MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community - View Single Post - عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت
View Single Post
(#30)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   06-26-2011, 07:21 AM

:::: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی پہلی دلیل :::::
یہ صاحبان سورت ابراہیم کی آیت ٥ کے ایک حصے کو بطورِ دلیل استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''' وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ یعنی اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ، کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور ، حضور پاک بھی اِس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے ( اِن کی مراد یہاں عاشوراء کا روزہ ہے یعنی دس محرم کا روزہ ) اور چونکہ حضور پاک اللہ کی نعمت ہیں لہذا ہم حضور پاک کی ولادت کی یاد میں جشن کرتے ہیں '''
::::::: جواب :::::::
مکمل آیت یوں ہے ((( و لَقَد ارسلنَا مُوسَیٰ بِاَیَاتِنَآ ان اخرج قَومَکَ مَن الظُّلمَتِ اِلیٰ النُّورِ وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ ج اِِنَّ فی ذَلِکَ لَا یٰاتٍ لَکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ )))((( اور ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نِکالو ، اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ،اِس میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیئے نشانیاں ہیں )))
اگر اِس آیت کے بعد والی آیات کو پڑہا جائے تو یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اِس حُکم پر کیسے عمل کِیا ، اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کروائِیِں یا عید منانے کا حکم دِیا ؟؟؟
اور اگر یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ تفسیر کی معتبر ترین کتابوں میں اِسکی کیا تفسیر بیان ہوئی ہے تو اِن لوگوں کا یہ فلسفہ ہوا ہوجاتا ہے
::::: اِمام محمد بن احمد جو اِمام القُرطبی کے نام سے مشہور ہیں اپنی شہرہ آفاق تفسیر ''' الجامع لِاحکام القُرآن ''' میں اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں '''' نعمتوں کو کبھی ایام بھی کہا جاتا ہے ، اور ابن عباس ( رضی اللہ عنہما ) اور مقاتل ( بن حیان ) نے کہا :: اللہ کی طرف سے سابقہ اُمتوں میں جو واقعات ہوئے ::: اور سعید بن جبیر نے عبداللہ بن عباس سے اور اُنہوں نے اُبي بن کعب ( رضی اللہ عنہم ) سے روایت کِیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ایک دفعہ موسی اپنی قوم کو اللہ کے دِن یاد کروا رہے تھے ، اور اللہ کے دِن اُسکی طرف سے مصبتیں اور اُسکی نعمتیں ہیں ) ( یہ صحیح مسلم کی حدیث ١٧٢ ، اور ٢٣٨٠ کا حصہ ہے ) اور اِس میں دِل کو نرم کرنے والے اور یقین کو مضبوط کرنے والے واعظ کی دلیل ہے ، ایسا واعظ جو ہر قِسم کی بدعت سے خالی ہو ، اور ہر گمراہی اور شک سے صاف ہو ''''
اِمام ابن کثیر رحمہ ُ اللہ تعالیٰ نے اِس آیت کی تفسیر میں اِمام مجاہد اور اِمام قتادہ کا قول نقل کِیا کہ اُنہوں نے کہا '''' ( وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہ ) یعنی اِن کو اللہ کی مدد ا ور نعمتیں یاد کرواؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کو فرعون کے ظلم سے نجات دِی ، اور اُن کے دشمن سے اُنہیں محفوظ کِیا ، اور سمندر کو اُن کے لیئے پھاڑ کر اُس میں سے راستہ بنایا اور اُن پر بادلوں کا سایہ کِیا ، اور اُن پر من و سلویٰ نازل کِیا ، اور اِسی طرح کی دیگر نعمتیں '''
