|
|
Posts: 32,565
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender:
|
|
ذرا فرصت ہوئی تو مشتاق سامان کا شاپر ہاتھوں میں لیے سیٹھ اخلاق کے پاس جا کھڑا ہوا، سیٹھ اخلاق نے بھی اسے دیکھ لیا تھا مگر وہ اسے کوئی توجہ دیے بغیر نوٹوں کی گنتی میں لگا رہا۔
’’ الحاج سیٹھ اخلاق احمد صاحب….. اسلام علیکم ….. ‘‘ مشتاق نے سیٹھ اخلاق کے کان کے قریب جا کر زور دار آواز میں سلام کیا۔
مشتاق کی بات سن کر سیٹھ اخلاق نے نوٹ گنے بغیر پھر سے جیبوں میں ٹھونس لیے اور بولا ’’ آؤ بھئی مشتاق….. کہو کیا حال ہے؟…..‘‘
’’ ارے ہم غریبوں کی کیا پوچھتے ہو، جیسے تیسے گزر رہی ہے….. تم اپنی سناؤ خوب نوٹ جمع ہو رہے ہیں ‘‘
’’ بس یار اوپر والے کی دین ہے…..کرم ہے میرے مولا کا …..پچیس تیس سال ہو گئے ہیں محنت کرتے ہوئے، وہ دے رہا ہے اور ہم لے رہے ہیں….. ‘‘
’’ کہتے تو تم ٹھیک ہو، یہ سب اوپر والے کی ہی مہربانیاں ہیں ….. ‘‘
’’ اسی لیے تو شکرانے کے طور پر ہر سال حج کر آتا ہوں….. ‘‘
’’ لگتا ہے اس سال بھی حج کی تیاری ہے ؟ ‘‘
’’ ہاں یار پروگرام تو ہے….. ویسے بھی تم تو جانتے ہو، سارا سال یوں تو فرصت نہیں ملتی، حج کے بہانے سیر سپاٹا بھی ہو جاتا ہے اور کچھ دن سکون کے بھی گزر جاتے ہیں….. ‘‘
’’ بڑے قسمت والے ہو یار، جو خدا تمہیں ہر سال اپنے گھر بلا لیتا ہے….. ‘‘
مشتاق کی بات سن کر سیٹھ اخلاق اکڑ کر بولا ’’ یہ قسمت کا نہیں نوٹوں کا کمال ہے میری جان، میرے پاس نوٹ ہیں تو میں ہر سال حج کر آتا ہوں، ورنہ حج محض قسمت سے ہوتا تو تم کیوں نہ چلے گئے، میں اس بار پھر رقم جمع کرو ا رہا ہوں اور حج کرنے چلا جاؤں گا….. تم قسمت کو پیٹتے رہنا….. ‘‘
سیٹھ اخلاق کی بات سن کر مشتاق کچھ کہنا چاہتا تھا مگر چند گاہک آ کھڑے ہوئے اس لیے وہ سیٹھ اخلاق کی بات کا کوئی جواب دیے بغیر باہر نکل آیا۔
وہ سائیکل کو پیڈل مارتا ہوا گھر کی طرف جارہا تھا اور دل میں سوچ رہا تھا کہ کہتا تو اخلاق بھی سچ ہے، بات تو واقعی دولت کی ہے ورنہ میں بھی حج کر آتا، نہ میرے کسی بڑے کو حج کرنا نصیب ہوا ، اور نہ کبھی مجھے ہو گا۔ اسے ریٹائرمنٹ پر جو رقم یکمشت ملنا تھی اس کے لیے بھی اس نے پہلے سے سوچ رکھا تھاکہ اس سے وہ اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر دے گا۔ مشتاق کے والدین بھی دل میں یہ حسرت لیے دنیا سے رخصت ہو گئے کہ وہ بھی زندگی میں ایک بار خانہ خدا پر حاضری دے آئیں، انہوں نے کئی بار مشتاق سے بھی اپنی اس خواہش کا اظہار کیا مگر وہ کبھی کچھ نہ کر پایا، مشتاق جس محکمے میں ملازم تھا ،چاہتا تو لاکھوں کما سکتا تھا اور والدین کو ایک چھوڑکئی حج کروا سکتا تھا، مگر اس کو والدین کی طرف سے ہمیشہ یہی نصیحت تھی کہ کبھی حرام کی کمائی پر نظر نہیں رکھنی، ہمیشہ حق حلال کی روزی بچوں کے منہ میں ڈالنی ہے، مشتاق نے اپنے بزرگوں کی یہ نصیحت پلے باندھ رکھی تھی لیکن جب کبھی اپنے ساتھیوں کی عیاشیاں دیکھ کر اس کا ایمان ڈگمگانے لگتا، وہ گھڑیاں اس کے لیے بہت کٹھن ہوتیں،وہ کئی کئی دن پریشان رہتا مگر پھر خود کو سمجھا بجھا کر اپنی پرانی روش پر چل پڑتا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
