ایک بادشاہ نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ جائیں اور پوری دنیا میں تلاش کریں کہ وہ کون سی ایسی چیز ہے جس سے لوگ دانش مندی سیکھ سکتے ہیں۔ بادشاہ کے آدمی پوری دنیا میں پھیل گئے اورکئی سال کی تلاش کے بعد انھوں نے کچھ ہزار ایسی کتابیں جمع کیں جن سے لوگ دانش مندی سیکھ سکتے تھے۔ بادشاہ نے جب ان کتابوں کے ڈھیر کو دیکھا تو کہا کہ ان کتابوں کو پڑھنے کے لیے تو ایک عمر چاہیے، مجھے کوئی اور آسان سی چیز بتاؤ۔ بادشاہ کے لوگوں نے ان کتابوں کے ڈھیر سے 100 ایسی کتابیں تلاش کیں جو ان کے خیال میں دانش مندی سیکھنے کے لیے ضروری تھیں۔
بادشاہ نے کہا کہ نہیں یہ بھی بہت ہیں۔ بادشاہ کے لوگوں نے پھر 10 کتابیں منتخب کیں، بادشاہ ان 10 کتابوں سے بھی مطمئن نہیں ہوا پھر انھوں نے ایک کتاب منتخب کی بادشاہ نے کہا اسے کم کرو تو انھوں نے اس کتاب کا ایک باب نکال دیا۔ بادشاہ نے پھر کہا اسے اور کم کرو، انھوں نے اسے اور کم کر دیا اور کم کرتے کرتے صرف ایک صفحہ رہ گیا اور اس کے بعد صرف ایک پیراگراف رہ گیا۔ بادشاہ نے کہا نہیں مجھے اس سے کم چاہیے۔ آخرکار بادشاہ کے دانش مند لوگوں نے بہت سوچ سمجھ کر صرف ایک جملہ منتخب کیا اور بادشاہ سے کہا کہ اگر لوگ اس جملے کو سمجھ جائیں توہ دانش مند ی سیکھ سکتے ہیں۔
وہ جملہ یہ تھا
There is no free lunch
یعنی مفت میں کچھ نہیں ملتا۔ اور یہ ہی آفاقی سچائی ہے، کوئی بھی چیز حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر ہم قیمت اد اکیے بغیر کوئی بھی چیز حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم صرف اپنے آپ کو بے وقوف بنا رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہی بات ہم بھی جتنی جلدی سمجھ لیں گے اتنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے دوسری صورت میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور تبدیلی کے لیے کسی معجزے کے منتظر رہیں۔