MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community
»
Literature
»
Urdu Literature
»
مقروض
| Urdu Literature !Share About Urdu Literature Here !
|
 |
|
|
|
Posts: 2,730
Country:
Join Date: Jul 2013
Gender:
|
|
|
میرا اُس سے سفر کے دوران تعارف ہوا تھا۔ ہم دونوں نے رات ایک ہی سرائے میں گزاری تھی اور ہماری منزل بھی ایک تھی۔ وہ ملک کاایک جانا پہچانا آدمی تھا، اس کی ہم سفری پر مجھے فخر محسوس ہو رہا تھا۔ اس کا نام پورے ہرزیگووینا میں گونجتا تھا۔
ہم دونوں ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے۔ میں ایک اعلیٰ نسل گھوڑے پر سوار تھا۔ گھوڑے کی نسل اعلیٰ ہونے کی دلیل یہ تھی کہ وہ کئی مرتبہ مجھے گرا چکا تھا۔ میں عموماً اسی گھوڑے سے گرتا ہوں جو بہت اچھا ہو۔ میرا گھوڑا پر تکبر انداز میں سینہ پھلائے گردن آسمان کی جانب کیے شاہانہ تمکنت سے قدم اٹھا رہا تھا۔ میرا ہم سفر، سفر کی ابتدا سے ہی خاموش خاموش تھا۔ وہ اپنی سفید گھوڑی پر سوار تھا۔ اس کے ساتھ ۴،۵ بار بردار گھوڑے بھی تھے۔ اُن پر زین تو کسی ہوئی تھی لیکن کوئی سامان نہیں تھا۔
وہ ایک تنو مند شخص تھا۔ طویل قامت، کشادہ سینہ، ڈھلتی عمر میں بھی اس کی صحت قابلِ رشک تھی، بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ جوانی میں وہ کیسا وجیہہ ہو گا۔ وہ اپنا روایتی لباس زیبِ تن کیے ہوئے تھا جس میں خوش نما سنہرے بٹن لگے تھے۔ اس کی پیشانی پر چمک دار ریشمی رومال بندھا تھا، رومال کے کنارے دونوں طرف اس کے سینے پر جھول رہے تھے۔ اس کی وضع قطع، لباس اور وجاہت، یہ سب کچھ اتنا دیدہ زیب تھا کہ میں چاہنے کے باوجود اس کی طرف سے نظر نہیں ہٹا سکتا تھا۔ وہ اتنا بارُعب تھا کہ اس سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے ہچکچاہٹ ہو رہی تھی۔
اس کا نام ڈیکو مرائووچ تھا۔ اس کے متعلق طرح طرح کی کہانیاں مشہور تھیں۔ اس کی دلیری، چالاکی اور بہادری کا زبردست چرچا تھا۔ وہ اپنی قانون شکن جدوجہد کے لیے دور دور تک جانا پہچانا جاتاتھا۔ وہ بہت ذہین شخص تھا۔ اس نے ہر زیگووینا کا ایک بڑا علاقہ مدتوں دہشت زدہ رکھا۔ ہم دونوں خاموشی سے سفر کر رہے تھے، اجنبیوں کی طرح۔ اس کیفیت پر مجھے اُلجھن ہونے لگی۔ میں نے چُپ توڑتے ہوئے اُسے مخاطب کر ہی لیا، میرامقصد اس سے صرف گفتگو کرنا تھا۔ ’’برادر! تمھارے ساتھ یہ اتنے سارے گھوڑے کیوں ہیں؟ ان پرکوئی سامان بھی نہیں ہے۔‘‘
’’میں سامان لے کر شہر گیا تھا اب وہاں سے خالی لوٹ رہا ہوں۔‘‘ ’’سامان تم کسی کے لیے لے گئے تھے یا تجارت کرتے ہو؟‘‘ اس نے مجھے گھور کر دیکھا جیسے میرا سوال اسے ناگوار گزرا ہو، میں ہڑ بڑا گیا، چند لمحوں بعد اس نے جواب دیا۔ ’’میں یہ سامان مرحوم علی میویاگچ کے بچوں کے لیے لے گیا تھا۔‘‘ میں نے حیرانی سے اسے دیکھا کیونکہ علی میویاگچ اس کے دشمن کا نام تھا۔ ’’تم یہ سامان اس کے بچوں کو دینے گئے تھے؟‘‘ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔
’’ہاں، اس لیے کہ میں علی میویاگچ کا مقروض ہوں، اس کے بھاری قرض تلے دبا ہوا ہوں۔‘‘ اس نے سر جھکا کر گھوڑی کی گردن پر ضرب لگائی، گھوڑی پہلے ہی تیز چل رہی تھی، اب وہ برق رفتاری سے آگے بڑھی۔ مجھے مزید سوالات کی ہمت نہیں ہوئی۔ میں نے بھی گھوڑے کی راس ڈھیلی چھوڑ دی اور نغمہ گنگناتا ہوا اس کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگا، اس وقت یہ یاد نہیں آ رہا کہ میں کون سا نغمہ گنگنا رہا تھا۔ شاید میرا نغمہ اسے پسند آیا، اس نے رفتار دھیمی کر لی اور غور سے سننے لگا۔ ’’اونچی آواز میں گائو۔‘‘ اس نے فرمائش کی، میں نے آواز اونچی کر لی۔ اس نے اپنی پیشانی پر بندھا ہوا رومال ڈھیلا کیا، رومال اس کی گردن میں آگیا۔ ڈیکو میری آواز کے اتار چڑھائو کے ساتھ سر ہلانے لگا۔
کچھ دیر بعد میں خاموش ہو گیا۔ اس نے کہا: ’’آگے گائو۔‘‘ ’’مجھے اس کے بول یادنہیں۔‘‘ شاید میرا جواب اسے اچھا نہیں لگا، وہ ایک بار پھر مجھ سے آگے نکل گیا۔ یکایک اس نے گھوڑی موڑی اور اسے ایڑ لگائی۔ اب اس کا رخ سڑک سے اتر کر درختوں کی جانب تھا۔ میں نے دریافت کیا۔ ’’کہاںجا رہے ہو؟‘‘ ’’درختوں کے نیچے، ہمیں کچھ دیر آرام کر لینا چاہیے۔‘‘
میں بھی اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ سائے میں پہنچ کر ہم نے گھوڑے چَرنے کے لیے آزاد کر دیے، پھر ایک گھنے پیڑ کی چھائوں میں بیٹھ کر ہم دونوں خاموشی سے پائپ پینے لگے۔ گھوڑوں کے جبڑے چلنے کی آواز اور دور کہیں ’’لکڑ کھدوا‘‘ کی ٹھک ٹھک کے علاوہ بالکل سناٹا تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے اس سے پوچھا۔ ’’تم علی کے کب مقروض ہوئے؟‘‘ اس نے ایک گہری سانس لی اور ہاتھ ہلایا۔ ’’ایک مدت گزر گئی۔‘‘ ’’مدت ہو گئی۔‘‘ میں نے تعجب سے کہا۔ ’’اور قرض ادا نہیں ہوا۔‘‘ ’’ہاں، یہ قرض ادا کرنے میں طویل وقت لگے گا۔‘‘ منہ سے دھوئیں کے دو تین مرغولے ہوا میں چھوڑنے کے بعد اس نے مجھے دیکھا اور پھر خلا میں گھورتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’یہ ایک لمبی کہانی ہے میرے دوست! اور میرے لیے یہ بہت تکلیف دہ ہے۔‘‘
’’مجھے بتائو گے؟‘‘ میں نے اشتیاق سے کہا۔ وہ میرے التجا آمیز اشتیاق سے متاثر ہوا اور اداسی سے بولا۔ ’’کیا کرو گے سن کے!‘‘ ’’اگر مناسب ہو تو…….. ‘‘ میں نے اصرار کیا۔ اس کی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔ کہنے لگا۔ ’’تمہیں معلوم ہو گا، ترک حکمرانوں کے ظلم و ستم نے مجھے ڈاکو بننے پر مجبور کردیا تھا۔ ہم سرب باشندے ترکوں کی حکومت میں اپنی ہی زمین پر معتوب شہریوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
ہمیں کوئی انسانی حق حاصل نہیں تھا۔ آخر کوئی فرد یا کوئی قوم کب تک ظلم سہے۔ ہر ترک کے سامنے سر جھکانا اور اس کا غلام بن کر رہنا ہمارے لیے مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ میں ان دنوں جوان تھا۔ ترکوں کے خلاف نفرت کی آگ سربوں میں بڑھتی جا رہی تھی۔ مجھ جیسے کچھ اور سر پھرے بھی تھے، ہم خیالی نے ہمیں یک جا کر دیا۔ ہم ہر وقت ترکوں سے بدلہ لینے، انہیں زِک پہنچانے کے بارے میں باتیں کرتے۔
|
 |
|
|
Posts: 28,336
Country:
Star Sign:
Join Date: Jan 2012
Location: Maa ki duaon mey
Gender:
|
|
|
niceeeeeeee
Be Positive... Everything Gonna be Alright
 
|
|
|
|
Posts: 43,615
Country:
Star Sign:
Join Date: Jul 2010
Location: © ℓ ợ Ş ệ → тớ → µг ↔ ♥
Gender:
|
|
|
Nice Sharing
დ∫დ→◄●♥●►↔ǺήĐằŽ~◊Ệ◊~ßάΫǻЙ↔◄●♥●►←დ∫დ
|
 |
Posting Rules
|
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts
HTML code is Off
|
|
|
All times are GMT +5. The time now is 10:32 PM.
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.