MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community - View Single Post - پاکستان اور امریکہ میں خلیج
View Single Post
(#1)
Old
-|A|- -|A|- is offline
BaiKaar MemBer !!
 


Posts: 8,871
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Location: karachi,Pakistan
Gender: Male
Thumbs down پاکستان اور امریکہ میں خلیج - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   03-29-2009, 06:23 PM

پاکستان اور امریکہ میں خلیج


اوبامہ کی تقریر میں القاعدہ کی موجودگی کا جب بھی ذکر آیا پاکستان کا نام پہلے آیا


افغانستان کے بارے میں امریکی صدر براک اوباما نے اپنے حالیہ پالیسی بیان میں جو کہا سو کہا لیکن ابتداء میں ہی جب انہوں نے کہا کہ انہیں ایک بات واضح کرنے دیں تو میرا ماتھا ٹھنکا۔

بات سب پر واضح تھی کہ اب وہ کوئی بم تو نہیں پھوڑیں گے بلکہ پاکستان پر دباؤ مزید بڑھانے کی کوشش کریں گے سو وہی انہوں نے کیا۔ انہوں نے اس کے بعد جو بات کی وہ یہ تھی کہ ’القاعدہ اور اس کے اتحادی جنہوں نے گیارہ ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی وہ پاکستان اور افغانستان میں ہیں۔‘یعنی یہاں انتہائی اہم موڑ پر افغانستان سے قبل پاکستان کا نام۔

پاکستانی ادارے یہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکہ کی قیادت میں افغانستان اور بھارت پر مشتمل ایک اتحاد اس کے خلاف قائم کیا گیا ہے جس کا مقصد دنیا کی واحد جوہری اسلامی طاقت کو کمزور کرنا ہے۔ اس سازش کی بو پاکستانی خفیہ اداروں کو بظاہر سو فیصد تعاون سے دور رکھ رہی ہے
اس کے بعد انہوں نے القاعدہ کی موجودگی کی جب بھی تقریر میں بات کی تو پاکستان کا نام پہلے ہی آیا۔ خفیہ اداروں کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ القاعدہ پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے امریکہ پر مزید حملوں کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ یعنی جہاں بات القاعدہ کی موجودگی کی آئی وہیں پاکستان کا ذکر بھی ہوا۔ ’اسامہ اور ایمن یہیں پہاڑی سرحدی علاقے میں ہیں۔ لندن اور بالی کے حملوں کا تعلق پاکستان سے تھا۔ مستقبل میں بھی ہوئے تو یہ پاکستان سے ہوں گے۔۔۔۔۔ اور بہت کچھ‘۔

اس کے فوری بعد جو باتیں صدر اوباما نہیں کرنا چاہتے تھے وہ انہوں نے اپنے نمائندہ خصوصی رچرڈ ہالبروک اور جنرل پیٹراس کے ذریعے کروا دیں۔ آئی ایس آئی کے ملوث ہونے اور ڈبل گیم کی شکایت امریکی انتظامیہ نے ان کے ذریعے کروا دی۔ گیند ڈی تک بڑی مہارت سے اوباما لے کر آئے لیکن پلنٹی سٹروک باقی دو نے لگا دیا۔

اس تقریر اور بعد میں آنے والے بیانات نے واضح کر دیا ہے کہ امریکی انتظامیہ اور پاکستانی فوج کے درمیان اعتماد کی سطح کا عالم کیا ہے۔ اعتماد کی کمی پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔ اگر گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے بعد کے حالات کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس خلیج میں اضافہ ہوا ہے۔

اس بداعتمادی کی بظاہر سب سے بڑی وجہ امریکہ کا افغانستان میں بھارت کے مزید قریب ہونا بتائی جاتی ہے۔ پاکستانی ادارے یہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکہ کی قیادت میں افغانستان اور بھارت پر مشتمل ایک اتحاد اس کے خلاف قائم کیا گیا ہے جس کا مقصد دنیا کی واحد جوہری اسلامی طاقت کو اس حد تک کمزور کرنا ہے۔ اس سازش کی بو پاکستانی خفیہ اداروں کو بظاہر سو فیصد تعاون سے دور رکھ رہی ہے۔ اگر صورتحال یہی رہی تو تبدیلی کی امید بےکار ہے۔



جماعت اسلامی کے رہنما سید منور حسن نے کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ مسلم دنیا کو ہدف چن چکے ہیں

دوسری جانب پاکستانی طالبان اپنے اختلافات بھلا کر افغانستان میں سرگرمیاں بڑھانے کی بظاہر تیاریاں کر رہے ہیں۔ ان کا ہدف ایک ہی ہے کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلاء اور وہاں اپنی حکومت قائم کرنا ہے۔ یہاں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش بھی اس حد تک یہی نظر آتی ہے کہ امریکی افواج کو جلد از جلد وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جائے۔ لیکن اصل مسئلہ دونوں کی سوچ میں یہی ہے کہ کیا ایسا افغانستان میں جلد از جلد امن استوار کرنے سے یہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ کیا اس کے لیے ہتھیار اٹھانا ہی ضروری ہے۔

اوباماکی نئی پالیسی کے بارے میں توقع کی جا رہی تھی کہ وہ بش کی جنگی پالیسی کوتبدیل کریں گے۔ پاکستان بھی دبے دبے الفاظ میں اسے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی تلقین کرتا رہا لیکن نئی اور سابق صدر بش کی پالیسی میں اس سے زیادہ کوئی فرق نہیں دکھائی دیتا ہے کہ اوباما نے جنگ کے مرکز کو عراق سے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل کرنے کا اعلان کردیاہے۔

نئی حکمت عملی کے اس نکتہ سے کہ اب یہ جنگ پاکستان اور اس کے قبائلی علاقوں میں لڑی جائے گی کئی پاکستانی حلقوں میں تشویش کا بڑھنا لازمی امر ہے۔ شدت پسندوں نے پاکستان کو کب سے میدان جنگ بنا رکھا ہے اور روز اس میں وسعت لاتے رہتے ہیں لیکن امریکی اعلان سے اس میں اضافے کا اندازا لگانا انتہائی مشکل ہے۔

پاکستان میں مذہبی عناصر کی سوچ جماعت اسلامی کے اس بیان سے عیاں ہوجاتی ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ نئی امریکی پالیسی پاکستان کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ جماعت کے نومنتخب امیر سید منور حسن کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائی اور وہ مسلم دنیا کو ہدف چن چکے ہیں۔ لہذا اس پالیسی سے بش انتظامیہ والا تاثر زائل کرنے میں نئی پالیسی ناکام ہوئی ہے۔

حکومت پاکستان کو بھی افغانستان میں مزید سترہ ہزار امریکی فوجی بھیجنے سے خدشات لاحق ہوگئے تھے۔ اسی وجہ سے وہ فوج میں اضافے کے ساتھ ساتھ افغانستان اور اس خطے کے لیے کہہ رہے ہیں کہ امداد اور تعمیر نو میں بھی تیزی لانی چاہیے۔ اس بابت پاکستان کی حد تک امریکی امداد میں محض وعدے ہیں اور بال امریکی کانگرس کے کورٹ میں ڈال دی گئی ہے۔

امریکی ایوان کی جانب سے پاکستانی کارکردگی کی بنیاد پر امداد کی منظوری اور قانون سازی کے عمل میں وقت درکار ہے۔ لیکن فوجی پالیسی پر پہلے ہی عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔


 






’’بہترین کلام اللہ کا کلام ( قرآن کریم ) ہے اور بہترین ھدایت و طریقہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا لایا ھوا دین ہے ۔،
Reply With Quote Share on facebook
Sponsored Links