کچھ لوگ انتظار کی شدت سے تنگ آ کر چراغِ آ رزو بجھا دیتے ہیں۔ وہ امید سے نکل کر مایوسی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی پر بھروسہ نہیں کرتے۔ انھیں اپنے نصیب پر بھی بھروسہ نہیں رہتا۔ وہ گلہ کرتے ہیں، شکایت کرتے ہیں، مایوسیاں پھیلاتے ہیں۔ انہیں شبِ فرقت کی تاریکی تو نظر آتی ہے، اپنے دل کا نور نظر نہیں آتا۔ وہ جس خوبی کا انتظار کرتے ہیں، اسے نا خوب کہنے لگ جاتے ہیں۔ وہ جدا ہونے والے محبوب کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح اپنی شبِ انتظار کو کم نصیبی سمجھ کر بے حس اور جامد ہو جاتے ہیں۔ ظاہر سے محروم ہو کر وہ باطن سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور اس طرح دل کی بردباری ہستی کی بردباری بن کر انہیں تباہی کی منزل تک لاتی ہے۔
واصف علی واصف
~“She said, Never forget me
as if the coast
could forget the ocean
or the lung
could forget the breath
or the earth
could forget the sun,”~