ہدایت جہاں سے ملنی ہوتی ہے، وہیں سے ہی ملتی ہے۔ جہاں کسی پُہنچے ہوئے بُزرگ کی نگاہِ کام نہیں کرتی وہاں کسی انتہائی گنہگار، بدکار اور بُرے انسان کی بات بول کام کر جاتے ہیں۔ ماں باپ کہتے کہتے تھک ہار، عاجز آجاتے ہیں مگر اثر نہیں ہوتا مگر وہی بات کوئی سجن بیلی کہہ دیتا ہے تو فوراً مان لی جاتی ہے۔ بڑے بڑے قابل اور کوالیفائیڈ ڈاکٹروں، معالجوں سے افاقہ نہیں ملتا اور فُٹ پاتھ پہ بیٹھنے والے عطائی حکیم سے شفا نصیب ہو جاتی ہے۔ میں نے پڑھا ہے اور بارہا میرے تجربے مُشاہدے میں آیا ہے کہ اچّھوں، نیکوں اور حاجیوں نمازیوں سے کہیں زیادہ گنہگاروں، خطا کاروں اور بُروں کی بات میں اَثر ہوتا ہے، وہ زیادہ دِلپذیر اور دِل نشین ہوتی ہے۔ بظاہر بُرے، بد معاش، اُجڑے ہوئے اور شرابی کبابی لوگ اچّھوں، نیکوں سے کہیں بڑھ کر وفا دار اور وقت پہ کام آنے والے ہوتے ہیں۔ اکثر اچّھے اور نیکوں کے ہاں اپنی پاک طینتی اور دِین داری کا زَعم و مان ہوتا ہے اور بُروں، بدکاروں، گنہگاروں کے ہاں عِجز ہی عِجز، شرمندگی ہی شرمندگی اور ہر وقت خود پہ لعن طعن اور توبہ استغفار ہوتی ہے۔ بس یہی شرم اور خود کو مِٹ مِٹّی سمجھنا ہی میرے اللہ کو پسند ہے۔۔۔۔۔
پِِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 565