دلِ مضطر کو سمجھایا بہت ہے
مگر اس دل نے تڑپایا بہت ہے
تبسم بھی، حیا بھی، بے رخی بھی
یہ اندازِ ستم بھایا بہت ہے
قیامت ہے یہ ترکِ آرزو بھی
مجھے اکثر وہ یاد آیا بہت ہے
رہِ ہستی کے اس جلتے سفر میں
تمہاری یاد کا سایہ بہت ہے
~“She said, Never forget me
as if the coast
could forget the ocean
or the lung
could forget the breath
or the earth
could forget the sun,”~