|
|
Posts: 52,341
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: RAWALPINDI
Gender:
|
|
حضرت علی علیہ السلام اور اسلا می جہاد
اسلام کے دشمنوں نے پیغمبراسال (ص) کو مدینہ میں چین سے نہ بیٹھنے دیا. جو مسلمان مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں کچھ کو قتل کر دیا گیا، کچھ کو قیدی بنا لیاگیا اور کچھ کو مارا پیٹاگیا. یہی نہیں بلکہانہوں نے اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑاھئی کردی۔ اس موقع پر رسول اللہ (ص) کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کریں، کیوں کہ انھوں نے آپ کو پریشانی کے عالم میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت و مداد کاوعدہ کیا تھا، لہذا آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا کہ آپ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں اور دشمن کو مدینہ کی پر امن ابادی میں داخل ہونے اور عورتوں اور بچوں کو پریشان کرنے کا موقع دیں. آپ کے ساتھیوں تعداد بہت کم تھی۔ آپ کے پاس کل تین سو تیرہ آدمی تھے اور مب کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے، مگر آپ نے یہ طے کیا کہ ہم مدینے سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ چنانچہ یہ اسلام کی پہلی جنگ ہوئی جوآگے چل کر جنگِ بدر کے نام سے مشہور ہوئ . اس جنگ میں رسول اللہ (ص) نے آپنے عزیزوں کو زیادہ آگے رکھا، جس کی وجہ سے آپ کے چچا زاد بھائی عبید ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوگئے . علی علیہ السّلام ابن ابی طالب کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۲۵برس تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا علی علیہ السّلام کے سر ہی بندھا۔ جتنے مشرکین قتل ہوئے ان میں سے ادھےحضرت علی علیہ السّلام کے ہاتھ سے اور ادھے، باقی مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اس کے بعد ،اُحد، خندق،خیبراور اخر میں حنین یہ وہ بڑی جنگیں تھیں جن میں حضرت علی علیہ السّلام نے رسول کے ساتھ رہ کر اپنی بہادری کے جوہر دکھا ئے۔ تقریباً ان تمام جنگوں میں علی علیہ السّلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا . اس کے علاوہ بہت سی جنگیں ایسی تھیں جن میں رسول نےحضرت علی علیہ السّلام کو تنہا بھیجا اورانھوں نے اکیلے ہی بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ فتح حاصل کی اور استقلال،تحمّل اور شرافت ُ نفس کا وہ مطاہرہ کیا کہاس کا اقرار خود ان کے دشمن کو بھی کرنا پڑا۔ جب خندق کی جنگ میں دشمن کے سب سے بڑے سورماعمر وبن عبدود کو آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پرسوار ہوئے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا۔ آپ کو غصہ اگیا اور آپ اس کے سینے سے اتر ا ٓئے . صرف اس خیال سے کہ اگراس غصّےکی حالت میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل خواہش نفس کے مطابق ہوگا، خدا کی راہ میں نہ ہوگا۔ اسی لئے آپ نے اس کو کچھ دیر کے بعد قتل کیا۔ اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش کو برہنہ کردیتے تھے، مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری جبکہ وہ بہت قیمتی تھی . چناچہجب عمرو کی بہن آپنے بھائی کی لاش پر ائی تو اس نے کہا کہاگر علی کے علاوہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی، مگر مجھے یہ دیکھ کر صبر اگیا کہ اس کاقاتل شریف انسان ہے جس نے آپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یابچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا اور نہ کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ کیا .
