صرف یہ جھانکھنے کے لئے کہ ’’ ذات‘‘ کیا چیز ہے؟ اس کے لئے ہر کسی کے پاس ایک ’’ڈیوائس‘‘ ایک آلہ ہے، جو سانس ہے، جو ساتھ ہے، بیٹھنے کے بعد آپ اپنے سانس کے اوپر ساری توجہ مرکوز کر دیں اور یہ دیکھیں کہ ہر چیز سے دور ہٹ کر جس طرح ایک بلی اپنا شکار پکڑنے کے لئے دیوار پر بیٹھی ہوتی ہے۔ اپنے شکار یعنی سانس کی طرف دیکھیں کہ یہ جا رہا ہے اور آ رہا ہے۔ اس کام میں کوتاہی یا غلطی یہ ہوتی ہے کہ آدمی سانس کو ضرورت سے زیادہ توجہ کے ساتھ لینے لگ جاتا ہے، یہ نہیں کرنا۔ آپ نے اس کو چھوڑ دینا ہے، بالکل ڈھیلا صرف یہ محسوس کرنا ہے کہ یہ کس طرح سے آتا ہے اور جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پہلے دن تقریباً ایک سیکنڈ یا ڈیڑھ سیکنڈ تک سانس کے ساتھ چل سکیں گے۔ اس کے بعد خیال آپ کو بھگا لے جائے گا۔ وہ کہے گا کہ یہ بندہ تو اللہ کے ساتھ واصل ہونے لگا ہے۔ میں نے تو بڑی محنت سے اس کو خیالوں کی دنیا میں رکھا ہے (وہ خیال چلتا رہتا ہے، موت تک۔ لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ جی نماز پڑھنے لگتے ہیں تو بڑے خیال آتے ہیں)۔ وہ خیال آپ کو کہیں کا کہیں کافی دور تک لے جائے گا۔ جب آپ کو یہ خیال آئے کہ میں تو پھر خیال کے نرغے، گھیرے یا چُنگل میں آ گیا، چاہے اسے بیس منٹ بھی گزر چکے ہوں، آپ پھر لوٹیں اور پھر اپنے سانس کے اوپر توجہ مرکوز کر دیں اور جتنی دیر ہو سکے، سانس کو دیکھیں محسوس کریں۔۔۔یہ سراغ رسانی کا ایک کھیل ہے۔ مثلاً میں اب آپ کے سامنے ہوں، فوت ہو جاؤں گا، بکری کی طرح۔ بکری آئی اس نے بچے دیئے، دودھ پیا، ذبح کیا۔ زندگی میں کوئی کام ہی نہیں تو یہ جاندار جو دوسرے جاندار ہیں، ان میں جان ضرور ہے، سب میں لیکن روح نہیں ہے۔ دیکھیے اتنا سا فرق ہوتا ہے، کئی لوگ کہہ دیتے ہیں ہمارے غیر مسلم دوست کہ جانوروں پر ظلم کرتے ہیں آپ ان کو کھا جاتے ہیں۔ کھاتے ہم اس لئے ہیں کہ ظلم تو جب ہوتا کہ اس کے اندر روح ہوتی اور اس میں ایک Sensibility ہوتی، وہ تو ہے ہی نہیں۔ جب وھیل مچھلی اپنا منہ کھولتی ہے ،تو تقریباً ساڑھے تین ہزار مچھلیاں ایک لقمے کے اندر اس کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا فلموں میں چھلانگ مار کر خود ہی جا رہی ہوتی ہے، تو یہ اس کی کیفیت ہے۔ اب آپ جاندار تو ہیں، لیکن آپ کے ساتھ روح ہے۔ اس روح کی تلاش کے لئے، اس کی الٹرا ساؤنڈ بننے کے لئے آپ کو خود مشکل میں جانا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہیں۔یہ ایک بڑا پرلطف تجربہ یوں ہے۔ اچھا اس سے آپ کو کچھ ملے گا نہیں کہ جب آپ مراقبہ کریں گے، تو آپ کو انعامی بانڈ کا نمبر مل جائے گا، نہیں ایسی بات نہیں ہے، لیکن آپ آسودہ ہونے لگیں گے۔ اتنے ہی آسودہ جتنے آپ بچپن میں تھے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ یہاں آپ اپنے بچوں کو، پوتوں کو، بھتیجوں کو دیکھیں گے۔ آج کے بعد دیکھیں گے کہ یہ کتنی آسودگی کے ساتھ بھاگا پھرتا ہے۔ اس کو کچھ پتا نہیں اور اللہ بھی یہ فرماتا ہے۔ ہمارے بابے کہتے ہیں ان کا ایک اندازہ ہے کہ جب آپ جنت میں داخل ہوں گے یا جنت میں جانے لگیں گے، تو اللہ گیٹ کے باہر کھڑا ہو گا اور جیسے گیٹ کیپر گیٹ پاس نہیں مانگا کرتا، آپ باہر جا کر کھڑے ہیں تو اللہ کہے گا کہ وہ معصومیت جو دے کر میں نے تمہیں پیدا کیا تھا، وہ واپس کر دو اور اندر چلو اور ہم سارے کہیں گے کہ سر! ہم نے تو بی اے بڑی مشکل سے کیا ہے اور بڑی چالاکی سے ایم اے کیا تھا۔ ہم تو معصومیت بیچتے رہے ہیں۔ وہ تو اب ہمارے پاس نہیں۔ اس معصومیت کی تلاش میں، اس روح کی تلاش کی ضرورت ہے۔