے التجائیہ انداز میں اپنا مدعا بیان کیا‘ اکتاہٹ اور بیزاری اس کے انداز سے بخوبی ظاہر تھی۔ ’’جائو‘ جاکر باہر کھیل آئو۔‘‘ اپنے تئیں نوشی نے اسے بہترین تجویز دی تھی۔ ’’اتنی دھوپ میں؟ کیا واقعی چلا جائوں؟‘‘ ہادی کی حیرت اور بروقت مصدقہ اطلاع پر نوشی کو محسوس ہوا کہ شاید وہ جھلاہٹ کا شکار ہو رہی ہے اور اس سے ہادی کا یوں فارغ بیٹھنا برداشت نہیں ہو پارہا۔ دراصل یہ وقت ہادی کے قرآن پاک پڑھنے کا تھا۔ قاری صاحب روز اسی وقت قرآن پاک پڑھایا کرتے تھے‘ جبھی اس کی روٹین اس طرح کی ہوتی کہ اسکول سے واپسی پر لنچ کے بعد قرآن پاک پڑھنے اور پھر ٹیوٹر کے آنے کے بعد ہوم ورک کرنے سے کھیلنے کا وقت مختصر ہی بچ پاتا‘ جس میں وہ خود اپنی مرضی سے آئوٹ ڈور یا ان ڈور گیمز کا انتخاب کیا کرتا۔ ہادی کی اس روٹین سے خود نوشی کے دل میں بھی یہ احساس پیدا ہوتا کہ ہادی بغیر وقت ضائع کیے ایک بہترین شیڈول کے تحت پروان چڑھ رہا ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہوا جب قاری صاحب انتقال کرگئے اور بچوں کو فراغت کے لمحات زیادہ سے زیادہ میسر آنے لگے اور یہی بات خود نوشی کے لیے بھی انتہائی پریشان کن تھی۔ …٭٭٭… ’’ہما… کوئی بندوبست ہوا بچوں کو قرآن پاک پڑھوانے کا؟‘‘ ہادی کو اسکول اور منیب کو آفس روانہ کرنے کے بعد نوشی نے اپنے لیے گرم گرم چائے بنائی۔ فون ہاتھ میں لیا اور ٹی وی پر نیوز چینل لگانے کے بعد آواز بند کرکے صوفے پر دونوں پائوں رکھ کر آرام سے بیٹھنے کے بعد ہما کا نمبر ملایا۔ ’’ارے نہیں یار‘ یاد ہی نہیں رہتا رازی سے کہنا… اور پھر میں نے سوچا چلو خیر ہے کچھ دن بچے بھی ریلیکس ہوجائیں۔‘‘ ’’وہ سب تو ٹھیک ہے مگر ہادی بہت دیر ٹی وی کے آگے بیٹھا رہتا ہے‘ پہلے اچھا تھا کہ کچھ دیر قرآن پاک پڑھنے کے بہانے ٹی وی تو نہیں لگا پاتا تھا ناں۔‘‘ نوشی نے ٹی وی پر چلنے والی نیوز پر نظر دوڑاتے ہوئے اپنی پریشانی بیان کی تو ہما ہنس دی۔ ’’اچھا… اچھا تم ہادی کو ٹی وی سے دور رکھنا چاہتی ہو۔ میں بھی سوچ رہی تھی تم کب سے اسلامی بہن بن گئیں جو قرآن پاک نہ پڑھنے پر اتنی پریشان ہو رہی ہو۔‘‘ اس کی بات پر خود نوشی بھی قہقہہ لگائے بغیر نہیں رہ پائی تھی۔ ’’دراصل اس کی نظر بھی تو کمزور ہے ناں۔‘‘ ’’ہاں وہ تو مجھے پتہ ہے‘ چلو ٹھیک ہے ایسا کرتے ہیں آج رازی آفس سے آتے ہیں تو میں ان سے بات کرتی ہوں۔‘‘ ’’ویسے ابھی کچھ دن پہلے میری اقرا اور نبیلہ سے بھی اسی ٹاپک پر بات ہوئی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ابھی بچوں پر ویسے ہی اسٹڈیز کا اتنا بوجھ ہے‘ اسی لیے بہتر ہوگا اگر ہم میٹرک تک انتظار کرلیں۔‘‘ ’’کس بات کا انتظار؟‘‘ چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے وہ ہما کی کہی گئی بات کو سمجھ نہیں پائی تھی۔ ’’قرآن پاک پڑھوانے کا‘ یعنی ابھی جس طرح ہے ویسے ہی چلنے دیا جائے‘ اور میٹرک کے ایگزام کے بعد ہونے والی چھٹیوں میں بچے قرآن پاک پڑھ لیں۔ اس طرح ان پر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا ناں‘ کیا خیال ہے؟‘‘ ’’ہوں…‘‘ نوشی نے چند لمحے سوچتے ہوئے آگے بڑھ کر کپ واپس ٹیبل پر رکھا اور غیر مطمئن سے انداز میں بولی۔ ’’میٹرک کے ایگزایمز تو وہ تب دیں گے ناں‘ جب گیمز کی جان چھوڑیں گے۔ میرا خیال ہے میں منیب سے کہتی ہوں کوئی قاری ڈھونڈیں‘ تم بھی رازی بھائی سے کہنا۔‘‘ ’’چلو ٹھیک ہے‘ میں آج ہی بات کروں گی‘ اوکے ۔‘‘ فون بند کرکے نوشی نے ٹی وی کی آواز تھوڑی اونچی کی اور کام والی ماسی کا انتظار کرنے لگی۔ ’’کہنا تو نہیں چاہیے مگر قاری صاحب خود تو مرگئے اور ہمیں مصیبت میں ڈال گئے۔‘‘ منیب نے بیزاریت سے ہاتھ میں پکڑا موبائل چارجنگ کی غرض سے نوشی کی طرف بڑھایا اور خود اپنی آفس فائل لے کر اسٹڈی ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔ ’’زندگی موت میں تو اپنی مرضی نہیں چلتی ناں منیب‘ مسئلہ یہ ہے کہ اب ہم کسی نئے قاری کا انتظام کریں۔‘‘ منیب نے ایک نظر موبائل چارجنگ پر لگاتی نوشی کو دیکھا اور اسٹڈی ٹیبل پر موجود ٹیلی فون سیٹ کا ریسیور اٹھا کر نمبر ملانے لگا۔ موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر نوشی بھی ٹیبل کے سامنے رکھی دوسری کرسی پر ٹک گئی۔ کچن میں ماسی کے ساتھ کام کا جائزہ لیتی نوشی بڑی تن دہی سے کام کرتی ماسی کو تنقیدی نظروں سے دیکھتے ہوئے اچانک کچھ یاد آجانے پر ٹی وی لائونج کی طرف بڑھی اور کارڈلیس پر ہما کا نمبر ملا کر دوبارہ کچن میں آگئی۔ ’’مبارک ہو بھئی قاری صاحب کا مسئلہ تو حل ہوگیا۔‘‘ رسمی سلام دعا اور خیر خیریت پوچھنے کے بعد نوشی نے جیسے اپنے تئیں ہما کو خوشخبری سنائی تھی‘ مگر دوسری طرف سے آنے والی ہنسی کی آواز نے اس کے جوش کو مدہم کردیا۔ ’’کوئی لطیفہ سنایا ہے میں نے تمہیں۔‘‘ ’’یار مبارک تو تم ایسے دے رہی ہو جیسے میں ورلڈ ٹور پر جارہی ہوں۔‘‘ ہما کا لہجہ ابھی تک مسکرا رہا تھا۔ ’’اچھا ٹھیک ہے خدا حافظ۔‘‘ نوشی کو اس کا یہ ردعمل ناگوار گزرا تھا۔ ’’ارے رکو سوری بابا سوری‘ چلو اب تفصیل سے بتائو کہ کیسے حل ہوا یہ مسئلہ عظیم۔‘‘ ’’منیب نے رات کو محمود صاحب سے فون پر بات کی تھی ناں تو وہ کہہ رہے تھے کہ موذن بھی آج کل کوئی مقرر نہیں ہے مسجد میں‘ کوئی بھی وقت دیکھ کر اذان دے دیتا ہے‘ اس لیے یہ پرابلم صرف بچوں کی نہیں اس زحمت سے بڑے بھی دوچار ہیں۔‘‘ ہما کے سوری کہنے پر نوشی بچوں کی طرح فوراً مان بھی گئی‘ جبھی مکمل تفصیل اس کے گوش گزار کرنے لگی۔ ’’تو پھر بات کی انہوں نے کسی سے؟‘‘ ’’ہاں کہہ رہے تھے جمعہ کے دن سے انشاء اللہ نیا قاری آجائے گا‘ جو اذان‘ جماعت وغیرہ کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی پڑھایا کرے گا۔‘‘ ’’چلو یہ تو اچھی بات ہے‘ یعنی بچے ایک بار پھر اپنی آزادی چھینی جانے کے لیے تیار ہوجائیں۔‘‘ …٭٭٭… یوسف کا درس نظامیہ میں آخری ہفتہ چل رہا تھا‘ جب محمود صاحب نے اسے اپنے محلے میں آکر مسجد کے تمام امور سنبھالنے کی درخواست کی۔ خود وہ بھی اپنی ذات کو اس اہم ذمہ داری کے قابل جان کر بہت خوش ہوا جبھی اس نے جمعہ کے روز سے باقاعدہ طور پر اپنے فرائض سنبھالنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے انہیں بہت پر امید اور مطمئن حالت میں بھیجا تھا کہ ماسٹرز کرلینے کے بعد اب یہ آخری ہفتہ اس کے لیے نہایت اہم تھا۔ پرنسپل کے والد کی ڈیتھ کی وجہ سے آج ہادی کے اسکول کی چھٹی تھی اور ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھلے میدان میں کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھا جب سامنے سے آتے رکشے نے انہیں رکنے پر مجبور کردیا۔ چند لمحوں بعد پینٹ شرٹ میں ملبوس یوسف کاندھے پر بیگ اور ہاتھ میں اخبار لیے رکشے سے باہر نکلا تو سبھی بچے تجسس سے اس اجنبی کو دیکھنے لگے‘ جس کے چہرے پرایک عجیب سی چمک موجود تھی۔ رکشے والے کو کرایہ ادا کرنے کے بعد اس نے ایک نظر اپنے چاروں طرف ڈالی اور سامنے کھیلتے بچوں کے پاس آگیا۔ ’’السلام علیکم!‘‘ ایک ایک کرکے وہ سب بچوں سے ہاتھ ملا رہا تھا۔ بچے حیرت اور پریشانی سے کبھی اسے دیکھتے اور کبھی اس کی مسکراہٹ میں الجھتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے اس کے بارے میں دریافت کرنے لگتے‘ مگر اس سے پہلے کہ وہ سلام کے بعد کوئی اور بات کرتا یا اپنا تعارف کرواتا‘ آفس واپسی پر گھر آتا منیب بچوں کے پاس کھڑے ایک انجان آدمی کو دیکھ کر گاڑی پارک کرنے کے فوراً بعد ان کے پاس آن پہنچا۔ منیب کو دیکھتے ہی گویا بچوں کی اٹکی سانس بحال ہوئی تھی۔ بچوں کے تاثرات کے تعاقب میں یوسف نے بھی منیب کو دیکھا تو اسی مسکراہٹ کے ساتھ اسے بھی سلام کرنے میں پہل کر ڈالی۔ ’’میرا نام یوسف ہے۔‘‘ منیب کے خشک اور روکھے پھیکے تاثرات کو قطعی طور پر نظر انداز کرتے یوسف نے اپنا تعارف کروایا۔ ’’سوری… مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔‘‘ ’’یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔ دراصل محمود صاحب تشریف لائے تھے میرے پاس اور میں نے جمعہ کے بابرکت دن سے مسجد کے امور سنبھالنے کا وعدہ کیا تھا‘ اسی لیے آج شام ہی چلا آیا تاکہ اپنے وعدے کے عین مطابق کل سے ذمہ داریوں کا آغاز کیا جائے۔‘‘ یوسف نے مکمل تفصیل سے اپنی آمد کے بارے میں بتایا تو منیب ایک بار پھر اسے سر سے پیر تک دیکھنے پر مجبور ہوگیا۔ پائوں میں جاگرز‘ پینٹ شرٹ اور سر پر دھوپ سے بچنے کے لیے رکھی گئی کیپ۔ وہ کہیں سے بھی ایک کالج بوائے سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہو رہا تھا۔ پرکشش نقوش کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی داڑھی منیب کو کسی بھی طرح قائل نہیں کر پارہی تھی کہ یہ بندہ اذان دینے‘ جماعت کروانے‘ جیسے کام کرسکتا ہے۔ ’’اوہ اچھا… خوشی ہوئی آپ سے مل کر‘ اب میں چلتا ہوں۔‘‘ اوپری دل سے کہا گیا جملہ اس کے چہرے کے بالکل برعکس تھا مگر پھر بھی جواباً یوسف کی گرم جوشی میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ ’’ان شاء اللہ پھر ملاقات ہوگی۔‘‘ یوسف کے لہجے کے یقین نے منیب کو چونک کر دیکھنے پر مجبور کردیا تھا۔ ’’میرامطلب تھا مسجد میں تو ملاقات ہوتی ہی رہے گی ناں۔