جو سالن رات کو پکا تھا وہ رات کو ہی ختم ہو گیا تھا، مشتاق کا پروگرام تھا کہ بازار سے دہی لے آئے اور دہی کے ساتھ روٹی کھا کر اپنے دفتر روانہ ہو جائے، وہ ہاتھوں میں دہی کا برتن لیے خراماں خراماں جا رہا تھا، اسے وقت پر دفتر پہنچنے کے لیے صبح گھر سے جلدی نکلنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے اس کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی تھی۔ وہ جمائیاں لیتاہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک ملک صاحب نے اس کا راستہ روک لیا۔
ملک صاحب اسی علاقے میں رہتے تھے مگر ان کی مشتاق سے کوئی شناسائی نہ تھی، ملک صاحب نے اپنے والد کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کرنے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے مگر ان کے والد اچانک بیمار پڑ گئے اور پھر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ملک صاحب کو اس بات کا دلی دکھ تھا کہ ان کے والد حج ادا کرنے کی خواہش دل میں ہی لیے دنیا سے چلے گئے، ملک صاحب اپنے باپ کے بدل کے طور پر کسی اور کو اپنے ہمراہ حج کے لیے لے جانا چاہتے تھے مگر انہیں ڈر تھا کہ اگر وہ رشتے داروں میں سے کسی کو لے گئے تو رشتے داروں میں رنجشیں پیدا ہو جائیں گی اور خوا مخواہ کی بدمزگی ہو گی۔
ملک صاحب نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا اور یہ کہہ کر گھر سے نکل پڑے کہ انہیں راستے میں جو بھی کوئی شریف آدمی نظر آیاوہ اسے اپنے ساتھ حج پر لے جائیں گے، جب ملک صاحب کی نظر مسکین صورت مشتاق پر پڑی تو انہوں نے اس سے بات کرنے کا ارادہ کر لیا۔
ملک صاحب راستہ روکے کھڑے تھے اور مشتاق حیران و پریشان کھڑا سوچ رہا تھا کہ ایک اجنبی شخص اس کے راستے میں کیوں آ کھڑا ہوا، اس سے پہلے کہ وہ کوئی سوال کرتا ، ملک صاحب کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ….. ’’ میرے ساتھ حج کرنے چلو گے ….. ؟ ‘‘
مشتاق کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا، صبح سویرے اٹھنے سے اس کی آنکھوں میں جو نیند بھری ہوئی تھی وہ فوراً اڑ گئی اور اس نے بے یقینی کے عالم میں دریافت کیا ….. ’’آپ نے مجھ سے کچھ کہا ….. ؟ ‘‘
’ ہاں ….. میں تم سے ہی بات کر رہا ہوں، مجھے ملک اللہ داد کہتے ہیں اور میں ساتھ والی گلی میں رہتا ہوں ، اس سال میں اور میرے والد حج کے لیے جا رہے تھے کہ اچانک والد صاحب کو موت نے آ گھیرا، میں گھر سے یہ سوچ کر نکلا تھا کہ جو بھی مجھے معقول شخص نظر آئے گا میں اسے اپنے ساتھ حج پر لے جاؤں گا ، اب تم مل گئے ہو، سوچتا ہوں تمہیں ہی اپنے ساتھ لے چلوں ….. ‘‘
’’ مم …..مم….. میں….. اور حج ….. ‘‘
’’ ہاں ہاں….. اس میں ایسی کون سی بات ہے، تم ابھی میرے ساتھ چلو اور میرا گھر دیکھ لو پھر وقت نکال کر میرے پاس آ جاناتاکہ جتنی جلدی ہو سکے میں تمہارے تمام کاغذات وغیرہ تیار کروا لوں ….
|