MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community - View Single Post - نصیب
Thread: نصیب
View Single Post
(#4)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: نصیب - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-31-2012, 03:01 AM

مسجد حرام کے باہر بہت سے بھکاری بھیک مانگ رہے تھے، مگر جیسے ہی انہوں نے پولیس اہلکاروں کو دیکھا تو فوراً دوڑ لگا دی، ان میں سے جو بھکاری پولیس کے ہتھے چڑھے انہوں نے انہیں گاڑیوں میں بٹھا لیا۔ سیٹھ اخلاق ارد گرد سے بے خبر نوٹ ترتیب دینے میں مشغول تھا،کچھ نوٹ اس کی جھولی میں تھے اور کچھ ہاتھوں میں، پولیس نے اسے بھی بھکاری سمجھا اور پکڑ لیا۔
پولیس اہلکاروں نے سیٹھ اخلاق کو بھکاری سمجھ کر گرفتار کیا تھاجبکہ سیٹھ اخلاق کو صورت حال سے ذرا سی بھی آگاہی نہ تھی، وہ اپنی زبان میں اپنی بے گناہی پر زور دیتا رہا مگر اس کی کوئی بات پولیس اہلکاروں کے پلے نہیں پڑ رہی تھی، یوں بھی پولیس اہلکار اس کی کوئی بات سننا بھی نہیں چاہ رہے تھے، انہوں نے اسے زبردستی گاڑی میں بٹھایا اور پولیس اسٹیشن لے گئے، وہاں پہنچتے ہی انہوں نے اس کی جیبوں سے تمام کاغذات، نقدی اور موبائل وغیرہ نکال کر اپنے قبضے میں کر لیے۔
سیٹھ اخلاق عربی زبان سے نا آشنا تھا ،جس وجہ سے اسے اپنا مدعا بیان کرنے میں دشواری پیش آ رہی تھی، لیکن اس کے باوجود وہ چلائے جا رہا تھا….. ’’ میں کوئی معمولی آدمی نہیں ، کروڑوں روپے کا کاروبار کرتا ہوں، جائیداد، بینک بیلنس، گاڑیاں ، کیا کچھ نہیں ہے میرے پاس، میں تو خو د بھکاریوں میں خیرات تقسیم کرتا پھرتا ہوں، میں بھلا کیوں بھیک مانگوں گا ….. ‘‘
اس کے چیخنے چلانے پر پولیس اہلکاربھی کچھ کہتے مگر ان کی کوئی بات سیٹھ اخلاق کی سمجھ میں نہ آتی اور وہ پھر سے چلا چلا کر اپنی بے گناہی کا اعلان کرنے لگتا، جن بھکاریوں کو پولیس اہلکار سیٹھ اخلاق کے ساتھ پکڑ کر لائے تھے، وہ سبھی خاموشی سے حوالات میں جا بند ہوئے تھے مگر سیٹھ اخلاق مسلسل چیخ و پکار کر رہا تھا، اچانک اس کی نظر پولیس آفیسر کے میز پڑے ہوئے فون پر پڑی تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے پولیس اہلکاروں سے فون کرنے کی اجازت طلب کی، جس کے لیے وہ بمشکل رضامند ہوئے۔
سیٹھ اخلاق نے اپنے ایک قریبی دوست کا نمبر ملایا اور اسے صورت حال سے آگاہ کیا کہ کس طرح وہ لوگ غلط فہمی میں اسے بھکاری سمجھ کر پکڑ لائے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بات سیٹھ اخلاق کے دیگر دوست احباب تک بھی جا پہنچی ، تھوڑی ہی دیر میں سیٹھ اخلاق کے بہت سے دوست پولیس اسٹیشن آ پہنچے۔ ان کے پہنچنے سے قبل پولیس اہلکاروں نے زبردستی گھسیٹتے ہوئے سیٹھ اخلاق کو حوالات کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا تھا۔
سیٹھ اخلاق کے سبھی دوست اور دیگر پاکستانی ساتھی پولیس اہلکاروں اور افسران کو یہ بات بتاتے رہے کہ وہ شخص تو خود ایک بڑا کاروباری ہے اور ہر سال حج کی ادائیگی کے لیے بھی آتا ہے، لیکن پولیس اہلکاروں کا کہنا تھاکہ وہ ان کی بات کیسے مان لیں جبکہ انہوں نے جب اسے گرفتار کیا، اس وقت اس کے ہاتھوں اور جھولی میں نوٹ موجود تھے۔
جب یہی بات سیٹھ اخلاق سے پوچھی گئی تو اس نے بتایا کہ وہ تو وہاں بیٹھا اپنی جیبوں سے نوٹ نکال کر انہیں ترتیب دے رہا تھا اور پولیس اہلکار اسے بھکاری سمجھ کر گرفتار کر لائے۔
حج کے لیے منٰی کو روانگی شروع ہو چکی تھی، سیٹھ اخلاق بدستور حوالات میں بند تھا، اس کے دوستوں نے اپنے تئیں بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح وہ حوالات سے باہر آ جائے اور فریضہ حج ادا کر لے مگر پولیس والوں نے کسی کی ایک نہ سنی اور بضد رہے کہ انہوں نے اخلاق کو دیگر بھکاریوں کے ساتھ گرفتار کیا ہے، وہ کسی بھی صورت میں اسے حج کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