‘‘ ’’اوہ ہاں… ضرور۔‘‘ یوسف کی وضاحت پر منیب کھسیا گیا تھا اور پھر رکا نہیں۔ بچے بھی اسے انتہائی دلچسپی سے دیکھتے ہوئے وقفے وقفے سے سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ ’’اوکے بچو ان شاء اللہ ’’See you soon‘‘ اللہ حافظ۔‘‘ سب بچوں کو ایک ساتھ مخاطب کرتے ہوئے یوسف نے کہا اور مسجد کو جانے والے راستے کی طرف جس طرح محمود صاحب نے سمجھایا تھا انہی کی گائیڈنیس ذہن میں رکھتے ہوئے چل دیا۔ …٭٭٭… ’’محمود صاحب بھی ناں بیچارے پرانے وقتوں کے بھلے اور سیدھے سادے آدمی ہیں‘ عمر میں بھی بڑے ہیں بھلا بندہ اب انہیں کیا کہے۔‘‘ گھر میں داخل ہونے کے بعد ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے منیب نے بریف کیس صوفے پر رکھا اور بڑبڑاتے ہوئے کچن میں داخل ہوا جہاں حسب معمول نوشی اس کے آنے کا ٹائم ہوجانے پر گرما گرم چائے کو دم پر لگائے کھڑی تھی‘ مگر اس کا موڈ دیکھ کر چونک سی گئی۔ ’’کیا ہوا خیر تو ہے؟‘‘ چولہا بند کرکے اس نے منیب کے ہاتھ منہ دھونے کا بھی انتظار کیے بغیر جلدی سے دو کپوں میں چائے انڈیلی مبادا کسی اور پر آئے غصے کی زد میں وہ نہ دھرلی جائے۔ ’’ہاں خیر ہی ہے۔‘‘ آج وہ کچن میں ہی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اور اب کپ ہاتھ میں لیے کچن کی کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ادھر نوشی کی بے چینی عروج پر تھی‘ جبھی بہت دیر اس کی طرف سے تفصیلی بات کا انتظار کرنے کے بعد آخر ایک بار پھر پوچھ ہی بیٹھی۔ ’’پھر بھی ہوا کیا ہے؟‘‘ ’’محمود صاحب کو قاری کا کہا تھا‘ مگر وہ پتہ نہیں کسے لے آئے ہیں‘ قاری کم اور کسی فلم کا ہیرو زیادہ لگ رہا تھا۔ بھلا وہ بچوں کو کیا تعلیم دے گا‘ یا مسجد میں کیا انتظام سنبھالے گا۔‘‘ ’’فلم کا ہیرو؟‘‘ اس بات پر تو نوشی بھی حیران ہوئے بغیر نہیں رہ پائی تھی۔ ’’تو اور کیا؟ تم بھی اس کا حلیہ اور شکل دیکھتیں تو میں پوچھتا تمہاری رائے۔‘‘ ’’لیکن اگر محمود صاحب نے اسے خاص طور پر یہاں آنے کو کہا ہے تو پھر کوئی بات تو ہوگی ناں۔‘‘ ’’یار بات کیا ہونی ہے‘ آج کل دنیا میں بہت چالاکیاں اور بہت فراڈ ہوتے ہیں‘ لگا لیا ہوگا اس نے محمود صاحب کو بھی اپنی باتوں میں اور کیا۔‘‘ ’’اچھا لیکن آپ کو خوامخواہ کسی کے سامنے اپنی رائے دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے… سمجھے ناں؟‘‘ ’’ہاں ہاں پتہ ہے سب‘ ڈونٹ وری۔‘‘ منیب نے بات ختم کی اور کپڑے تبدیل کرنے کی غرض سے بیڈروم کا رخ کیا۔ سینک میں کپ رکھ کر نوشی نے بھی اس کی تقلید کی۔ …٭٭٭… ’’یار یہ کیا ہو رہا ہے؟ کس چیز کی آوازیں آرہی ہیں؟‘‘ مندی مندی آنکھوں سے منیب نے نوشی کو ہلاتے ہوئے پوچھا تو وہ بھی جاگ گئی‘ لمحہ بھر بعد اوسان بحال ہوئے تو احساس ہوا کہ یہ آوازیں آخر آکہاں سے رہی ہیں۔ ’’مسجد سے تلاوت کی آواز آرہی ہے منیب۔‘‘ جواب دے کر نوشی نے ایک بار پھر ٹوٹی ہوئی نیند کا سلسلہ جوڑنا چاہا۔ ’’تلاوت اس وقت؟ یہ کون سا وقت ہے آخر‘ مسجد میں لائوڈ اسپیکر پر تلاوت کرنے کا۔‘‘ نوشی کی طرف سے کوئی جواب نہ ملنے پر وہ پھر سے بولا۔ ’’او بھائی اللہ کے بندے‘ تو نے خود نہیں سونا‘ نہ سو‘ ہمیں تو سونے دے یار۔‘‘ نہایت جذب اور رقت کے ساتھ کی جانے والی تلاوت مسلسل اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ ’’صبح ہوجائے ذرا تو میں محمود صاحب سے بات کرتا ہوں کہ جناب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ دن میں کام کرتے رہو اور رات کو بیٹھ کر تلاوت سنو۔‘‘ ’’سو جائیں منیب پلیز‘ اور مجھے بھی سونے دیں یا آپ نے بھی ساتھ اپنا حصہ ڈالنا ہے؟‘‘ ’’تمہیں پتہ تو ہے مجھے شور میں نیند نہیں آتی۔‘‘ ’’او ہو تو صوفے سے کشن اٹھائیں اور کانوں پر رکھ لیں مگر پلیز مجھے تو سونے دیں۔‘‘ منیب نے اس کی طرف سے دیئے گئے مشورے پر بیزاری سے دیکھا اور پھر اس کے دیئے گئے مشورے پر عمل بھی کر ڈالا۔ …٭٭٭… ’’بیٹا اندر آسکتا ہوں۔‘‘ محمود صاحب نے دروازے پر دستک دینے کے بعد یوسف سے اندر آنے کی اجازت چاہی تووہ لمحہ بھر میں ان کے استقبال کو خود دروازے تک آن پہنچا۔ ’’آئیے آئیے محمود صاحب‘ بھلا پوچھنے کی زحمت کیوں کی؟‘‘ ’’جیتے رہو بیٹا خوش رہو۔‘‘ محمود صاحب نے مسجد سے متصل اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے چاروں طرف نظر دوڑائی تو احساس ہوا کہ جمعرات کی شام یہاں پہنچنے کے بعد اس نے کمرے کو اچھی طرح صاف کیا ہے۔ ایک طرف ترتیب سے لگی کتابیں‘ صاف ستھرا بستر‘ کمرے کے ہی ایک کونے میں کچن میں ضروری استعمال ہونے والی اشیاء خورد ونوش اور ساتھ ہی رکھا چولہا۔ یہ کمرا اسے مسجد کے فرائض منصبی سنبھالنے میں آسانی اور سہولت کے لیے محلے والوں کی طرف سے ہی دیا گیا تھا۔ ہاں البتہ چولہے کے لیے درخواست اس نے خود کی تھی وگرنہ اس سے پہلے قاری صاحب کا کھانا محلے کے تمام گھروالے باری باری پہنچایا کرتے تھے مگر یوسف کا خیال تھا کہ اگر اسے ایک چولہا فراہم کردیا جائے تووہ خود اپنے لیے کھانا پکا سکتا ہے‘ جبھی محمود صاحب نے اپنے ہی گھر کے اسٹور سے ایک چولہا اسے لادیا تھا‘ جسے یقینا اب سے کچھ دیر پہلے وہ صاف کررہا تھا۔ یوسف کے ہاتھ میں موجود اسٹیل وول دیکھ کر محمود صاحب کو شرمندگی سی ہونے لگی۔ ’’معاف کرنا بیٹا‘ دراصل کافی عرصے سے یہ چولہا اسٹور میں ہی پڑا رہا‘ اس لیے دھول مٹی بہت زیادہ جم گئی ہے‘ تم مجھے کہتے میں گھر سے صاف کروا لاتا۔‘‘ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ انہوں نے پہلے دیکھا کیوں نہیں کہ چولہا صفائی کے قابل ہے۔ بس نوکر سے کہا اور وہ اٹھا کر یہاں رکھ گیا۔ جبھی معذرت خواہانہ انداز میں بولے۔ ’’آپ شرمندہ کررہے ہیں محمود صاحب‘ اگر میں نے خود صاف کر لیا تو اس میں حرج ہی کیا ہے بلکہ مجھے تو خوشی اور فخر ہے کہ میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کررہا ہوں۔‘‘ یوسف نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بھی مسکرا دیئے‘ کچھ دیر اسے دیکھتے رہے گویا بات کرنے کے لیے الفاظ کا چنائو کررہے ہوں پھر آہستگی سے گویا ہوئے۔ ’’یوسف بیٹا‘ تم سے ایک بات کرنا تھی اگر برا محسوس نہ کرو تو…‘‘ ’’ایسی کیا بات ہے جوکرنے کے لیے آپ کو تمہید باندھنے کی ضرورت محسوس ہوئی؟‘‘ ’’وہ دراصل…! آج صبح اذان فجر کے بعد تم خوبصورت آواز میں تلاوت کی تو دل کو بہت سکون ملا‘ لیکن بیٹا…‘‘ ان کے لیکن پر یوسف چونکا تھا۔ ’’ہرجگہ محلے اور شہر کا ماحول کچھ مختلف ہوتا ہے‘ یقینا بعد از اذان تمہارا تلاوت کرنا باعث اجر و ثواب ہے مگر…‘‘ بات مکمل کرنے کے دوران محمود صاحب شدید کشمکش کا شکار دکھائی دیئے‘ مگر یوسف نے انہیں اپنی بات مکمل کرنے کے لیے پورا وقت دیتے ہوئے خاموشی اختیار کی اور ان کے بات کرنے کے دوران رک جانے پر اپنی نگاہیں فرش کی جانب مرکوز کردیں تاکہ وہ سہولت سے اپنی بات ختم کرسکیں۔ ’’یہاں کا ماحول کچھ اس طرح کا ہے کہ لوگوں نے اس فعل عظیم کو اپنی نیند میں خلل قرار دیتے ہوئے آئندہ نہ دہرانے کی درخواست کی ہے۔‘‘ ’’جی…!‘‘ وہ حیران ہوا۔ ’’ہاں بیٹا‘ ہوسکے تو آئندہ فجر کی اذان دینے کے بعد تلاوت کرنے سے گریز کرنا‘ اور اگر کرنی ہی ہو تو لائوڈ اسپیکر کا استعمال نہ کرنا تاکہ تمہاری آواز سے کسی کی نیند میں خلل واقع نہ ہو۔‘‘ ’’جی بہتر‘ ویسے ان کا یہ مطالبہ مجھے کسی بھی طور ماننے میں کوئی قباحت اس لیے بھی نہیں ہے کہ خود اسلام ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ دوسروں کے حقوق کا خاص خیال رکھا جائے۔‘‘ وہ بات جو محمود صاحب سمجھ رہے تھے کہ بہت بڑی ہے‘ اور ایسا نہ ہو کہ یوسف اسے اپنی انا کا مسئلہ بناتے ہوئے ماننے سے انکار کردے‘ وہ بات یوسف نے اتنی خوبصورتی سے تسلیم کرتے ہوئے ان کے موقف کی تائید کی کہ وہ ایک دم ہلکے پھلکے سے ہوگئے اور انہیں یہ لگا کہ یہ تو کوئی بہت معمولی سی بات تھی جسے سوچ سوچ کر وہ بس یونہی پریشان ہو رہے تھے۔ ’’شریعت اور عقیدت میں تو بہت فرق ہوتا ہے ناں محمود صاحب‘ میرا فعل میری عقیدت کا مظہر تھا مگر ان کا مطالبہ شریعت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے یقینا ان سب کا جائز حق ہے جو انہیں ملنا ہی چاہیے۔‘‘ ’’خدا تمہارے علم وادب میں اضافہ فرمائے۔‘‘ نہایت سرشار لہجے میں انہوں نے یوسف کو دعا دی تو وہ مسکرا دیا۔ …٭٭٭… ’’ارے تم ابھی تک تیار نہیں ہوئیں۔‘‘ طے شدہ پروگرام کے مطابق آج نوشی اور ہما نے شاپنگ کرنے جانا تھا۔ اسی مقصد کے لیے نوشی کے دیئے گئے ٹائم کے عین مطابق ہما اس کے گھر پر موجود تھی مگر نوشی کا تو جیسے دور دور تک جانے کا فی الحال کوئی ارادہ نظر نہیں آرہا تھا جس پر ہما کی حیرت بجا تھی۔ ’’طبیعت تو ٹھیک ہے ناں تمہاری‘ بڑی سست لگ رہی ہو؟‘‘ شولڈر سے پرس اتار کر صوفے پر رکھتے ہوئے وہ بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ ’’ہاں یار‘ رات کونیند بہت ڈسٹرب رہی‘ صحیح طریقے سے سو نہیں پائی‘ اس لیے بس…‘‘ کسلمندی سے بات کرتے ہوئے اس نے جمائی لیتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھا۔ ’’رازی نے محمود صاحب سے کہا تھا قاری کو منع کرنے کے لیے‘ اب دیکھو مانتا ہے کہ نہیں۔ آخر مولوی ہے ناں پتہ نہیں کوئی نکتہ اپنے حق میں نکال کر اسی پر اڑ جائے۔‘‘ ’’وکیلوں اور مولویوں کو بندہ ان کی مرضی کے بغیر ویسے قائل نہیں کرسکتا۔‘‘ ’’ویسے سچ کہوں تو مولوی لگتا ہی نہیں ہے وہ کہیں سے بھی۔‘‘ ’’کیا مطلب… تم نے کہاں دیکھا ہے؟‘‘ ’’ابھی تمہاری طرف آتے ہوئے رستے میں نظر آیا‘ پتہ ہے ناں‘ مسجد کے آگے سے ہی گاڑی گزرتی ہے‘ محمود صاحب کا نوکر خیر سے انگلش اخبار دینے آیا تھا اور وہ مسجد کے سامنے ہی کھڑا اس سے اخبار لیتے ہوئے شاید حال چال پوچھ رہا تھا۔ ’’مولوی اور انگلش اخبار؟ گنگا ہی اس کا مطلب ہے الٹی بہہ رہی ہے۔‘‘ نوشی نے بے ساختہ قہقہ لگایا۔ ’’تو اور کیا؟ مجھے ڈرائیور نے بتایا کہ یہ ہماری مسجد کا نیا مولوی ہے‘ ورنہ میں تو شاید کبھی نہ مانتی۔‘‘ کام والی چائے کی ٹرالی لے کر آئی تو نوشی نے ہما کی طرف چائے بڑھانے کے بعد خود بھی گرما گرم چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے سوال کیا۔ ’’تم کیوں نہ مانتیں؟‘‘ ’’بھئی وہ مولوی لگتا ہی نہیں ہے‘ سچی اتنا تو ہینڈسم ہے اوپر سے اچھی طرح خوبصورتی سے کٹنگ کروا کر سیٹ کیے ہوئے بال اور داڑھی بھی یقینا اس نے اسی لیے رکھی ہوئی ہے کہ اس پر سج رہی ہے اور پھر شوق دیکھو انگلش اخبار…‘‘ اس دفعہ ہما نے بھی فلک شگاف قہقہہ لگایا تھا۔ ’’ویسے بھی یار بیروزگاری بھی تو حد سے بڑھ گئی ہے ناں‘ نوکریاں ملتی نہیں ہیں‘ اور نہ ہی آج کل کے لڑکے لگن سے پڑھتے ہیں‘ جانتے جو ہیں کہ پڑھ لکھ کر بھی تو بیروزگار ہی رہنا ہے۔‘‘ نوشی چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لینے کے ساتھ اس کی بات پر تائیدی انداز میں سرہلا رہی تھی۔ اور مولویوں کا ’’پیشہ‘‘ ایسا ہے کہ جس میں کوئی بھی ڈاکومنٹس‘ اسناد تو دور کی بات ہے‘ چھوٹا سا ٹیسٹ لینے کی بھی زحمت نہیں کرتا‘ بس محلے کی مسجد خالی ہو تو کسی بھی ایسے بندے کو لے آئو جو بڑوں کو نماز اور بچوں کو قرآن پڑھانے کا ماہر ہو‘ بس آگے اللہ اللہ خیر صلا‘‘ ہما نے بے لاگ تبصرہ کیا تھا۔ ’’ہاں تو ٹھیک ہے ناں‘ ویسے بھی نمازوں کے وقت میں تو سارا دن سب آفیسز میں ہوتے ہیں۔ شام میں تھکے ہارے آکر بھلا کس میں ہمت ہوتی ہے مسجد جانے کی‘ اس وقت تو دل چاہتا ہے کہ بس کسی خوبصورت سے پارک میں چہل قدمی کرکے بندہ خود کو فریش کرلے اور جہاں تک بات ہے بچوں کی‘ ان کو بھی اسکرین کے آگے سے ہٹانے کے لیے کہا جاتا ہے ورنہ تو ظاہر ہے قرآن پاک ختم کرنے کے لیے تو ابھی عمر پڑی ہے‘ کوئی شرط تھوڑی لگائی ہے مذہب نے کہ ضرور اس عمر تک ہی قرآن ختم کرنا ہے۔‘‘ ’’یہ سب تو مولویوں نے ڈرایا ہوا ہے عوام کو‘ ورنہ اسلام میں تو بہت نرمی ہے۔‘‘ ’’اسلام میں تو نرمی ہے لیکن اب اگر تم نے تیار ہونے میں دیر لگائی تو میں تم سے کوئی نرمی نہیں برتوں گی۔‘‘ چائے کا کپ خالی کرتے ہوئے ہما نے کہا تو نوشی مصنوعی خوف کا مظاہرہ کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’نہ بابا نہ ایسا نہ کرنا‘ تم پانچ منٹ انتظار کرو‘ میں آدھے گھنٹے میں آئی۔‘‘ ’’ہاں ٹھیک ہے۔‘‘ سرسری انداز میں اس کی بات کا ہما نے جواب تو دے دیا مگر اگلے ہی لمحے بات سمجھ آنے پر پاس رکھا کشن اٹھا کر اسے دے مارا۔ …٭٭٭… یوسف آج سے پہلے بھی کافی لوگوں سے مل چکا تھا مگر یہ تجربہ شاید نیا تھا‘ جمعہ کا پررونق اور بابرکت دن ہونے کے باوجود ظہر کے وقت مسجد میں نمازیوں کی تعداد بہت کم تھی اور جو لوگ تھے ان میں سے بھی اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو عمر رسیدہ یا ریٹائرڈ تھے۔ بچے بھی نہ ہونے کے برابر نظر آئے۔ یوسف جس جوش اور جذبے سے اپنے فرائض سنبھالنے آیا تھا‘ وہ بس کچھ روز کے بعد اب ماند پڑنے لگا تھا۔ کیونکہ یہاں کسی کو بھی مسجد یا اس سے متعلقہ امور میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ جو کچھ سوچ کر یہاں آیا تھا لگتا تھا اب کچھ نہیں کرپائے گا اور یہی بات اب اندر ہی اندر اسے پریشان کررہی تھی۔ ہم تو اس عہد میں زندہ ہیں جہاں پر یارب لوگ روزی کے لیے رب کو بھول جاتے ہیں رزق کے لیے دن رات بھاگ دوڑ کرنے والی اشرف المخلوقات رازق کو یکسر بھولے اور نظر انداز کیے بیٹھی تھی۔ اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرنے والے حضرت انسان خدا کی طرف سے حی علی الفلاح یعنی آئو کامیابی کی طرف کی پکار سن کر سنی ان سنی کر جاتے ہیں اور اس کے باوجود یہ بھی دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ سخت محنت کررہے ہیں مگر پھر بھی ’’کامیابی‘‘ نہیں ملتی۔ یہی باتیں سوچ سوچ کر اس کا دل شکستہ ہو چلا تھا‘ جبھی اس نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی‘ اذان دینے میں ابھی پون گھنٹہ باقی تھا‘ سو اٹھ کر باہر چلا آیا کچھ فاصلے پر بچوں کے کھیل کود کے لیے ہی مخصوص کی گئی جگہ پر بچے کرکٹ کھیلنے میں مشغول تھے۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا وہ بھی ان کے پاس جا پہنچا‘ گو کہ ان میں سے کسی نے بھی ابھی اس سے قرآن پڑھنا نہیں شروع کیا تھا مگر پھر بھی اس کے آنے پر اپنے تئیں با ادب دکھائی دینے کے لیے کھیل روک کر کھڑے ہوگئے۔ چند بچوں نے بڑی برق رفتاری سے اسے سلام بھی کرڈالا تاکہ بجائے اس کے کہ وہ کچھ دیر مزید کھڑا رہے اور پھر نماز قرآن پڑھنے پر لیکچر دینے لگے‘ جلدی جلدی سلام کا جواب دے کر چلتا بنے مگر اس وقت بچوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب سلام کا جواب دینے کے بعد مسکراتے ہوئے اس نے بھی ان سب کے ساتھ کھیل میں شامل ہونے کی درخواست کر ڈالی۔ ’’مولوی صاحب آپ… آئی مین آپ ہمارے ساتھ کھیلیں گے؟‘‘ ہادی نے حیرت سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا تو ساتھ ہی تائید میں دوسرے بچوں کے بھی سر ہلنے لگے۔ ’’کیوں؟ کیا آپ کو اچھا نہیں لگے گا‘ میرے ساتھ کھیلنا؟‘‘ ’’لیکن جو مولوی صاحب ہوتے ہیں وہ تو گیم نہیں کھیلتے ناں۔‘‘ ہادی کے بجائے شمعون نے بھی اپنے ذہن کی الجھن کا اظہار بڑی معصومیت سے کیا تو یوسف کو بے اختیار اس پھولی گالوں والے بچے پر پیار آگیا۔ ’’اچھا…؟ لیکن میں تو کھیلتا ہوں۔‘‘ اسی کی طرح آنکھوں میں حیرت سموئے یوسف نے بھی جواب دیا تو اب بال ہاتھ میں لیے تیسرا بچہ بول اٹھا۔ ’’توکیا آپ مولوی صاحب نہیں ہیں؟‘‘ ’’بیٹا کیا مولوی صاحب انسان نہیں ہوتے؟‘‘ ’’نہیں ناں‘ وہ تو صرف مولوی صاحب ہوتے ہیں۔‘‘ بچے ابھی تک پچھلے مولوی صاحب کا تصور خیالات میں تھامے کھڑے تھے اور یوسف کی مسکراہٹ ان کی باتوں سے گہری ہوتی چلی گئی۔ ’’ہوں…‘‘ چند لمحے یوسف نے کچھ سوچا اور پھر بولا۔ ’’کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم تھوڑی دیر کے لیے صرف دوست بن جائیں۔‘‘ اس نے دوستی کی آفر کرتے ہوئے ان کے سامنے ہاتھ بڑھایا‘ جس پر بچوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہوئے اوکے کرنے کے بعد اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر اوپر تلے اپنے ہاتھ رکھنے شروع کردیئے۔ …٭٭٭… ’’ہادی سونے جارہے ہو؟‘‘ لائونج میں بیٹھ کر بزنس نیوز سنتے منیب نے ہادی کوپکارا تو دودھ پی کر منہ صاف کرتے ہوئے اپنے بیڈ روم کی طرف جاتا ہادی رک گیا۔ ’’جی پاپا‘ ابھی ملک پیا ہے ناں اب برش کرنے جارہا ہوں اس کے بعد سو جائوں گا۔‘‘ ’’اچھا ذرا ادھر تو آئو‘ میرے پاس بیٹھو۔‘‘ منیب کے بلانے پر ہادی خوشی خوشی اس کے پا س آبیٹھا تھا۔ نوشی بھی اپنے اور منیب کے لیے گرما گرم کافی لے کر وہیں آبیٹھی۔ ’’زیادہ سے زیادہ کھانا کھایا کرو‘ پتہ ہے ناں اس بیئر (بھالو) سے زیادہ ہیلدی ہونا ہے ہمارے بیٹے نے۔‘‘ اس کے نائٹ ڈریس پر بنے خوبصورت اور گپلو سے چند بھالوئوں میں سے ایک پر انگلی رکھتے ہوئے منیب نے جیسے اسے ٹارگٹ دیا تھا۔ ’’جی پپا ہوپ فلی‘ اس سے بھی زیادہ پاور فل بنوں گا میں۔‘‘ ’’ویری گڈ… یہ ہوئی نا بات۔‘‘ لاڈ سے اس کے بالوں کو بگارٹے ہوئے منیب نے کہا تو نوشی بھی اس کا پیار دیکھتے ہوئے مسکرادی۔ ’’ویسے ایک بات تو بتائو۔ آج سب بچے مولوی صاحب کے پاس اتنی دیر تک کیوں کھڑے رہے؟ کیا کہہ رہے تھے وہ؟‘‘ مولوی صاحب کے ذکر پر نوشی نے بھی اپنی تمام تر توجہ ہادی کی طرف مبذول کرتے ہوئے سامنے رکھے ریموٹ سے ٹی وی میوٹ کیا اور پوری دلچسپی سے ہادی کی بات سننے لگی۔ ’’وہ… ارے ہاں پاپا وہ ہم سے فرینڈ شپ کرکے ہمارے ساتھ کھیلنے آئے تھے۔‘‘ ’’کھیلنے…!‘‘ منیب نے حیرانگی سے ایک بار پھر اسی کے الفاظ کے ذریعے تصدیق چاہی تھی۔ نوشی نے بھی اس غیر متوقع جواب پر آنکھیں سکیڑیں۔ ’’جی پاپا‘ ہم نے انہیں سمجھایا بھی تھا کہ وہ تو مولوی صاحب ہیں اور مولوی صاحب کو تو نہیں کھیلنا چاہیے ناں‘مگر وہ سمجھے ہی نہیں۔‘‘ ’’پھر… پھر کیا ہوا؟‘‘ نوشی نے اسے رکتے دیکھ کر سوال کیا تاکہ بات کی تفصیل جان سکے۔ ’’اتنی دیر میں تو کھیلنے کا ٹائم بھی ختم ہوگیا اور پھر وہ کہنے لگے کہ اب انہوں نے اذان دینی ہے‘ اس لیے صرف دوستی ہی کی اور بس۔‘‘ پرسوچ انداز میں سوچتے ہوئے نوشی اور منیب کی نظریں آپس میں ٹکرائیں۔ ’’پاپا‘ کیا آپ نے بھی دوستی کرنی ہے مولوی صاحب سے؟‘‘ ہادی کے معصوم سے سوال پر منیب کو بات بدلنا پڑی۔ ’’اچھا وہ بھی کرلیں گے‘ آپ جاکر برش کرو اور سو جائو۔‘‘ ’’اوکے پاپا۔