::::: غور فرمائیے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اِس آیت میں اللہ کے دِنوں کی کیا تفسیر فرماتے ہیں ، کیا کہیں اُنہوں نے جشن میلاد منانے کا فرمایا یا خود منایا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میلاد کے حق میں دلیل بنانے والے صاحبان کو اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین یاد کیوں نہیں آتے کہ (((یا ایھا الذین ءَ امَنُوا لا تَقدِّمُوا بین یدی اللہِ و رسولَہِ و اَتَقُوا اللہَ اِِن اللہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ُ، یا ایھا الذین ءَ امَنُوا لا ترفعُوۤا اصواتَکُم فوق َ صوتِ النبي ، و لا تَجھَرُوا لَہ ُ بِالقُولِ کَجَھرِ بَعضُکُم لِبَعض ٍ ان تَحبطَ اعمالُکُم و انتُم لا تشعُرُون ))) (((اے لوگو جو اِیمان لائے ہو ، اللہ اور اُسکے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے آگے مت بڑہو اور اللہ ( کی ناراضگی ) سے بچو بے شک اللہ سُننے اور عِلم رکھنے والا ہے اے لوگو جو اِیمان لائے ہو ، نبی کی آواز سے آواز بلند مت کرو اور نہ ہی اُسکے ساتھ اُونچی آواز میں بات کرو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال غارت ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ))) ،
پھر یہ لوگ اِس آیت کے ساتھ دس محرم کے روزے کو منسلک کرتے ہوئے کہتے ہیں ''' وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ یعنی اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ، کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور ، حضور پاک بھی اِس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے ''''
جی ہاں یہ درست ہے کہ بنی اِِسرائیل اُس دِن روزہ رکھا کرتے تھے جِس دِن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں فرعون سے نجات دی تھی اور وہ ہے دس محرم کا دِن ، اور بنی اِِسرائیل اِس دِن روزہ کیوں رکھا کرتے تھے ؟؟؟؟؟ عید مناتے ہوئے یا اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ کام کرتے تھے جِس کا موسیٰ علیہ السلام نے اُنہوں حُکم دِیا ، ابھی ابھی اِس بات کے آغاز میں یہ لکھا گیا ہے کہ ''' اگر اِس آیت کے بعد والی آیات کو پڑہا جائے تو یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اِس حُکم پر کیسے عمل کِیا ، اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کروائِیِں یا عید منانے کا حکم دِیا ؟؟؟
:::::ملاحظہ فرمائیے ، قارئین کرام ، آیت نمبر ٥ کی بعد کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا (((و اِِذ قالَ موسیٰ لِقومِہِ اذکُرُوا نِعمۃَ اللہِ اِِذ اَ نَجٰکُم مِن آلِ فرعونَ یَسُومُونَکُم سُوۤءَ العَذاب ِ و یُذَبِّحُونَ ابنائَکُم و یَستَحیُونَ نِسائِکُم و فی ذ۔لِکُم بَلآءٌ مِّن رَّبِکُم عَظیم ( ٦ ) و اِِذ تَاَذَّنَ رَبُّکُم لَئِن شَکرتُم لَاَزِیدَنَّکُم وَ لَئِن کَفَرتُم اِِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ ( ٧ ) وَ قَالَ مُوسیٰ اِِن تَکفُرُوۤا اَنتُم وَ مَن فی الارضَ جَمِیعاً فَاِِنَّ اللَّہَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ ( ٨ ) ( اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو کہ اللہ نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دِی جو تم لوگوں کی شدید عذاب دیتی تھی کہ وہ لوگ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے ( تا کہ اُنہیں لونڈیاں بنا کر رکھیں ) اور اِس عذاب میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑا امتحان تھا ( ٦ ) اور ( یہ نعمت بھی یاد کرو کہ ) جب تمہارے رب نے تمہیں یہ حُکم دیا کہ اگر تُم لوگ شُکر ادا کرو گے تو میں ضرور تُم لوگوں کو ( جان ، مال و عزت میں ) بڑہاوا دوں گا اور اگر تُم لوگ ( میری باتوں اور احکامت سے ) اِنکار کرو گے تو ( پھر یاد رکو کہ ) بلا شک میرا عذاب بڑا شدید ہے ( ٧ ) اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تُم سب اور جو کوئی بھی زمین پر ہے ، کفر کریں تو بھی یقینا اللہ تعالیٰ ( کو کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ )غنی اور حمید ہے ( ٨ )))
تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اُس کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ لوگ دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے !!! ''' عید ''' نہیں منایا کرتے تھے ،
اگر یہ لوگ اُن احادیث کا مطالعہ کرتے جو دس محرم کے روزے کے بارے میں تو اِنہیں یہ غلط فہمی نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ روزہ وَ ذَ کِّرھُم بِایام اللَّہِ کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے رکھا کرتے تھے ::: ::::: ( ١ ) عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ ''' جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ( یہ کیا ہے ) تو اُنہیں بتایا گیا کہ '' یہ دِن نیک ہے ، اِس دِن اللہ نے بنی اسرائیل کو اُنکے دشمن ( فرعون ) سے نجات دِی تھی تو اُنہوں نے روزہ رکھا تھا '' تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( میرا حق موسیٰ پر تُم لوگوں سے زیادہ ہے ) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس دِن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حُکم دِیا ) ''' صحیح البُخاری حدیث٢٠٠٤ ۔
::::: ( ٢ ) ابو موسی رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ ''' دس محرم کے دِن کو یہودی عید جانتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( تُم لوگ اِس دِن کا روزہ رکھو ) ''' صحیح البُخاری حدیث ٢٠٠٥ ۔
::::: ( ٣ ) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے ''' میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اِس دس محرم کے روزے کو کِسی بھی اور دِن کے (نفلی )روزے سے زیادہ فضلیت والا جانتے تھے اور نہ کِسی اور مہینے کو اِس مہنیے سے زیادہ ( فضیلت والا جانتے تھے ) یعنی رمضان کے مہینے کو ''' صحیح البُخاری حدیث ٢٠٠٦ ۔
::::: ( ٤ ) ابو قتادہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ’’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِ س دِن کا روزہ رکھنے کی صُورت میں گزرے ہوئے ایک سال کے گُناہ معاف ہونے کی خوش خبری دِی ‘‘‘ صحیح مُسلم حدیث ١١٦٢ ۔
::::: ( ٥ ) اُم المؤمنین عائشہ ، عبداللہ ابنِ عُمر ، عبداللہ ابنِ مسعود اور جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم ءِ عاشورا کے روزے کے بارے میں فرمایا ( اِس دس محرم کا روزہ اہلِ جاہلیت بھی رکھا کرتے تھے تو جوچاہے اِس دِن روزہ رکھے ا ور جو چاہے نہ رکھے ) ( اور رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھا کرتے تھے اور اِسکا حُکم بھی دِیا کرتے تھے ) ( اور اِسکی ترغیب دِیا کرتے تھے ، جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ اِسکا حُکم دِیا ، نہ اِسکی ترغیب دِی اور نہ ہی اِس سے منع کیا ) صحیح مُسلم کتاب الصیام ، باب صوم یوم عاشوراء
::::: ( ٦ ) معاویہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سُنا کہ ( یہ دس محرم کا دِن ہے اور اللہ نے تُم لوگوں پر اِس کا روزہ فرض نہیں کِیا ، اور میں روزے میں ہوں ، تو جو چاہے وہ روزہ رکھے اور جو چاہے وہ افطار کرے ) صحیح البُخاری حدیث ٢٠٠٣ ، صحیح مُسلم حدیث ١١٢٩
::::: ( ٧ ) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضلیت محرم کے روزوں میں ہے ، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضلیت رات کی نماز میں ہے ) صحیح مُسلم حدیث ١١٦٣ ۔