مشتاق نے پروگرام کے مطابق اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ منٰی میں قیام کیااور اگلے روز فجر کی نماز کے بعد عرفات کو روانہ ہو گیا، جہاں سے نماز عصر کے بعد مزدلفہ کو روانگی ہوئی جہاں مغرب اور عشا ء کی نمازیں ایک ساتھ ادا کیں اور رات مزدلفہ میں قیام کیا، 10 ذی الحج کو فجر کی نماز کے بعد منٰی کو روانگی ہوئی، وہاں شیطان کی رمی کی ، قربانی دی اور بال منڈوائے، اگلے روز بھی چھوٹے ، درمیانے اور بڑے شیطان کو کنکریاں ماریں ۔ فرائض حج کی ادائیگی کے بعد مشتاق خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین شخص تصور کر رہا تھااور اٹھتے بیٹھتے زبان سے خدا کا شکر ادا کر رہا تھا۔
سیٹھ اخلاق کے دوستوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح اسے حج کی اجازت مل جائے مگر کسی بھی طرح بات نہ بنی تاہم بمشکل پولیس والے اس بات پر راضی ہو گئے کہ حج کے بعد اخلاق کی جس پرواز سے واپسی تھی، اسی پر اسے واپس پاکستان بھجوا دیں گے۔ سیٹھ اخلاق کو اس بات کا تو دکھ تھا ہی کہ وہ حج کرنے آیا مگر حج نہ کر سکا، ساتھ ہی اسے اس بات پر بھی شرمندگی ہو رہی تھی کہ اسے حوالات میں بھی بند رہنا پڑا۔
حج پروازوں کی واپسی شروع ہوئی تو سیٹھ اخلاق کو مقررہ دن حوالات سے باہر نکالا گیا، اس کا تمام سامان پہلے سے ہی ہوٹل سے منگوا لیا گیا تھا، اسے چند پولیس اہلکاروں کی زیر نگرانی جہاز میں سوار کروادیا گیا۔ سیٹھ اخلاق کے اہل خانہ اور دوست احباب اس بات سے لاعلم تھے کہ وہ نہ صرف فریضہ حج کی ادائیگی سے محروم رہابلکہ کچھ روز حوالات میں بھی گزارنا پڑے، وہ سب مقررہ وقت پر ہاتھوں میں پھولوں کے ہار اور گلدستے لیے ائر پورٹ پہنچ گئے۔
سیٹھ اخلاق سامان ٹرالیوں میں رکھے ائر پورٹ سے باہر آیا تو اس کے اہل خانہ اور ملنے ملانے والوں نے اس کا پُرجوش استقبال کیا، اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں اور گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے گئے، ہر کوئی اسے سینے سے لگا کر خوش دلی سے مل رہا تھاجبکہ سیٹھ اخلاق اصل حالات سے آگاہ تھااس لیے بجھا بجھاتھا اور سب کو بے دلی سے مل رہا تھا۔
مشتاق نے اپنے آنے کی اطلاع کسی کو نہیں دی تھی، وہ خاموشی سے اپنا مختصر سامان ہاتھوں میں لیے اپنے گھر پہنچ گیا، رات گئے تک اس کے بہت سے محلے دار اسے حج کی مبارک باد دینے اس کے ہاں آتے رہے اور وہ ہرآنے والے کو آبِ زم زم پلا کر دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتا رہا۔
مشتاق نے ایک دو روز گھر میں آرام کیااور پھر ڈیوٹی پر روانہ ہو گیا،دفتر میں بھی اس کا پہلا دن مبارک بادیں وصول کرتے ہوئے گزر گیا۔ اس نے پہلے سے دل میں پروگرام طے کر رکھا تھاکہ دفتر سے واپسی پر وہ اپنے دوست سیٹھ اخلاق سے ملنے جائے گا اور اسے حج کی مبارک باد دے کر آئے گا، وہ سٹور میں داخل ہوا تو حسبِ سابق سیٹھ اخلاق گاہکوں سے نوٹ لے لے کر سلوکے کی جیبوں میں ڈال رہا تھا، ذرا فرصت ہوئی تو مشتاق نے آگے بڑھ کر سیٹھ اخلاق کو گلے لگا لیااور حج کی مبارک باد دی مگر اس نے کسی گرمجوشی کا مظاہرہ نہ کیا، مشتاق اسے مل چکا تو ایک بار پھر اپنی بانہیں پھیلا دیں اور بولا ….. ’’ مجھے مبارک باد نہیں دو گے ….. ؟‘‘
’’ کس بات کی مبارک باد ….. ؟؟؟ ‘‘ سیٹھ اخلاق نے حیران ہو کر دریافت کیا۔
’’ بھئی خدا نے تمہارے اس مسکین سے دوست کو بھی حج کروا دیا ….. ‘‘
’’ تم سچ کہہ رہے ہو ناں …..؟ ‘‘
’’ ارے ہاں یار، ابھی تین روز قبل ہی تو واپس آیا ہوں ….. ‘‘
مشتاق کی بات سن کر سیٹھ اخلاق نے کھینچ کر اسے اپنے گلے لگا لیا، وہ دیر تک مشتاق کو سینے سے لگائے کھڑا رہا، پھر آہستہ سے اس کے کان میں سرگوشی کی ….. ’’ حج واقعی نوٹوں سے نہیں نصیبوں سے ہوتا ہے ….. ‘‘
مشتاق ، سیٹھ اخلاق کی بات کی گہرائی کو تو نہ سمجھ سکا مگر اس نے سیٹھ اخلاق کو پھر سے اپنے سینے سے چمٹا لیا۔