‘‘ اچھے بچوں کی طرح بغیر کسی سوال جواب کے اس نے فوراً ہی اوکے کہا اور بیڈ روم میں چلا آیا‘ اس کے چلے جانے کے بعد منیب آخر بول ہی پڑا۔ ’’یار یہ آخر مولوی صاحب کو ہے کیا… کچھ عجیب سے نہیں لگتے؟‘‘ دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے اس نے نوشی سے رائے مانگی۔ ’’ہاں لگتے تو ہیں اور باقی لوگوں کا بھی خیال یہی ہے۔‘‘ ’’اب انہیں کوئی سمجھائے کہ بھلے آدمی مسجد دیکھو اور مسجد کے کام‘ بچوں سے کھیلنے یا ان سے آکر دوستی کرنے کا کیا مقصد؟‘‘ ’’تو اور کیا‘ بلکہ ہما تو بتا رہی تھی کہ انہوں نے بچوں کو گھر گھر جاکر قرآن پاک پڑھانے سے بھی انکار کردیا ہے۔‘‘ ’’انکار کردیا ہے… لیکن کیوں؟‘‘ منیب کی پیشانی پر بل ابھرے۔ ’’ان کا خیال ہے کہ بچے مسجد میں آکر پڑھیں تو زیادہ بہتر ہے۔‘‘ ’’او ہو لیکن بچے تو مسجد جاکر صرف ٹائم ہی ضائع کریں گے اور بس۔‘‘ ’’ہوں…‘‘ نوشی نے کپ کے کناروں پر انگلی پھیرتے ہوئے ہنکارا بھر کر اس کی بات کی تائید کی۔گھر میں تو پندرہ بیس منٹ میں سپارے کا کام ختم ہوجاتا ہے‘ مگر وہاں گھنٹہ بھر تو پھر کہیں نہیں گیا ناں۔‘‘ ’’ہاں بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔‘‘ ’’سوچتے ہیں‘ ایک دو اور لوگوں سے بھی بات کرکے دیکھتے ہیں‘ ان کا کیا خیال ہے‘ پھر کرتے ہیں کچھ۔‘‘ منیب نے بات ختم کرنے کے ساتھ ہی کپ ٹیبل پر رکھا اور خود صوفے کی پشت سے ٹیک لگالی۔ …٭٭٭… چاشت کی نماز کے بعد تلاوت قرآن ختم کرتے ہی یوسف کو ہلکی سی اونگھ آگئی تھی‘ یوں بھی فجر کے وقت اٹھنے سے اس وقت عموماً جسم میں سستی آہی جاتی ہے‘ سو آنکھ کھلنے پر وضو کے بعد وہ مسجد ہی میں چلا آیا تھا‘ دریاں جھاڑ کر ایک طرف رکھیں اور جھاڑو ہاتھ میں لیے صفائی کرہی رہا تھا کہ محلے کے دو تین افراد اندر داخل ہوئے اور مصافحہ کرنے کے بعد اپنا مقصد آمد بیان کیا۔ ’’آپ کی بات بجا ضرور ہے لیکن پھر بھی معذرت چاہتا ہوں کہ میں بچوں کو پڑھانے کے لیے فرداً فرداً سب کے گھر جانے سے قاصر ہوں۔ ہاں البتہ جو بھی بچہ مسجد میں آکر پڑھنا چاہے اس کے لیے میں چوبیس گھنٹے حاضر ہوں۔‘‘ ’’مولوی صاحب بچے اسکول سے تھکے ہارے آتے ہیں پھر کم از کم گھنٹہ بھر انہیں مسجد میں بٹھا دینا کہاں کا انصاف ہے؟‘‘ ’’جناب یہی بات کیا آپ نے کبھی اسکول ایڈمینسٹر سے بھی کی ہے؟‘‘ سوال کے بدلے پھر سوال لوٹایا گیا تھا۔ ’’لیکن اسکول والوں کا تو ایک مخصوص وقت مقرر ہے ناں اسی…‘‘ ’’وقت تو پھر مذہب کے لیے بھی مقرر کرنا چاہیے ناں۔‘‘ ’’آ پ خوامخواہ ضد میں آکر ہم سب کا وقت برباد کررہے ہیں۔ پہلے بھی تو بچے گھر میں ہی پڑھتے رہے ہیں۔ پھر سردی گرمی میں بچے مسجد تک کیسے آئیں گے؟‘‘ بچوں کے سکون و آرام اور سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ کسی بھی طور انہیں گھر سے مسجد بھیجنے پر تیار نظر نہیں آرہے تھے۔ ’’آپ ایک مرتبہ انہیں بھیج کر تو دیکھیں مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ وہ بڑے شوق سے مسجد آیا کریں گے۔‘‘ اسے اپنی بات پر قائم دیکھ کر سب کے درمیان نظروں کا تبادلہ ہوا اور پھر کندھے اچکا کر بے دلی سے مصافحہ کرتے ہوئے اجازت لے کر مسجد سے رخصت ہوگئے۔ …٭٭٭… ’’رخسانہ اتنی دیر؟ یہ کوئی وقت ہے کسی کے گھر آکر کام کرنے کا؟‘‘ شرمندہ شرمندہ سی رخسانہ کو چوروں کی طرح گھر کے اندر آکر دہلیز پر جوتیاں اتار کر اندر بڑھتے دیکھ کر نوشی نے اسے وہیں روک لیا۔ ’’معافی چاہتی ہوں‘ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ ’’چلو ٹھیک ہے‘ لیکن یہ تو بتائو آج دیر ہوئی کیوں؟ پہلے کسی اور گھر میں چلی گئی تھیں کیا کام کرنے؟‘‘ ’’نہیں باجی‘ دراصل گھر سے ہی نکلنے میں دیر ہوگئی تھی ذرا۔‘‘ ’’وہی تو پوچھ رہی ہوں کہ کیوں دیر ہوئی؟ ایک تو تم بولتی بہت کم ہو جتنا پوچھو بس اس کا مختصر سا جواب اور بس۔‘‘ نوشی چاہتی تھی کہ رخسانہ بھی اسے اسی کی طرح تفصیلاً جواب دے مگر یہ بھی جانتی تھی کہ وہ فطرتاً کم گو تو تھی ہی مگر عادتاً بھی کام والے گھروں میں زیادہ بولنے سے پرہیز کرتی۔ مبادا ایک گھر کی بات دوسرے گھر میں منہ سے نہ نکل جائے اور اس کی اس عادت کی وجہ سے جن گھروں میں بھی وہ کام کیا کرتی‘ وہاں اس پر بے پناہ اعتماد کیا جاتا اور اس کی یہی عادت اسے دوسری کام والیوں سے منفرد اور ممتاز بنائے رکھتی۔ ’’وہ بیٹے نے مولوی صاحب کی طرف جانا تھا‘ انٹرنیٹ کا کنکشن لگانے‘ تو اسے گھر سے کچھ چیزیں نہیں مل رہی تھیں‘ بس اس کے ساتھ وہی ڈھونڈنے میں ذرا دیر ہوگئی۔‘‘ اس دفعہ نوشی کی تسلی اور اطمینان کے لیے رخسانہ نے مکمل تفصیل کے ساتھ جواب دیا اور یوں دیا کہ نوشی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ’’انٹرنیٹ کنکشن… مولوی صاحب کو چاہیے تھا؟‘‘ ’’جی باجی۔ یہ مولوی صاحب خیر سے ہیں تو اسی دنیا کے ناں؟‘‘ ’’ارے ان کی تو ہر ادا ہی نرالی ہے ہر بات ہی انوکھی… آخر یہ چاہتے کیا ہیں؟‘‘ نوشی کے ردعمل پر رخسانہ خاموشی کے ساتھ بس کھڑی رہی‘ اس معاملے میں اس نے اپنی رائے محفوظ رکھی تھی۔ ’’باجی میں کام شروع کردوں؟‘‘ ’’ہاں… ہاں جائو۔‘‘ اکتائے ہوئے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے رخسانہ کو جانے کا کہا اور خود مولوی صاحب کے بارے میں سوچنے لگی۔ جو اب اس کے نزدیک ایک پراسرار انسان بنتے جارہے تھے۔ …٭٭٭… ’’تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے ہما؟ بھلا تم نے شمعون کو مسجد بھیجنے کے لیے بھائی کے کہنے پر کیسے حامی بھرلی؟‘‘ شاید آج نوشی کے لیے یہ دن صرف حیران ہونے کے لیے مختص کیاگیا تھا۔ ’’ارے یار بہت بحث ہوئی ہے اس بات پر‘ مسجد میں‘ مگر وہ مولوی بھی اپنی بات سے ہٹنے کو تیار نہیں ہے اور میں نے ایک دفعہ کہا تھا ناں کہ مولویوں اور وکیلوں کو قائل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے‘ کیونکہ کوئی نہ کوئی نکتہ پھر بھی نکال ہی لاتے ہیں۔‘‘ ’’ہاں تو ٹھیک ہے‘ کچھ عرصہ بعد پڑھ لیں گے قرآن پاک‘ تم خود سوچو اتنی سخت گرمی میں گھر میں تو ہرکمرے میں اے سی موجود ہے‘ مگر گھر سے باہر اتنی گرمی میں بچوں کو آخر کیوں بھیجیں؟‘‘ ’’مجھے بھی اسی بات کی ٹینشن ہے‘ اسکول میں بھی مکمل ایئرکنڈیشنڈ‘ گھر میں بھی اور وہاں مسجد میں اس قدر گرمی میں جانا بھلا کہاں کی عقلمندی ہے۔‘‘ نوشی جیسے ہر صورت ہادی کے ساتھ ساتھ شمعون کو بھی بچا لینا چاہتی تھی‘ مگر اگلے ہی لمحے ہما کے مصلحت آمیز جواب نے اس کے جوش پر بھی جیسے ٹھنڈا پانی ڈال کر کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ ’’میرا تو یہی خیال تھا مگر رازی محمود صاحب کی باتوں میں آگئے‘ کہتے ہیں محمود صاحب کی بات اب کیسے ٹال دوں‘ تمہیں تو پتہ ہے ناں ایکسائز ڈیپارٹمنٹ میں رازی کے ہیڈ تھے اور ریٹائرمنٹ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اب تک ہر معاملے میں ان کی ہیلپ کرتے ہوئے بہترین طریقے سے گائیڈ بھی کرتے ہیں۔‘‘ ’’اوہ… تو یہ بات ہے۔‘‘ ’’ہاں یار! شروع کے چند دن تو بھیجنا ہی پڑے گا اس کے بعد البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بچے ہی جانا نہیں چاہتے تو کیسے زبردستی کریں۔‘‘ ہما نے پورا لائحہ عمل ذہن میں ترتیب دے رکھا تھا۔ جس سے نوشی کے حوصلے کو بھی کچھ تقویت ملی تھی۔ ’’میں تو کہتی ہوں تم بھی تقریباً ایک ہفتہ بھیج دو ہادی کو‘ خوامخواہ بھلا نظروں میں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے بعد نہ تو میں بھیجوں گی نہ تم‘ جب بڑے ہوں گے اور کالج وغیرہ جانے لگیں گے تو دیکھا جائے گا۔ ابھی سے اتنا بوجھ ڈالنے کا کیا فائدہ؟‘‘ ’’اچھا… چلو ٹھیک ہے۔‘‘ نوشی نے بھی ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ ’’لیکن وہاں تو یو پی ایس بھی نہیں ہے یار نہ ہی جنریٹر کا کوئی انتظام ہے‘ گھروں میں تو جنریٹر کی بھی سہولت ہے ناں‘ وہاں اتنی گرمی میں جب لائٹ جائے گی پھر…؟‘‘ ماں کی ممتا ابھی تک خدشات میں گھری کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنے سے قاصر نظر آرہی تھی۔ ’’یہ سب تو مجھے اور باقی گھروں کو بھی معلوم ہے لیکن کہا ناں کہ ’مجبوری‘ ہے بچوں کو مسجد بھیجنا‘ اب کیا کرسکتے ہیں۔‘‘ ہما کا لہجہ بھی تفکر کی تصویر بنا تھا۔ ’’ویسے بھی اچھا ہے اس طرح بچے دو دن بعد ہی کانوں کو ہاتھ لگالیں گے اور ہم پر بھی الزام نہیں آئے گا۔‘‘ ’’ہاں بات تو ٹھیک ہے چلو صحیح ہے میں منیب کو ساری صورتحال بتاتی ہوں پھر اگر وہ بھی ایگری ہوئے تو ڈرائیور چھوڑ آئے گا مسجد تک۔‘‘ ’’ہاں یہ صحیح ہے تم بھائی سے بات کرلو۔‘‘ …٭٭٭… محمود صاحب کے مطابق آج سے بچے مسجد آیا کریں گے اور یہ خبر یوسف کے جوش اور خوشی کو دیدنی کئے دے رہی تھی‘ عصر کی جماعت کروانے کے بعد وہیں مسجد میں ہی بیٹھ کر بچوں کا انتظار کرنے کے بجائے وہ اٹھا اور کپڑا لے کر ٹیوب لائٹس صاف کرنے لگا۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ گاڑیوں کے رکنے کی آوازیں بالکل نزدیک سے ہی آنا شروع ہوئیں اور کچھ ہی دیر میں چند بچے چہرے پر حیرت انگیز تاثرات لیے اس کے سامنے تھے۔ ’’السلام علیکم!‘‘ سیڑھی کو مسجد کے صحن میں دیوار کے سہارے کھڑا کرکے وہ انہیں اپنے ساتھ اندر لے آیا۔ جہاں اب وہ حیرت سے مسجد کے در و دیوار کا جائزہ لے رہے تھے۔ اس کے سوال کا جواب دینے کے بعد آخر ایک بچے نے چپ کا روزہ توڑا۔ ’’یہ آپ کیوں صاف کررہے تھے لائٹس؟‘‘ ’’ارے کیوں کا کیا مطلب ہے بیٹا؟ یہ تو ہمارے نبی ﷺ کی سنت ہے ناں۔‘‘ ’’نبی… وہ کون؟‘‘ ’’میرا مطلب تھا ہمارے prophet اب سمجھ آیا؟‘‘ بغیر بولے محض گردن ہلا کر اس کی بات کا جواب دیا گیا۔ ’’لیکن مجھے تو بہت گرمی لگ رہی ہے۔‘‘ ہادی نے ٹی شرٹ کو خود سے دور کرکے گرمی کا ا ظہار کیا تو باقی بچوں کوبھی یاد آگیا کہ اس وقت وہ سب گرمی میں کھڑے ہیں۔ یہاں تک کہ پنکھے بھی بند ہیں۔ ’’کیا واقعی گرمی لگ رہی ہے؟‘‘ یوسف نے فرداً فرداً سب کی طرف دیکھا اور اثبات میں ہلتی گردن پر مسکراتے ہوئے سوئچ بورڈ کے نزدیک جاکر پنکھوں کے بٹن آن کردیئے۔ اور ایسا اس نے جان بوجھ کر مصلحتاً سوچ کے تحت صرف اس لیے کیا تھا کہ بچوں کو گرمی لگنے پر پنکھے آن کرکے اس شدت کو کم کیا جائے اور انہیں احساس ہو کہ انہیں گرمی سے بچانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ پنکھے چل رہے ہوتے اور ان کی طرف سے گرمی کی شکایت کا ازالہ کرنے کے لیے وہ کچھ بھی نہ کرسکے۔ آج اس کا بچوں کے ساتھ مسجد میں پہلا روز تھا‘ ڈرائیور نے مقررہ وقت پر بچوں کو لینے بھی آنا تھا۔ اور اسے آج کا دن اس انداز میں گزارنا تھا کہ وہ سب اگلے روز بھی آئیں۔ اسی لیے ان سب کو دائرے میں بٹھانے کے بعد وہ خود بھی ان کے ساتھ ہی دری پر بیٹھ گیا۔ اور سب سے پہلے بچوں کو اپنا اپنا تعارف کروانے کا کہا تاکہ ان کی ذہنی سطح کا بھی اندازہ ہوسکے۔ ’’مولوی صاحب مما کہہ رہی تھیں کہ آپ کو اور کوئی کام کاج نہیں ہے‘ اور اپنی مہینے کی اچھی سیلری بنانے کے لیے بچوں کو مسجد میں اکٹھا کررہے ہیں۔‘‘ اپنا تعارف کروانے کے فوراً بعد شمعون نے گھر پر ہونے والی بات چیت بھی اس کے سامنے دہرائی تو یوسف کے صاف چہرے پر ایک سایہ سا لہرا گیا۔ ’’ویسے آپ کیا جاب کرتے ہیں؟‘‘ ’’میری نوکری اللہ کے گھر میں ہے اور سیلری میں مجھے صرف اپنے مالک یعنی اللہ کی رضا کی ضرورت ہے بس۔‘‘ ’’ہماری کام والی تو ہمارے گھر میں کام کرکے مما سے بہت سارے پیسے لیتی ہے‘ اور آپ بھی تو اللہ کے گھر کے سارے کام کرتے ہیں‘ پھر پیسے بھی تو لیتے ہوں گے۔‘‘ ہادی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کوئی نوکری بغیر پیسوں کے بھی کرتا ہے کیا؟ ’’اگر آپ اپنے گھر میں کوئی کام کروگے تو کیا مما آپ کو پیسے دیں گی؟‘‘ یوسف نے چمکتی آنکھوں کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’نہیں…‘‘ ہادی نے بے پروائی سے کہا۔ ’’ لیکن ہاں وہ مجھ سےhappy ضرور ہوں گی۔‘‘ ’’بس اسی طرح اللہ بھی تو ہم سے بہت زیادہ happy ہوتے ہیں ناں‘ اور پیسے وہ تو انہوں نے ایڈوانس میں ہی دے دیئے ہیں مجھے۔‘‘ ’’جب اللہ تعالیٰ ہم سے بہت زیادہ happy ہوتے ہیں تو کیا بہت ساری چیزیں دیتے ہیں؟‘‘ ننھے ذہنوں میں ایک کے بعد ایک سوالات جنم لے رہے تھے‘ اور ان کا یہ رسپانس یوسف کے لیے انتہائی خوشی کا باعث تھا۔ ’’ہاں بالکل… آف کورس۔‘‘ ’’لیکن اللہ تعالیٰ happy کیسے ہوتے ہیں؟‘‘ مجھے بہت ساری چیزیں چاہئیں مگر مما کہتی ہیں اب سب کچھ exams کے بعد ملے گا۔‘‘ نوران نے معصومیت سے کہا تو باقی سب کو بھی اپنی ادھوری خواہشیں یاد آنے لگیں۔ ’’ہاں بار بار مما پاپا کو reimind کروانے سے بہتر ہے ناں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ہی happy کرلیں۔‘‘ ارحم نے منہ بناتے ہوئے سب کوگویا تجویز دی جو کم وبیش سبھی کے دل کو لگی بھی۔ ’’بتائیں ناں… کیسے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ happy؟‘‘ ’’یہ پوچھو بیٹا کہ اللہ تعالیٰ کب happy نہیں ہوتے‘ کیونکہ وہ تو ہم سے ہر وقت خوش رہتے ہیں۔‘‘ ’’really۔‘‘ ہادی کو حیرت ہوئی تھی۔ ’’کیا وہ ہم سے ہر وقت ہی خوش رہتے ہیں؟ تو پھر ناراض کب ہوتے ہیں؟‘‘ ’’نہیں بیٹا‘ اللہ تعالیٰ ہم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوتے۔‘‘ بچوں کے پر تجسس چہرے دیکھ کر اسے اس بات کا اطمینان ضرور ہورہا تھا کہ بچے اس کی بات پورے دھیان اور توجہ سے سن رہے ہیں۔ ’’لیکن ہاں کبھی کبھار کم خوش ضرور ہوجاتے ہیں۔‘‘ وہ ہلکا سا مسکرایا۔ ’’کم خوش کس وقت ہوتے ہیں؟‘‘ پھر سے سوال آیا۔ ’’جب ہم ان کی بات نہ مانیں۔‘‘ ’’لیکن ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے کچھ کہا ہی نہیں‘ نہ ہم نے کبھی کوئی بات سنی ہے ان کی۔‘‘ بچوں کے چہروں پر لمحہ بھر میں پریشانی ظاہر ہونے لگی تھی۔ ’’پتہ ہے بچو… اللہ تعالیٰ نے وہ ساری باتیں اپنی بک یعنی قرآن پاک میں ہمیں بتائی ہیں۔‘‘ ’’لیکن ہم نے تو کبھی بھی قرآن پاک والی بک نہیں پڑھی۔‘‘ اب ایک اور فکر نے بچوں کو آن گھیرا تھا۔ ’’پہلے والے مولوی صاحب نے ہمیں تھوڑا سا پڑھایا تو تھا لیکن وہ لینگویج… ہاں عریبک ناں وہ تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی‘ پھر اللہ تعالیٰ کی باتیں کیسے سمجھیں گے؟‘‘ ایک ہی جست میں ان کے اذہان کو درست سمت موڑنے کے بجائے وہ بالکل انہی کی ذہنی سطح پر بات کرتے ہوئے قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے خوشی محسوس کررہا تھا۔ ’’کیا اللہ تعالیٰ صرف عریبک میں باتیں کرتے ہیں؟‘‘ ننھی سی ناک چڑھاتے ہوئے ارحم نے پوچھا۔ ’’نہیں تو… اللہ تعالیٰ تو ہر اس زبان میں ہم سے بات کرتے ہیں جو ہمارا دل اور ذہن سمجھتا ہے۔‘‘ ’’تھینکس گاڈ!‘‘ یوسف کے جواب پر ہادی نے جیسے سکون کا سانس لیا۔ ’’ہاں یہ ٹھیک ہے‘ باتیں سمجھ آئیں گی تبھی تو ہم انہیں Follow کریں گے ناں۔‘‘ شمعون نے کہا تو تائید میں سر ہلاتے ہوئے یوسف مسکرا دیا مگر اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہہ پاتا‘ گاڑی کے ہارن کی آواز نے احساس دلایا کہ آج کے دن میں مختص کیا گیا مذہب کا ’’کوٹہ‘‘ بس اتنا ہی تھا اور جو اب ختم ہوا چاہتا ہے۔ جبھی یوسف نے سب بچوں کے چہروں پر شفقت کی نظر ڈالتے ہوئے بات سمیٹی۔ ’’کل سے ان شاء اللہ میں آپ سب کو قرآن پاک پڑھائوں گا بھی اور اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتیں سکھائوں گا بھی اور ہاں یہی نہیں بلکہ ایک اور بات اور وہ یہ کہ…‘‘ چند لمحے رک کر یوسف نے ان کے سسپنس کو مزید بڑھنے دیا اور پھر بولا۔ I will also tell you a story every day. (میں روز آپ کو کہانی بھی سنایا کروں گا) آپ… آپ کو انگلش بھی آتی ہے؟‘‘ ’’کیوں… کیا مجھے انگلش نہیں آنی چاہیے؟‘‘ ان کی حیرت کا پس منظر اور ان کا ممکنہ جواب جاننے کے باوجود اس نے سوال کیا‘ تو جواب دینے میں بچے جزبز سے محسوس ہوئے۔ آخر کار ہادی سب کی نمائندگی کرتے ہوئے بول ہی پڑا۔ ’’actually آپ تو مولوی صاحب ہیں ناں‘ اور مولوی صاحب کا بھلا انگلش سے کیا کام؟‘‘ ہادی کی بات پر یوسف کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی۔ مگر دوسرے بچوں کے ڈرائیورز کے بھی آجانے پر محفل برخاست ہوئی اور سب ایک انوکھے تجربے کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ …٭٭٭… ’’کیوں بھئی آج کا دن کیسا گزرا مسجد میں؟‘‘ ’’بہت ڈیفرنٹ پاپا!‘‘ ہادی نے کانٹے میں پاستہ پروتے ہوئے جواب دیا۔ ’’رئیلی! اچھا مگر وہ کیسے ؟‘‘منیب دراصل جاننا چاہتا تھا کہ آخر آج مسجد جانے کے بعد کیا وہ کل دوبارہ جانا چاہتا ہے یا نہیں‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ نوشی کی بھی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ بڑے پرجوش انداز میں جلدی جلدی پاستہ چبانے کے بعد تفصیلی جواب دینے کے لیے تیار ہوگیا۔ ’’فرسٹ آف آل پاپا‘ وہاں جو مولوی صاحب ہیں ناں وہ بہت ہی اچھے ہیں‘ اور انہوں نے ہمیں کچھ پڑھایا بھی نہیں۔‘‘ ’’پڑھایا ہی نہیں؟ تو تم لوگ کیا کرتے رہے پورا گھنٹہ؟‘‘ نوشی نے حیرت سے نوالہ منہ میں لے جانے کے بجائے ہاتھ میں ہی رکھ کر پہلے پوچھا۔ ’’ماما‘ وہ ہمارے فرینڈ بن گئے ہیں ناں‘ تو ہم سب آپس میں باتیں کرتے رہے۔‘‘ منیب نے بھی حیران ہو کر پہلے نوشی کو دیکھا اور پھر ہادی کو۔ ’’وہ بہت اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں‘ انگلش بھی بولتے ہیں‘ اور کل تو ہمیں اسٹوری بھی سنائیں گے۔‘‘ ہادی کے سامنے کسی بھی طرح کی رائے دینے کے بجائے نوشی اور منیب نے ایک دوسرے کو دیکھا اور بیزاریت سے دوبارہ کھانے کی طرف متوجہ ہوگئے۔ …٭٭٭… ’’حیرت ہے یار میں تو سمجھ رہی تھی کہ ایک دن جاکر بچے دوسرے ہی دن انکار کردیں گے مگر…‘‘ ہما نے خلاف توقع بچوں کو اگلے روز بھی مسجد جانے کے لیے بخوشی آمادہ دیکھا تو فوراً نوشی کو فون ملا کر اپنا دکھ شیئر کر ڈالا۔ ’’یار مجھے تو دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے۔‘‘ نوشی نے لہجے میں پراسراریت گھولتے ہوئے کہا تو ہما کے بھی کان کھڑے ہوگئے۔ ’’کیا مطلب؟ میں سمجھی نہیں۔‘‘ ’’اب اس میں نہ سمجھنے والی کیا بات ہے؟ کیا کبھی تم نے سنا ہے کہ کوئی مولوی یوں روانی سے انگلش بولتا ہو‘ یا بچوں کو یوں مسجد میں کہانیاں سناتا ہو‘ انٹرنیٹ یوز کرتا ہو‘ اور پھر اتنا نخرہ کہ گھروں میں آنے کے بجائے خود بچوں کو مسجد میں بلوائے۔‘‘ ’’کہتی تو تم ٹھیک ہو‘ باتیں تو ساری ہی عجیب وغریب ہی ہیں۔‘‘ نوشی کے شکوک وشبہات پر ہما نے بھی گویا دستخط کردیئے تھے۔ ’’آج کل کا دور بھی پتہ ہے ناں کیسا ہے؟ سچی ڈر ہی لگتا ہے مجھے تو۔‘‘ ’’چلو خیر ہے کوئی بات نہیں‘ ایک دن گزر گیا ہے زیادہ سے زیادہ تین چار دن اور بھیجیں گے پھر کہہ دیں گے بچے ہی نہیں مانتے۔‘‘ ’’ہاں یہ بھی ٹھیک ہے‘ اچھا وہ میرا خیال ہے پیسے بھی آج کل میں دے دیئے جائیں‘ کیونکہ اس کے بعد تو بچے ظاہر ہے جائیں گے نہیں مسجد۔‘‘ نوشی کے اختیار میں ہوتا تو ابھی کے ابھی مولوی صاحب کا حساب چکتا کردیتی۔ ’’ہاں دو چار سو دے بھیجیں گے ڈرائیور کے ہاتھ‘ کیا خیال ہے؟‘‘ ہما نے تائید چاہی۔ ’’ہاں تو اور کیا‘ اب ہم خود تو جانے سے رہے۔‘‘ ’’ارے جانے سے یاد آیا شمعون کی اسکول فیس کے لیے بارہ ہزار سائیڈ پر الگ کرکے رکھے تھے۔ میرا خیال ہے کل جمع کروا آئوں‘ ورنہ میں تو شاید انہیں بھی شاپنگ میں لگادوں۔‘‘ ’’ہاں ہاں تم تو ویسے بھی محلے کی وزیر خارجہ ہو ناں۔‘‘ نوشی کی بات پر دونوں طرف چہرے پر مسکراہٹیں بکھرنے لگی تھیں۔ …٭٭٭… اور پھر حیرت انگیز اور غیر متوقع طور پر بچوں کو مسجد جانے کا انتظار رہنے لگا۔ یوسف نے روایتی طور پر محض قرآن پاک پڑھانے کے بجائے چند دوسری ایکٹویٹیز بھی متعارف کروائیں جو کہ بچوں کے لیے گویا مقناطیسی کشش ثابت ہوئیں‘ یہاں تک کہ ڈرائیورز کو کچھ دیر سے آنے کے لیے کہا جانے لگا۔ انتہائی دلچسپ اور متاثر کن انداز اور سادہ فہم الفاظ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ‘ ان کی سیرت اور معجزات کا ذکر تو جیسے بچوں کو مسحور کرکے رکھ دیتا۔ مختلف انبیاء اکرام کے قصے‘ کہانیوں کی صورت میں بچوں کو گویا جکڑے رکھتے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے ننھے اور متجسس اذہان کو انہی جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اتنی خوبصورتی سے چھوٹی چھوٹی باتیں ذہن نشین کروائی جاتیں کہ انہیں اس بات کا احساس تک نہ ہوتا کہ یہ ان سب کی دینی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ یہ سب تو پھر بچوں کا وقتی جوش سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا‘ مگر مسئلہ تب پیدا ہوا جب قرآن پاک پڑھنے کے لیے آنے والے بچوں کی حاضری کے رجسٹر میں ایک خانے کا مزید اضافہ کردیا گیا۔ ’’مولوی صاحب یہ نیا بلاک کیوں بنا رہے ہیں ادھر؟‘‘ ہادی نے یوسف کو اسکیل سے لائن ڈرا کرتے دیکھ کر سوال کیا۔ ’’یہاں پر اس بچے کے نام کے آگے ایک گولڈن اسٹار بنا کرے گا جس کے گھر سے کوئی بھی نماز پڑھنے آئے گا۔‘‘ ’’واٹ…؟‘‘ سب بچوں نے مل کر حیران ہوتے پوچھا۔ ’’یس…!‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’لیکن ہمارے پاپا تو آتے ہی فائیو او کلاک پر ہیں ناں۔‘‘ نوران دور کی کوڑی لایا تھا۔ ’’نو میٹر… پھر بھی تین نمازوں کا ٹائم تو بچتا ہے ناں۔‘‘ ’’اور اگر کبھی وہ فریش نہ ہوں تو…؟ تو کیا میرے آنے سے بھی اسٹار ملے گا؟‘‘ خود ہی سوال اور خود ہی جواب کرتے ہوئے ہادی نے یوسف سے تصدیق چاہی۔ ’’آف کورس بیٹا‘ کیوں نہیں… آپ بھی آئوگے تو اسٹار تو ملے گا ہی ناں۔‘‘ یوسف کی بات پر سبھی بچوں کے دل میں اسٹارز کے معاملے میں سبقت لے جانے کا خیال ابھرا تھا۔ …٭٭٭… ’’بیٹا ہمارا معاشرہ مرغی کے دڑبے سے کم نہیں ہے‘ جس طرح دڑبے میں موجود مرغیاں نئی آنے والی مرغی کو برداشت نہ کرتے ہوئے اسے چونچیں مار مار کر زخمی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں ناں‘ بالکل اسی طرح ہمارے یہاں بھی نئے آنے والے کے ساتھ کم و بیش یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ بشرطیکہ وہ طاقتور نہ ہو۔‘‘ عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد گھر جانے کے بجائے محمود صاحب یوسف کے ساتھ ہی اس کے گھر چلے آئے تھے۔ ان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ان کے لیے گرم گرم کڑک سی بھاپ اڑاتی چائے بنا کر کپ میں ڈالی اور ان کے ساتھ خود بھی بیٹھا ان کے مشاہدات اور تجربات کو غور سے سننے لگا۔ ’’تم نے یہاں بچوں کے مسجد آنے کی ایک بالکل نئی روایت قائم کی ہے ورنہ مرحوم قاری صاحب گھر گھر جاکر ہی پڑھایا کرتے تھے۔ ’’محمود صاحب قرآن پاک یا اور کسی بھی طرح کی دینی تعلیم دینے کے لیے مجھے گھر گھر جانے میں نہ تو عار ہے نہ شرم‘ بلکہ اگر میں نے اس طریقے سے انکار کیا ہے تو اس کی بھی ایک وجہ تھی۔‘‘ چائے کی چسکی لیتے ہوئے محمود صاحب نے اس کی چمکدار آنکھوں میں ایک جوش اور عزم دیکھا تھا۔ ’’دراصل بچے ہمیشہ اس کام میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جو اجتماعی طور پر ہورہا ہو‘ اور میں دل سے یہ چاہتا ہوں کہ بچے ہمارے مذہب کی گہرائی تک نہ سہی تو عمومی طور پر ضرور آجائیں‘ اسی لیے آپ دیکھیے گا کہ اگر اللہ کی مدد رہی تو ایک ڈیڑھ سال میں یہ بچے اپنے بڑوں سے کہیں زیادہ اپنے رب سے نزدیک ہوں گے۔‘‘ ’’ان شاء اللہ بیٹا‘ کیوں نہیں خدا تمہاری مدد کرنے والا ہے۔‘‘ اس کا عزم خود محمود صاحب کے اندر ایک انجانی خوشی منتقل کررہا تھا۔ ’’آپ کو پتہ ہے محمود صاحب‘ جب پہلے دن میں نے انہیں نبی آخر زماں صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے بارے میں بتایا تو ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے اور وہ مجھ سے مزید سوالات پوچھنے لگے یہاں تک کہ اب ایک ہفتے کے دوران وہ کئی معجزات اور سیرت طیبہ کے بارے میں اتنی دلچسپی سے سنتے ہیں کہ ان میں سے کتنی ہی باتیں یقینا ان کے ذہن میں ہمیشہ موجود رہیں گی۔‘‘ ’’سچ کہہ رہے ہو بیٹا بلکہ میں تو کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ سپر مین‘ اسپائڈر مین یا ہیری پورٹر وغیرہ کو آئیڈیلائز کرنے والے بچے اور پھر ان سے آگے کی نسلیں دجال کے فتنے کا سامنا کیسے کریں گی جو آسمان سے بارش تک برسانے اور سمندر کی تہہ میں موجود مچھلیوں کو صرف ایک اشارے سے باہر بلانے پر اللہ کے حکم سے قدرت رکھتا ہوگا۔‘‘ ’’اسی لیے تو بچوں کے ذہن کلیئر رکھنے اور انہیں مذہب کے قریب لانے کی ضرورت ہے۔ ان کے ننھے اذہان میں رب کریم کا تصور ’غفار‘ یا’ قہار‘ کے بجائے ’رحیم‘ اور’ رحمن‘ کے طور پر پختہ کیا جانا چاہیے۔‘‘ یوسف نے محمود صاحب کے ہاتھ سے خالی پیالی لے کر سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تربیت تو بڑوں کی بھی ہونی چاہیے ناں۔‘‘ محمود صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’کیوں نہیں‘ لیکن بڑوں تک پہنچنے کے لیے اگر بچوں کو سیڑھی بنایا جائے تو معاملہ زیادہ برق رفتاری سے حل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔‘‘ محمود صاحب نے نظر بھر کر یوسف کے چمکتے چہرے کو دیکھا اور دل ہی دل میں اسے ہزاروں دعائیں دے ڈالیں۔ …٭٭٭… ’’بابا… نہیں مجھے کچھ نہیں پتہ‘ آپ آج میرے ساتھ مسجد جائیں گے بس۔‘‘ ہادی نے منہ پھلاتے ہوئے کہا تو نوشی نے بھی ازراہ مذاق منیب کی طرف دیکھا۔ ’’یک نہ شد دو شد…‘‘ ’’بیٹا فضول کی ضد مت کرو‘ اور دیکھو آپ تو وہاں قرآن پاک پڑھنے جاتے ہو ناں‘ لیکن میں تو قرآن پاک پڑھ چکا ہوں۔‘‘ منیب نے ہادی کو ٹالنا چاہا تھا مگر ناکام رہا۔ ’’لیکن مولوی صاحب تو کہہ رہے تھے کہ بے شک قرآن پاک ختم ہوجائے پھر بھی مسجد روز جانا چاہیے۔‘‘ ’’اوہو! تو میں کوئی مولوی صاحب ہوں کیا؟‘‘ ہادی کے مسلسل اور نہ ختم ہونے والے اصرار نے بالآخر منیب کو زچ کردیا تھا۔ ’’لیکن آپ نماز تو پڑھ سکتے ہیں ناں‘ مسجد جاکر…‘‘ ہادی نے منہ بسورا تو نوشی منیب کی مدد کو میدان میں اتر آئی۔ ’’بیٹا آپ کو پتہ ہے ناں پاپا تھک جاتے ہیں‘ سارا دن کام کرکے‘ اس لیے اب تو انہیں ریسٹ کرنا چاہیے ناں۔‘‘ maximum ٹوئنٹی منٹس تو لگتے ہیں صرف نماز میں خوامخواہ عشاء تک آپ کا ویٹ کیا۔ پہلے پتہ ہوتا کہ آپ نہیں جائیں گے تو میں خود ہی چلا جاتا۔‘‘ ہادی نے پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پھیرا تو منیب کو اس پر بے تحاشا پیار آیا۔ ’’خود چلا جاتا؟‘‘ اس نے حیرت سے ہادی کو دیکھا جس کے چہرے پر خفگی کے تاثرات نہایت نمایاں تھے۔ ’’جی پاپا‘ آپ ڈرائیور سے کہیں مجھے مسجد چھوڑ آئے‘ عشاء کے لیے… یا پھر… چلیں رہنے دیں میں خود چلا جاتا ہوں۔‘‘ ’’خود چلا جاتا ہوں اس وقت… مگر کہاں؟‘‘ نوشی جو دو دن کے لیے اسے مسجد بھیجنے سے کترا رہی تھی اب اس کی مسجد سے یوں محبت دیکھ کر حیران بھی تھی اور پریشان بھی۔ ’’مسجد مما اور کہاں میں دوسرے فرینڈز کو بھی فون کرکے بلا لیتا ہوں ناں۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ فون کی طرف بڑھتا‘ منیب نے لاسٹ اوپشن استعمال کرنے کا سوچا۔ ’’اچھا ایسا کیوں نہ کریں لانگ ڈرائیو پر چلتے ہیں۔ آئس کریم بھی کھائیں گے اور فریش بھی ہوجائیں گے۔‘‘ ’’آپ مما کے ساتھ چلے جائیں پاپا مگر مجھے تو نماز کے لیے دیر ہو رہی ہے۔‘‘ ابھی تک ناراض تاثرات لیے ہادی وضو کے لیے اٹھنے لگا تو وہ دونوں بس حیران کھڑے اسے دیکھتے ہی رہے۔ یہ انداز یہ الفاط کتنے اجنبی تھے ان کے لیے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا‘ ننھا ہادی آج انہیں بڑا بڑا لگنے لگا تھا۔ ’’میرا خیال ہے آپ چلے ہی جائیں اس کے ساتھ‘ رات کا وقت ہے اکیلا کیسے جائے گا۔‘‘ نوشی کے لہجے میں فکر مندی واضح نظر آرہی تھی۔ خود منیب بھی اس کے آگے ذہنی طور پر ہتھیار ڈال چکا تھا۔ ’’ہاں میں بھی یہی سوچ رہا ہوں‘ اور چلو خیر ہے بیس پچیس منٹ ہی تو لگیں گے مگر بچہ خوش ہوجائے گا اور واک بھی ہوجائے گی مسجد جاتے جاتے۔‘‘ جس ربِّ کریم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کو وہ جارہا تھا‘ اسے خوش کرنے کی نیت یا ارادے پر تو ویسے بھی گرد کی تہیں جم چکی تھیں۔ جبھی یہ بات تو اس کے خیال میں بھی نہیں آئی کہ خوش تو دراصل وہ ذات ہوگی جو اپنے بندے کے نیک اعمال اور صراط مستقیم کی طرف لوٹ آنے کی منتظر رہتی ہے اور اس کے لوٹ آنے پر آغوش کشادہ کیے اپنی رحمت بھری پناہ سے یوں نوازتی اور اس کی سابقہ خطائوں اور غلطیوں کو یوں درگزر کرکے اپنا بناتی ہے کہ بندے کو خود دیر سے لوٹنے پر شرمندگی اور ندامت ہونے لگتی ہے۔ ’’ہادی رکو بیٹا‘ میں بھی چلتا ہوں آپ کے ساتھ۔‘‘ وضو کرنے کے بعد منیب لائونج میں آیا تو منیب نے اسے روک لیا۔ ’’او رئیلی… وائو مائی بابا ازگریٹ… بیسٹ پاپا ان دی ورلڈ۔‘‘ ہادی فوراً آکر اس کے گلے سے جھول گیا۔ نوشی نے بڑے مان سے مسکراتے ہوئے منیب کودیکھا اور گردن کی ہلکی سی جنبش سے ہادی کی بات کی تائید کردی۔ ’’اب مجھے ٹو گولڈن اسٹارز ملیں گے!‘‘ ’’گولڈن اسٹارز؟ مگر کہاں سے؟‘‘ نوشی نے پوچھا۔ ’’مولوی صاحب نے کہا تھا جس کے گھر سے جتنے لوگ مسجد نماز پڑھنے آئیں گے اس بچے کو اتنے ہی گولڈن اسٹارز ملیں گے۔‘‘ ’’یہ مولوی صاحب بھی ناں…‘‘ منیب نے بیزاریت سے کہا مگر نوشی نے آنکھ کے اشارے سے ہادی کی موجودگی کی طرف دھیان دلاتے ہوئے اسے چپ رہنے پر مجبور کردیا۔ …٭٭٭… یوسف آج بہت خوش تھا‘ اتنا خوش کہ اس احساس کی چمک اس کے چہرے سے عیاں ہوکر اپنا آپ سب پر واضح کیے دے رہی تھی۔ جب سے وہ اس مسجد میں اپنے فرائض سنبھالنے آیا تھا‘ عشاء کی نماز کی ادائیگی کے لیے تو شاذ و نادر ہی لوگ مسجد کا رخ کرتے‘ مگر آج… اس کا دل چاہ رہا تھا ایک ایک بچے کو اٹھ کر گلے لگالے جو خود تو آئے ہی تھے مگر ساتھ اپنے والد کو بھی لائے تھے اور ان سب کو اپنے والد صاحبان کو مسجد تک لانے میں کتنی مشقت کرنی پڑی ہوگی اس بات کا بھی احساس اور قدر اسے بہت اچھی طرح تھی۔ ویسے یہ کیفیت صرف یوسف پر ہی طاری نہیں تھی جو لوگ آج مسجد آئے تھے سبھی کم و بیش کچھ انوکھا محسوس کررہے تھے۔ کتنے ہی دنوں کے بعد وہ لوگ ایک جگہ جمع ہوئے تھے‘ ورنہ تو افطار پارٹی یا دوسرے اجتماعات میں ہی یوں وہ لوگ اکھٹے ہوا کرتے۔ مسجد سے نکلنے کے بعد ٹولیوں کی صورت میں کچھ دیر وہیں کھڑے سب آپس میں گپ شپ کرنے لگے تو بچوں کو بھی ایک ساتھ کھیلنے کا موقع مل گیا۔ اسی دوران محمود صاحب نے موقع غنیمت جانتے ہوئے بات چھیڑ دی۔ ’’بیٹا منیب‘ ہادی کے ٹیوٹر سے بات کی ہمارے پوتے کو ٹیوشن پڑھانے کے لیے؟‘‘ ’’جی محمود صاحب کہہ رہے تھے نیکسٹ ویک سے آجایا کرے گا۔‘‘ ’’چلو یہ تو اچھا ہوا اور فیس کیا ہے…؟‘‘ تمہید کے طور پر بات شروع کرنے کے بعد اب وہ اپنی اصل بات پر پہنچ چکے تھے۔ باقی سب بھی ان کی بات شروع ہوتے ہی خاموش کھڑے ان دونوں کا مکالمہ سن رہے تھے۔ ’’فیس… ہادی کے تو ہم پانچ ہزار دیتے ہیں‘ اور آپ سے بھی آئی تھنک اتنے ہی لے گا۔ ’’ہاں بالکل‘ اس سے کم تو کوئی مشکل ہی سے لے گا۔ محمود صاحب یہ ٹیچر بہت مناسب فیس لیتا ہے۔‘‘ رازی نے بھی منیب کی تائید کی۔ ’’بیٹا‘ ایک ٹیوٹر کی پانچ ہزار جبکہ قرآن‘ ایمان اور آخرت کی تعلیم دینے والے کو پانچ سو بھی نہیں؟ بات کے یوں اچانک رخ بدلنے پر منیب اور رازی کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی چونکے تھے۔ ’’کیا گھر سجا دینا اور خوش لباس ہونا ہی کافی ہوتا ہے چاہے منہ میں ایک لقمہ بھی نہ جائے؟‘‘ ’’محمود صاحب وہ…‘‘ رازی نے خجالت سے سر کھجایا۔ ’’بیٹا یہ دنیاوی تعلیم میں نہیں کہتا کہ بچوں کو نہ دلوائو‘ لیکن ہاں اتنا ضرور ہے کہ لباس اور زیبائش کے ساتھ انتہائی لازمی جز خوراک کا بھی تو خیال رکھو ناں۔‘‘ سامنے کھڑے سبھی لوگوں نے کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا مگر محمود صاحب کا معاشرے میں باعزت مقام تھا۔ اچھے برے وقت میں محلے کے ہر خاندان پر سر پرست بن کر سایہ کرتے‘ اسی لیے ان کی بات سب کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل تھی اور سب کو سننا بھی تھی‘ دینی تعلیم ہمارے لیے خوراک کی سی حیثیت رکھتی ہے اور تعلیم دینے والا ہمارے لیے ایک بہترین خوراک کس طرح تیار کرے جب اس کے پاس اجزائے ترکیبی حاصل کرنے کے بھی وسائل موجود نہ ہوں۔‘‘ ’’میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں‘ واقعی اس رخ پر تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں۔‘‘ رازی نے اعتراف کیا تو باقی سب بھی گردن ہلانے لگے۔ ’’ماشاء اللہ یہاں رہنے والے سبھی افراد باعزت روزگار نہ صرف خود حاصل کیے ہوئے ہیں بلکہ کئی تو دوسروں کے روزگار کا وسیلہ بنتے ہوئے کئی لوگوں کی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں معاون ہیں۔ تو ایسی صورت میں ہر گھر سے دو‘ دو سو روپے یوسف صاحب کی تنخواہ کی مد میں مجھ تک پہنچنا خود مجھے شرمندہ کرگیا۔‘‘ محمود صاحب کی بات کا یہ اثر ہوا کہ اسی وقت معذرت کرتے ہوئے سب نے اجتماعی طور پر ایک معقول رقم تنخواہ کی مد میں محمود صاحب کے حوالے کی جو کہ انہوں نے یوسف تک پہنچانے میں بالکل دیر نہ کی۔ …٭٭٭… ’’وائو… مما جلدی آئیں… یہ دیکھیں مجھے کیا ملا ہے؟‘‘ ہادی نے مسجد سے آنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہوتے ہی نوشی کو پکارنا شروع کردیا تھا جبھی اس کے لیے گرما گرم فرنچ فرائز بناتی نوشی نے جلدی سے ٹشو سے ہاتھ صاف کیے اور باہر کی طرف بھاگی‘ تب تک وہ لائونج عبور کرکے صوفے پر بیٹھا ایک خوبصورت سے گفٹ پیپر میں لپٹا کوئی گفٹ کھولنے کی کوشش کررہا تھا۔ ’’آپ آگئیں… یہ دیکھیں۔‘‘ ہادی کی ایکسائٹمنٹ دیدنی تھی۔ نوشی کو دیکھ کر تو جوش میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ’’ارے واہ… یہ کیا ہے بھئی؟‘‘ ’’آج مسجد میں ہمارا Compitition تھا۔ ’’and i won that‘‘ ’’او رئیلی؟‘‘ نوشی نے فوراً اسے گلے لگاتے ہوئے بالوں پر پیار کیا۔ ’’آپ کو پتہ ہے مما‘ میں تینوں رائونڈز میں آئوٹ اسٹینڈنگ تھا۔ پہلے تو مولوی صاحب نے قرآن پاک سنا‘ فرسٹ ڈے سے لے کر اب تک جتنا بھی پڑھایا تھا ناں‘ اس سارے میں سے ٹیسٹ لیا تھا انہوں نے۔‘‘ گفٹ کھولتے ہاتھ رک گئے تھے اور اب وہ پورے جوش سے تفصیلات بتا رہا تھا۔ ’’پھر؟‘‘ نوشی اس کی بات میں بھرپور دلچسپی لے رہی تھی۔ ’’اس میں میری کوئی بھی غلطی نہیں ہوئی‘ پھر وضو کروایا وہ بھی میں نے پرفیکٹ کیا اور لاسٹ میں ٹوکلمے سنے تھے ناں‘ وہ بھی میں نے without any mistake سنا دیئے‘ پھر انہوں نے مجھے یہ گفٹ دیا اور باقی بچوں کو بھی۔‘‘ بڑی خوشی سے اس نے گفٹ پیپر ہٹایا تو اندر اسماء الحسنی کی سی ڈی موجود تھی۔ ’’مما یو نو… مولوی صاحب نے کہا ہے کہ ہم ایک مہینے میں یہ ساری سی ڈی یاد کرلیں گے۔‘‘ ’’ہوں‘ یہ تو بڑی اچھی بات ہے‘ لیکن ایسا کرو اب آکر کچھ کھالو۔ بھوک لگ رہی ہوگی ناں۔‘‘ نوشی نے سی ڈی لے کر رکھتے ہوئے کہا‘ مگر اس کے ساتھ ہی اٹھتے ہوئے ہادی نے ایک بار پھر سی ڈی ہاتھ میں لے لی۔ ’’یہ بھی آن کرلیتے ہیں کھانے کے ساتھ۔‘‘ ’’اچھا بابا آئو تو سہی۔‘‘ مسکراتے ہوئے نوشی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور لاڈ سے بال بگاڑتے ہوئے اپنے ساتھ کچن میں لے آئی۔ ہادی کے بدلتے جذبات کے ساتھ خود اس کے خیالات بھی بدل رہے تھے۔ …٭٭٭… ’’کہاں تھیں یار؟ اتنی دیر سے فون کررہی ہوں ریسیو ہی نہیں ہو رہا۔‘‘ جائے نماز لپیٹ کر ابھی نوشی اٹھی ہی تھی کہ فون کی بیل پر متوجہ ہوئی‘ جہاں دوسری طرف ہما موجود تھی۔ ’’نماز پڑھ رہی تھی ناں ابھی ابھی اٹھی ہوں۔‘‘ ’’نماز پڑھ رہی تھیں…!‘‘ ہما کو جیسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔ ’’کیوں… اتنی حیران نہ ہو یار‘ آخر کو میں بھی تو مسلمان ہوں۔‘‘ ’’تو یہ تمہیں یاد کس نے دلا دیا کہ تم بھی خیر سے مسلمان ہو۔‘‘ ہما نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہاں ویسے بھولنا تو نہیں چاہیے تھا مگر ہادی نے کہہ کہہ کر شرمندہ کردیا اور میں نے بھی سوچا شرم آنی چاہیے ہمیں کہ بچے منتیں کرکر کے ہمیں نماز کے لیے آمادہ کررہے ہیں حالانکہ ہمیں چاہیے تھا کہ بچوں کو نماز کی تاکید کرتے۔‘‘ ’’لو بھئی تم تو گئیں کام سے‘ بن گئیں ملانی آخر کار۔‘‘ ہما کے لہجے میں اس دفعہ طنز بھی در آیا تھا۔ ’’یہی تو مسئلہ ہے ہم میں‘ کسی بھی اچھے کام کی تقلید کرنے کے بجائے اولین ترجیح کے طور پر اس میں خامیاں تلاش کرکے تمسخر اڑانے لگتے ہیں۔‘‘ ’’اچھا یار میرے سامنے تو ذرا تبلیغ سے پرہیز ہی کرو‘ پہلے ہی مجھ سے تو وہ مولوی برداشت نہیں ہو رہا‘ اللہ جانے بچوں کو کس طرح پڑھاتا ہے کیا کرتا ہے‘ اتنی ننھی سی عمر میں ہی ان کی باتیں سنو تو لگتا ہے وہ نہیں ان کے اندر کوئی ملا بول رہا ہے۔‘‘ ’’ہم بہت منفی نہیں سوچتے ان کے حوالے سے۔ پہلے میں بھی تمہاری طرح سوچتی تھی لیکن یار دھندلی عینک لگا کر دنیا دیکھیں گے تو دنیا بھی دھندلی ہی نظر آئے گی ناں‘ مگر یہ بات تو Understood ہے کہ دنیا میں خرابی نہیں بلکہ خرابی ہماری عینک میں ہے۔