غدیر خم
پیغمبر اکرم (ص) آپنی پر برکت زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سےمدینے کی طرف پلٹ رہے تھے، جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین یہ آیہ بلغ لیکرنازل ہوئے، پیغمبر اسلام (ص)نے قافلےکو ٹھرنے کا حکم دیا ۔
نماز ظھر کے بعد پیغمبر اکرم (ص) اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا :
” ایھا الناس ! وہ وقت قریب ھے که میں دعوت حق پر لبیک کہتے ھوئے تمھارے درمیان سے چلا جاؤں ،لہذا بتاو کہ میرے بارے میں تمہاری کیا رای ہے؟ “
سب نے کہا :” ھم گواھی دیتے ھیں آپ نے الٰھی آئین و قوانین کی بہترین طریقے سے تبلیغ کی ھے “ رسول الله (ص) نے فرمایا ” کیا تم گواھی دیتے ہو کہ خدائے واحد کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نھیں ھے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ھے “۔
پھر فرمایا: ” ایھا الناس ! مومنوں کے نزدیک خود ان سے بھتر اور سزا وار تر کون ھے ؟“۔
لوگوں نے جواب دیا :” خدا اور اس کا رسول بھتر جانتے ھیں “۔
پھر رسول الله (ص) نے حضرت علی (ع) کے ھاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا
:” ایھا الناس ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں“ ۔
رسول الله (ص) نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی ۔
اس کے بعد لوگوں نے حضرت علی (ع) کواس منصب ولایت کے لئے مبارک باددی اور آپ (ع) کے ھاتھوں پر بیعت کی ۔
حضرت علی علیہ السلام، پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں
علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول ان کی بہت عزت کرتے تھے او آپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ »علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں« .کبھی یہ کہا کہ »میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے . کبھی یہ کہا »آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے . کبھی یہ کہا»علی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی . کبھی یہ کہا»علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے .,,
کبھی یہ کہ»وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجدکے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے آپنا بھائی قرار دیا۔ اور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا حاکم اور سرپرست ہوں اسی طرح علی علیہ السّلام، تم سب کے سرپرست اور حاکم ہیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے .
رسول اللہ (ص)کی وفات اور حضرت علی علیہ السلام
ہجرت کا دسواں سال تھا کہ پیغمبر خدا (ص)ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوئے، جو ان کے لئے مرض الموت ثابت ہوا۔ یہ خاندان ُ رسول کے لئے بڑی مصیبت کاوقت تھا۔ حضرت علی علیہ السّلام رسول کی بیماری میں آپ کے پاس موجود رہ کر تیمارداری کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ اور رسول اللہ (ص) بھی آپنے پاس سے ایک لمحہ کے لئے بھی حضرت علی علیہ السّلام کا جدا ہونا گوارانہیں کرتے تھے . پیغمبر اسلام (ص) نے علی علیہ السّلام کو آپنے پاس بلایا اور سینے سے لگا کر بہت دیر تک باتیں کرتے رہے اور ضروری وصیتیں فرمائیں . اس گفتگو کے بعد بھی حضرت علی علیہ السّلام کو آپنے سے جدا نہ ہونے دیا اور ان کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا. جس وقت رسول اللہ (ص) کی روح جسم سے جداہوئی، اس وقت بھی حضرت علی علیہ السّلام کاہاتھ رسول کے سینے پر رکھاہوا تھا۔
جس نے زندگی بھر پیغمبر کا ساتھ دیا ہو، وہ بعد رسول ان کی لاش کو کس طرح چھوڑ سکتا تھا، لہذا رسول کی تجہیز وتکفین اور غسل کا تمام کام علی علیہ السّلام نےاپنے ہاتھوں سے انجام دیا اور رسول اللہ (ص)کواپنے ھاتھوں سے قبر میں رکھ کر دفن کر دیا۔
حضرت علی علیہ السلام کی طاہری خلافت
رسول اللہ (ص) کے بعدحضرت علی علیہ السّلام نے پچیس برس خانہ نشینی میں بسر کئے۔ جب سن ۳۵ ھجری قمری میں مسلمانوں نے خلافت ُ اسلامی کامنصب حضرت علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا تو پہلےتو آپ نے انکار کر دیا، لیکن جب مسلمانوں کااصرار بہت بڑھا تو آپ نے اس شرط سے منظو رکرلیا کہ میں قران اور سنت ُ پیغمبر(ص) کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا۔ جب مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کر لیا تو آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ آپ کی خالص دینی حکومت کو برداشت نہ کرسکا، لہذا بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ، جنھیں آپ کی دینی حکومت کی وجہ سے آپنے اقتدار کے ختم ہوجانے کا خطرہمحسوس ہو گیا تھا، وہ آپ کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا،جس کے نتیجے میں جمل، صفین، اور نہروان کی جنگیں ہوئیں . ان جنگوں میں حضرت علی بن ابی طالب علیہما السّلام نے اس شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر، احد، خندق، وخیبرمیں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی .ان جنگوں کی وجہ سے آپ کو اتنا موقع نہ مل سکا کہ آپ اس طرح اصلاح فرماتے جیساکہ آپ کا دل چاہتا تھا . پھر بھی آپ نے اس مختصرسی مدّت میں، سادہ اسلامی زندگی، مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے۔ آپ شہنشاہ ُ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھنا اور آپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا بُرا نہیں سمجھتے تھے۔ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے، غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھالیتے تھے . جو مال بیت المال میں اتا تھا اسے تمام حقداروں کے درمیان برابر تقسیم کردیتے تھے ۔ یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نےجب یہ چاہا کہ انہیں، دوسرے مسلمانوں سے کچھ زیادہ مل جائے،تو آپ نے انکار کردیا اور فرمایا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو یہ ممکن تھا، مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے ، لہذا مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے اپنے کسی عزیز کو دوسروں سے زیادہ حصہ دوں۔ انتہا یہ ہے کہ اگرآپ کبھی رات کے وقت بیت المال میں حساب وکتاب میں مصروف ہوتے اور کوئی ملاقات کے لیے آجاتا اور غیر متعلق باتیں کرنے لگتا تو آپ چراغ کو بھجادیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہیں ہونا چاہئے . آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں ائے وہ جلد سے جلد حق داروں تک پہنچ جائے . آپ اسلامی خزانے میں مال کو جمع کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت
جنگ نھروان کے بعد خوارج میں سے کچھ لوگ جیسے عبد الرحمن بن ملجم مرادی ، ومبرک بن عبد الله تمیمی اور عمر و بن بکر تمیمی ایک رات میں ایک جگہ جمع ہوئےاور نھروان میں مارے گئے اپنےساتھیوں کو یاد کیا کرتے ہوئے ان دنوں کے حالات اور داخلی جنگوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرنےلگے۔ بالآخروہ اس نتیجہ پر پھونچے که اس قتل و غارت کی وجہ حضرت علی (ع) معاویہ اورعمرو عاص ھیں اور اگر ان تینوں افراد کو قتل کر دیا جائے تو مسلمان اپنے مسائل کوخود حل کر لیں گے۔ لھذا انھوں نے آپس میں طےکیا کہ ھم میں سے ھر ایک آدمی ان میں سے ایک ایک کو قتل کرے گا ۔
ابن ملجم نے حضرت علی (ع) کے قتل کا عھد کیا اور سن۴۰ ہجری قمری میں انیسویں رمضان المبارک کی شب کو کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آکر بیٹھ گیا ۔ اس شب حضرت علی (ع) اپنی بیٹی کے گھر مھمان تھے اور صبح کو واقع ھونے والے حادثہ سے با خبر تھے۔ لھذا جب اس مسئلہ کو اپنی بیٹی کے سامنے بیان کیا تو ام کلثوم نے کہا کہ کل صبح آپ ۔۔۔کو مسجد میں بھیج دیجئے ۔
حضرت علی (ع) نے فرمایا : قضائے الٰھی سے فرار نھیں کیا جا سکتا۔ پھر آپنے کمر کے پٹکے کو کس کر باندھا اور اس شعر کو گنگناتےہوئے مسجد کی طرف روانہ ھوگئے ۔
” اپنی کمر کو موت کے لئے کس لو ، اس لئے کہ موت تم سے ملاقات کرے گی ۔
اور جب موت تمھاری تلاش میں آئے تو موت کے ڈر سے نالہ و فریاد نہ کرو “۔
حضرت علی (ع) سجده میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے فرق مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ھواآپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئ۔ اس حالت میں حضرت علی (ع) نے فرمایا : ” فزت و رب الکعبه “ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ھو گیا۔ پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی :
”ھم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ھے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک تمھیں دوباره اٹھائیں گے “۔
حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی :
” میں تمہیں پرھیز گاری کی وصیت کرتا ھوں اور وصیت کرتا ھوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ھمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رھو ۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو ۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو ۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو ،نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیوں کہ یہ تمھارے دین کا ستون ھے “۔
آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لا یا گیا، اورآپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور انکھوں سے انسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم اگیا۔ آپنے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کردوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگاناکیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے ۔ اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
حضرت علی علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب و بیچینی کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔ اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور ۲۱رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی روح جسم سے پرواز کر گئ .حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السّلام نے تجہیزو تکفین کے بعد آپ کے جسم اطہر کو نجف میں دفن کر دیا۔
|