اِن احادیث پر غور فرمائیے ، کہیں سے اِشارۃ ً بھی یہ ثبوت نہیں ملتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آیت کو بنیاد بنا کر یہ روزہ رکھا تھا ، بلکہ رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس روزے کی ترغیب تک بھی نہیں دی ، جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں سے پانچویں حدیث میں ہے ، بلکہ ہمیں بڑی وضاحت سے اِس بات کا ثبوت مِلتا ہے کہ یہ روزہ ایامِ جاہلیت میں بھی رکھا جاتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے اِس روزہ کو رکھا اور اِسکے رکھنے کا حکم بھی دِیا اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اِسکی ترغیب بھی نہیں دی جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں ہے ، رہا معاملہ اِس روزہ کو موسی علیہ السلام کے یومِ نجات کی خوشی میں رکھنے کا تو درست یہ کہ خوشی نہیں بلکہ شکر کے طور پر رکھا جاتا تھا ، اور اگر خوشی ہی کہا جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ کِسی بات پر خوش ہو کر روزہ رکھا جائے ، لہذا اِن کو بھی چاہیئے کہ یہ جِس دِن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دِن مانتے ہیں ، حالانکہ وہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوتا ، اِس کا ذِکر آگے آئے گا اِنشاء اللہ ، تو اپنی اِس خام خیالی کی بنیاد پر اِن کو چاہیئے کہ یہ لوگ خود اور اِن کے تمام تر مریدان اُس دِن روزہ رکھیں ۔
مندرجہ بالا احادیث پر غور فرمایئے ، خاص طور پر پہلی حدیث پر تو ہمیں بالکل واضح طور پر یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں جا کر اُنہوں نے یہودیوں کو اِس دِن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور پوچھا کہ ( یہ کیا ہے ؟ ) ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس سوال سے یہ پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرتِ مدینہ سے پہلے اِس دِن جو روزہ رکھا کرتے تھے وہ موسی علیہ السلام کے یوم نجات کی خوشی میں نہ تھا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جانتے بھی نہیں تھے کہ دس محرم موسی علیہ السلام کا یومِ نجات تھا ، اور یہ حدیث اِس بات کے بہت سے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم غیب نہیں تھے ، خیر یہ ہمارا اِس وقت کا موضوع نہیں ہے ۔
اور یہ بات بھی بڑی مزیدار ہے کہ یہ صاحبان شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ سورت اِبراہیم مکی سورت ہے سوائے دو اور ایک روایت میں ہے کہ تین آیات کے ، اور وہ ہیں آیت نمبر ٢٨ ، ٢٩ ، ٣٠ ، مزید تفصیل کےلئیے ملاحظہ فرمائیے ، اِمام محمد بن علی الشوکانی کی تفسیر ''' فتح القدیر ''' اور اِمام محمد بن احمد القُرطبی کی تفسیر ''' الجامع لِاحکام القُرآن ''' ،
تو جِس آیت کو یہ لوگ ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''' کی دلیل بنا رہے ہیں اور اِس دلیل کی مضبوطی کےلئیے یوم ءِ عاشورا کے روزے کا معاملہ اِسکے ساتھ جوڑ رہے ہیں ، صحیح احادیث اور صحابہ اور تابعین و تبع تابعین کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِس آیت کا یوم ءِ عاشورا کے روزے سے کوئی تعلق نہیں ، کیونکہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے جانے سے پہلے اِس دِن کے روزے کو موسی علیہ السلام کی نسبت سے نہ جانتے تھے ، اور اِس آیت کے نزول سے پہلے یہ روزہ قریش ءِ مکہ بھی رکھا کرتے تھے ، جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں سے پانچویں حدیث میں اِس بات کا ذِکر صراحت کے ساتھ ملتا ہے ، فَمَا بَعدَ الحَقِ اِِلَّا الضَّلالِ ،
تو کہاں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کہاں وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ ، کیا قُران کی یہ سمجھ اُسے نہ تھی جِس پر نازل ہوا ، صلی اللہ علیہ وسلم ، کَبُرَت کَلمۃً تَخرُج مِن اَفواہہِم ۔