‘‘ نوشی نے اس کی رائے بدلنا چاہی۔ ’’کہنا کیا چاہ رہی ہو تم؟‘‘ اس کے بدلے ہوئے انداز بیاں پر ہما کھٹکی۔ ’’تم خود سوچو انگلش اخبار پڑھنا‘ کرکٹ یا دوسرے کھیلوں میں حصہ لینا‘ خوش لباس ہونا وغیرہ کیا یہ سب اسلام کے منافی ہے؟ اگر نہیں تو پھر مولوی حضرات یا قاری صاحب کو ہم نے صرف مسجد اور چوغے تک پابند کیوں کردیا ہے‘ ہم کیوں ان لوگوں کو زندگی کی باقی ایکٹویٹیز سے دور رکھنا چاہتے ہیں؟‘‘ ’’اس لیے کہ وہ جس منصب پر ہیں انہیں یہ سب سوٹ نہیں کرتا۔‘‘ ’’یہ سب تو بس ہماری اپنی سوچ ہے۔ ورنہ اسلام نے تو دین اور دنیا دونوں کو ایک ساتھ نبھانے کی ہدایت کی ہے ناکہ دنیا سے ناطہ توڑ کر گوشہ نشین ہونے کی۔‘‘ ’’تو پھر بھی کوتاہی تو سراسر مولوی حضرات کی ہی بنتی ہے ناں‘ جنہوں نے تبلیغ اسلام میں سنگین کوتاہی برتی ہے‘ محض اپنی تقویت اور اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے مقابلے پر ایک کے بعد ایک مدرسے کھولتے جارہے ہیں۔ جہاں کی کوئی بھیout -put مجھے تو سوائے اس کے کوئی نظر نہیں آئی کہ وہ بچے جن کا تعلیم میں دل نہ لگتا ہو تو والدین کان سے پکڑ کر وہاں چھوڑ آتے ہیں جہاں بیشتر یتیم اور لاوارث بچوں کو محض ہل ہل کر قرآن پاک نہ صرف پڑھنا سکھایا جاتا ہے بلکہ ’’منہ زبانی‘‘ رٹوا دیا جاتا ہے تاکہ محفلوں میں قرآن پاک پڑھ کر اسی مدرسے کے لیے ہدیہ اور تبرک لانے کا بھی ذریعہ بن سکیں۔‘‘ ہما سانس لینے کو رکی اور پھر کافی دیر سے خاموش سامع بنی اس کی باتیں سنتی نوشی سے سوال کر بیٹھی۔ ’’اچھا تم ہی بتائو کیا اکثر وبیشتر مولوی حضرات بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتے ہوئے کبھی اس کے مفہوم سے بھی شناسائی فراہم کرتے ہیں؟ کیا کبھی انہوں نے قرآن کریم اور عہد حاضر کی ضروریات کو ایک پیمانے میں ڈال کر بچوں کے سامنے پیش کیا؟ تم خطبے ہی دیکھ لو کیا کبھی کسی نے ہماری روز مرہ زندگی کے ساتھ قرآن پاک کا تعلق جوڑ کر اسے بہترین بنانے کی باتیں کیں؟‘‘ ’’کچھ لوگ کرتے ہیں یہ سب بھی۔‘‘ نوشی کی کمزور سی آواز مائوتھ پیس پر ابھری۔ ’’کچھ کو چھوڑو‘ میں اکثریت کی بات کررہی ہوں یار اور صرف اس لیے کہ بدقسمتی سے ہمارے علماء کی اکثریت جدید تعلیم سے نابلد ہے یہ لوگ ہمیں قرآن پاک اس طرح پڑھنا کہاں سکھاتے ہیں جس طرح ہم پر فرض ہے‘ یہ تو بس قرآن پاک کو استعمال کرنا سکھاتے ہیں‘ مرحومین کی بخشش کے لیے‘ وظائف کے لیے‘ یا ثواب کمانے کے لیے لیکن خود سوچو یہ باتیں تو دوسرے درجے پر آتی ہیں ناں… یہ ربّ کو راضی کرنا اور اسے راضی رکھنا کیوں نہیں سکھاتے؟‘‘ نوشی کو اس کی تمام باتیں سچ معلوم ہو رہی تھیں تبھی گہری سانس لے کر سنتی گئی۔ ’’یہی وجہ ہے کہ ہم نے مذہب کو محض رسمی طور پر اڈاپٹ کر رکھا ہے۔ قربانی دیتے ہیں تو رسمی‘ سال میں ایک دفعہ رسمی طور پر زکوٰۃ دے دی تو فارغ‘ اس کے بعد چاہے پڑوسی بھوک سے خودکشی کرلے‘ پروا نہیں‘ حج کو چلے گئے‘ رسمی طور پر ادائیگی کرلی‘ واپسی پر نام کے ساتھ حاجی لگا کر پھر اپنی تمام برائیوں میں مشغول‘ نماز کو بھی اسی طرح ہم نے صرف ایک رسم کی طر ح ادا کرنا ہے جاء نماز تہہ کیا اور بس کہاں کی نماز اور کون سی نماز… اس لیے تو میرا دل اوب گیا ہے ان چیزوں سے‘ اور تم یقین کرو نوشی میرا تو سو فیصد ماننا ہے کہ مولوی صاحبان کی اکثریت ہمیں صرف اور صرف اسلام کی رسمیں ادا کرنا سکھاتی ہے‘ اینڈ دیٹس اٹ!‘‘ ’’باتیں تو تمہاری سبھی ٹھیک ہیں لیکن خود سوچو ناں یہ مولوی صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی ہماری تنقید کا نشانہ بنتے ہیں‘ اب پچھلے دنوں یہ issue چلتا رہا کہ وہ مسجد میں انٹرنیٹ آن کرکے بیٹھے رہتے ہیں مگر جب کھوج لگایا گیا تو پتہ چلا کہ وہ تو صرف دوگھنٹے آن لائن چند لوگوں کو قرآن پاک سکھاتے تھے اور سب لوگوں نے اس بات کو کتنا غلط طریقے سے لیا اور پھر بعد میں شرمندگی ہوئی۔‘‘ ’’ہاں وہ سب تو واقعی غلط ہوا تھا لیکن ان پر بھی تنقید اس لیے ہوئی تھی شروع شروع میں کہ وہ ایک یونیک سے انسان تھے اور کم از کم میں نے تو اپنی پوری زندگی میں کبھی آج تک پاکستان میں ایسے مولوی کو نہیں دیکھا جو یوں فر فر انگلش بھی بولتا ہو اور بچوں کو اتنے خلوص اور پورے دل سے ہرصورت قرآن پاک سکھانا چاہتا ہو۔‘‘ ہما نے اپنی ابتدائی سوچ کے غلط ہونے کا کھلے دل سے اعتراف کیا تھا۔ ’’بچوں اور وہ بھی ہمارے پٹاخہ جیسے بچوں کو پتہ نہیں کیسے قابو کیا کہ یقین کرو بچے خود اپنے شوق سے نہ صرف خود مسجد جاتے ہیں بلکہ اپنے بڑوں کو بھی گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔‘‘ ہما نے قہقہہ لگایا۔ ’’ہاں یہ کریڈٹ تو انہیں جاتا ہے۔‘‘ نوشی نے بھی تائید کی۔ ’’اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ یہ سب اس محلے کے بچوں یا ہمارے لیے نہیں بلکہ اللہ کے لیے کررہے ہیں ان کی نوکری سرکاری ہے کیونکہ وہ سب سے بڑی سرکار کے پاس نوکر ہیں۔‘‘ نوشی نے منیب کے منہ سے سنی ہوئی مولوی صاحب کی باتیں ہما تک پہنچائیں۔’’حیرت ہے‘ ورنہ اتنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی…‘‘ ہما کچھ کہتے کہتے رکی۔ ’’دراصل ہمارا المیہ یہ ہے ہما کہ ہم دوسروں کی خامی بہت جلد اچھالتے ہیں مگر خود اپنی اصلاح نہیں کرتے‘ کیا ہم نے خود کبھی اپنے بچوں پر دین کے معاملے میں کوئی دھیان دیا‘ ماں ہونے کے ناطے کیا سونے سے پہلے ان سے کچھ دعا وغیرہ سنی؟ دلچسپ پیرائے میں مختلف انبیاء کرام علیہ السلام اور خود سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے بارے میں کچھ بتایا؟ اسکول میں ٹیسٹ ہو تو آگے پیچھے گھوم پھر کر لاڈ سے تیاری میں بھی مدد کرواتے ہیں اور پک اپ بھی کرتے ہیں‘ کبھی قرآن پاک کے لیے ایسا کیا؟ بلکہ اکثر اوقات اسکول کے ہوم ورک کی زیادتی یا پیپرز کی تیاری کے لیے قرآن پاک پڑھنے سے ہی چھٹی کروالی جاتی ہے۔‘‘ اس دفعہ سننے کی باری ہما کی تھی سو خاموش رہی۔ ’’کیا باپ ہونے کے ناطے بچوں کی انگلی پکڑ کر انہیں ادائیگی نماز کے لیے مسجد لے کر گئے؟ بچپن سے ہی ان کے دماغ میں ڈاکٹر یا انجینئر وغیرہ بننے کا جنون داخل کیا جاتا ہے ناں کیا کبھی ہم میں سے کسی نے یہ بھی کہا کہ ہمارا بیٹا بڑا ہو کر عالم بنے گا؟ پارٹیز فنکشنز میں ہم بڑے فخر سے سب کے سامنے کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ تو اتنا زبردست ڈانس کرتا ہے گانے گاتا ہے‘ کبھی اسی فخر اور مان کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ہمارا بچہ فلاں سپارے پر ہے یا اسے چھ کلمے فرفر آتے ہیں… نہیں ناں؟‘‘ نوشی نے ہما کو مسلسل خاموش پاکر شامل گفتگو کرنا چاہا۔ ’’ہاں کہتی تو تم بھی ٹھیک ہو۔‘‘ ’’تو جب بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہے تو الزام سارا مولوی حضرات پر کیوں؟ پہلے اپنی ذمہ داری ہم خود تو نبھائیں‘ باقی باتیں تو بعد کی ہیں۔‘‘ ’’ہوں…‘‘ ہما نے گہری سانس خارج کی۔ ’’کہنا آسان ہے سب کچھ‘ لیکن کرنا مشکل۔‘‘ ’’مشکل تو اب چاند پر بھی جانا نہیں ہے‘ تم اس کی بات کررہی ہو۔‘‘ نوشی مسکرائی۔ ’’اور تم دیکھنا ہما‘ یہ سب میں تمہیں کرکے دکھائوں گی۔‘‘ ’’کیا مطلب… کیا کروگی تم؟‘‘ ہما اس کی بات کی تہہ تک نہیں پہنچی تھی۔ ’’ان شاء اللہ میں اپنے بیٹے کو عالم بنائوں گی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ عالم‘ جس کا مقصد اور مشن ان مولوی صاحب کی طرح نوجوان نسل کو رحمن اور رحیم سے متعارف کروانا ہوگا اور پھر اگر ایک نوجوان بھی اسلام کی اصل روح کو سمجھ گیا تو بس ہمارا مقصد پورا ہوجائے گا۔‘‘ ’’کاش ایسا ہو…‘‘ ہما نے نوشی کے احساسات محسوس کرتے ہوئے دل سے دعا کی تھی۔ ’’ایسا ہی ہوگا ان شاء اللہ‘ کیونکہ میرے بیٹے کی نوکری سرکاری ہوگی ’’بڑی سرکار کے پاس۔‘‘ فون بند کرتے ہوئے نوشی پرعزم تھی اور یہ فیصلہ اس نے جذبات کی رو میں آکر نہیں بلکہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر کیا تھا کہ وہ دین جو اپنوں میں اجنبی بن چکا تھا اسے پھر سے اپنا بنانے کے لیے اپنے حصے کی شمع تو جلانی ہی تھی…!!!
|
Sponsored Links |
|
(#2)
![]() |
|
|||
|
(#3)
![]() |
|
|||
|
(#4)
![]() |
|
|||
|
(#5)
![]() |
|
|||
|
(#6)
![]() |
|
|||
|
(#7)
![]() |
|
|||
|
(#8)
![]() |
|
|||
|
(#9)
![]() |
|
|||
|
(#10)
![]() |
|
|||
|
![]() ![]() |
Bookmarks |
Tags |
ایسا, کاش, گل |
|
|
![]() |
||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
پانی اور بھاپ کا استعمال ۔۔۔۔۔۔۔۔ | ROSE | Health & Care | 6 | 05-31-2013 09:36 PM |
مایوس بندہ کب ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ | )*¤° ąℓɨƶą ąhʍ€ď °¤*( | General Discussion | 11 | 05-09-2013 04:21 PM |
دعاوں کا اثر ھے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ | life | Ashaar's | 15 | 09-20-2011 02:42 PM |
ہجر کے ماہتاب سن۔۔۔۔۔۔۔۔ | khwahish e benam | Miscellaneous/Mix Poetry | 5 | 01-08-2011 10:31 PM |
وہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ | !«╬Ĵamil Malik╬«! | Miscellaneous/Mix Poetry | 19 | 11-13-2010 07:12 PM |