MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community
»
Chit Chat
»
General Discussion
»
نصاف کا قتل
General Discussion This is the forum for your general conversation. Share your interest, ideas, your dreams (about other guppies) or discuss anything not related to above or below forums.
|
 |
|
|
Posts: 264
Country:
Join Date: Mar 2014
Gender:
|
|
کل رات ملتان میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ایک وکیل کو ان کے دفتر میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ راشد رحمان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے توہین رسالت کے الزام میں گرفتار ایک شخص کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرنے والے ایک شخص کا قتل درحقیقت انصاف اور انسانیت کا قتل ہے۔
دنیا کا کوئی قانون اور عقیدہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی بے گناہ کو ہلاک یا ہراساں کیا جائے۔ نہ ہی کسی شخص کو محض الزام عائد ہونے کے بعد مجرم قرار دینا قانونی اور دینی لحاظ سے درست طرز عمل ہے۔ اس کے باوجود سابق آمر ضیاءالحق کے دور میں متعارف ہونے والے توہین مذہب و رسالت کے تحت ملزم قرار پانے والا کوئی شخص انصاف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اس قسم کے کسی شخص پر الزام عائد کرنے کے بعد مذہبی تنظیمیں اور انتہا پسند گروہ اپنے تئیں یہ قرار دیتے ہیں کہ اب متعلقہ شخص واجب القتل ہے اور اسے ہلاک کر جائے۔ حیرت انگیز طور پر یہ عناصر کسی عدالتی فیصلہ ، قانونی روایت یا دینی اصول کو پیش نظر رکھنے کے لئے بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ بیشتر معاملات میں ان گروہوں کو مذہبی تنظیموں کی مکمل تائید حاصل ہوتی ہے۔ کوئی مذہبی رہنما صورتحال کے تبدیلی کے بارے میں بات کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔
دھمکی اور سنگین نتائج کی وارننگ محض کسی ملزم تک محدود نہیں ہوتی۔ راشد رحمان کو کل ملتان میں صرف اس لئے گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا کیونکہ انہوں نے توہین مذہب کے قانون کے تحت گرفتار ایک سابق پروفیسر کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سے قبل پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر اور وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو اس لئے قتل کر دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے اس قانون میں اصلاح کی بات کی تھی۔ ان لوگوں کا مؤقف تھا کہ اس قانون کے تحت جھوٹے الزامات میں ملوث کئے جانے والے لوگوں کو انصاف حاصل کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ اسی طرح ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہونی چاہئے جو توہین مذہب کے تحت اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے قائم کرواتے ہیں۔ اس معاملہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کی بجائے ان دونوں رہنماﺅں کو 2011ء میں یکے بعد دیگرے قتل کر دیا گیا۔ اس وقت ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ یہ پارٹی ملک میں بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کی دعویدار ہے۔ اس کے باوجود توہین مذہب کے یکطرفہ قوانین یا ان کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی تمام مذہبی قوتوں نے اس مسئلہ کو اسلام کی حفاظت کا معاملہ قرار دیا ہے۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان قوانین کا غلط استعمال ہوتا ہے اور الزام عائد ہونے کے بعد کسی شخص کو انصاف حاصل نہیں ہو پاتا، ان قوانین میں اصلاح کے خلاف مہم جوئی کرتی رہتی ہیں۔ چند ماہ قبل ملک کی اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے بھی یہ معاملہ پیش ہؤا تھا۔ اس معاملہ میں کونسل کے سامنے یہ مؤقف پیش کیا گیا تھا کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے اقدامات کی سفارش کی جائے ۔ لیکن کونسل نے بھی توہین مذہب کے قوانین کو مقدس قرار دیا اور کہا کہ اس قانون کے تحت غلط الزام تراشی کرنے والوں کے خلاف عام قوانین کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ کونسل نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا کہ جو شخص توہین مذہب کے تحت غلط الزام کا مرتکب ہو ، اس پر اسی قانون کے تحت فرد جرم عائد ہونی چاہئے۔ کیونکہ ذاتی انتقام یا مفاد کے لئے کسی شخص پر توہین مذہب و رسالت جھوٹا الزام لگانا بھی مذہب اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کے مترادف ہی ہے۔ ملک کی اسلامی نظریاتی کونسل اس پہلو سے معاملہ کو دیکھنے میں ناکام رہی ہے۔
اسی صورت کا نتیجہ ہے کہ انتہا پسند مذہبی گروہ خود سر اور منہ زور ہو چکے ہیں۔ توہین مذہب کے قانون کو ڈھال بنا کر ہر قسم کی لاقانونیت ، ظلم اور استبداد کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت ملزم ٹھہرائے جانے والوں کے علاوہ ان ججوں اور وکیلوں کے خلاف بھی مہم جوئی کی جاتی ہے جو ان معاملات میں فیصلے دیتے ہیں یا ایسے مظلوم شخص کی وکالت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے محافظ ممتاز قادری کا معاملہ اس حوالے سے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس شخص کو قتل کے جرم کی سزا دینے والے جج کو اپنے اہل خانہ سمیت ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ معاملہ کی نزاکت اور گمراہی کی بنیاد پر پیدا کی جانے والی حساسیت کی بنا پر ابھی تک اس معاملہ کی اپیل کی سماعت شروع نہیں ہو سکی ہے۔
ملتان کے راشد رحمان پاکستان میں انسانی حقوق کے لئے کوشش کرنے والے ایک ممتاز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد اشفاق احمد خان ویت نام میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہوئے تھے۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن کے سربراہ آئی اے رحمان کے بھتیجے تھے۔ وہ خود جنوبی پنجاب میں انسانی حقوق کمیشن کے رابطہ کار تھے۔ مرحوم ایک خوش مزاج اور ضرورتمندوں کی مدد کرنے والے وکیل کی شہرت رکھتے تھے۔ ان کی ہلاکت پر پاکستان کے ہر طبقہ کی طرف سے افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ملتان میں وکلاء نے اپنے ایک ساتھی کے ظالمانہ قتل کے خلاف آج عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔
For more details visit this link > http://www.karwanonline.pk/editorial...tice-prevails/
Pakistan news karwan.no
|
 |
Posting Rules
|
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts
HTML code is Off
|
|
|
All times are GMT +5. The time now is 11:31 AM.
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.