بہت غم سے مکدر ہو گیا ہوں
میں آئینہ تھا پتھر ہو گیا ہوں
غرور؎ تشنگی سے رفتہ رفتہ
بجائے خود سمدر ہو گیا ہوں
بہت کم تھا میں اپنی آگہی سے
سو اب اپنے برابر ہو گیا ہوں
مجھے پا نا بھت مشکل تھا لیکن
تیرے غم کو میسر ہو گیا ہوں
وہ دامن شایدآجائے میسر
سراپا دیدہ؎ تر ہو گیا ہوں
کسی نے جس کو دیکھا ہی نہیں ہے
میں وہ نا دیدہ منظر ہوگیا ہوں