گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اِتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
میں اِسے شُہرت کہوں یا اپنی رُسوائی کہوں
مُجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے
وحشتیں کُچھ اِس قدر اپنا مُقدّر ہوگئیں
ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ وِیرانے گئے
یُوں تو وہ میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدِیک تر
آنسُوؤں کی دھُند میں لیکِن نہ پہچانے گئے
اب بھی اُن یادوں کی خوشبو ذہن میں محفُوظ ہے
بارہا ہم جِن سے گُلزاروںکو مہکانے گئے
کیا قیامت ہے کہ خاطرؔ کُشتۂ شب ہم ہی تھے
صُبح جب آئی تو مُجرِم ہم ہی گردانے گئے