نصیب
روز کی طرح بہت سے گاہک سپر سٹور میں خریداری کے لیے آئے ہوئے تھے، کچھ خریدار اپنی اپنی ضرورت کی اشیا ء مختلف خانوں سے اٹھا کر ٹرالیوں میں ڈال رہے تھے اور کچھ کاؤنٹر پر بل بنوا کر ادائیگی کر رہے تھے، سیٹھ اخلاق ایک ایک سے رقم وصول کرتا جاتا او ر نوٹ سلوکے کی جیبوں میں ٹھونستا جاتا۔
سیٹھ اخلاق چھوٹی سی کریانے کی دکان سے بہت بڑے سپر سٹور کا مالک بن گیا تھا، کئی دکانیں اور مکان اس کی ملکیت تھے جو اس نے کرائے پر دے رکھے تھے ، مگر اب بھی اس کی وہی پرانی عادت تھی کہ نوٹ پکڑ پکڑ کر سلوکے کی جیبوں میں ڈالتا جاتا ، پھر جب ذرا فرصت ملتی تو نوٹ جیبوں سے نکا ل کر انہیں ترتیب دے کر سیدھے کرتا اور گن کر تجوری میں رکھ کر تالہ لگا دیتا، یوں دن میں کئی کئی بار وہ سلوکے کی جیبوں سے نوٹ نکالتا اور گنتا۔ کئی بار وہ بلا وجہ محض عادتاً نوٹ جیبوں سے نکال کر چھوٹے بڑے نوٹوں کو ترتیب دینے لگتا، اگر رقم زیادہ ہوتی تو تجوری میں رکھ دیتا ورنہ واپس جیبوں میں ڈال لیتا۔
گاہک باری باری اپنا سامان شاپروں میں ڈلوا کر ادائیگی کر رہے تھے، مشتاق بھی چند چیزیں ٹوکری میں ڈالے کھڑا تھا، وہ یوں تو مہینے بھر کا سودا تنخواہ ملتے ہی ایک بار ہی لے جاتا مگر پھر بھی کوئی نہ کوئی ضرورت کی چیز لینے ہفتے دس دن میں ایک آدھ چکر وہاں ضرور لگا لیتا۔
اخلاق اور مشتاق دونوں ہم جماعت تھے اور میٹرک تک سکول میں اکھٹے پڑھے تھے، میٹرک کے امتحان میں ناکامی کے بعد، اخلاق نے اپنے محلے میں ہی کریانے کی دکان ڈال لی تھی ، جو چل نکلی، مگر مشتاق نے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا اور انٹر کے بعد سرکاری محکمے میں کلرک کی نوکری کر لی۔ مشتاق کلرک سے ہیڈ کلرک بن گیا تھااور اپنے پرانے مکان میں بیوی بچوں کے ساتھ سر چھپائے بیٹھا تھا، جبکہ اخلاق کا کاروبار خوب چمک اٹھا تھا اور وہ کہاں سے کہاں جا پہنچا تھا۔ اس نے محلے کی تنگ و تاریک گلیوں کو خیرباد کہہ کر ڈیفنس میں خوبصورت اور عالیشان بنگلہ بنا لیا تھا اور ایک بڑا ڈیپارٹمینٹل سٹور چلا رہا تھا، اس کی دولت اور کاروبار نے ہی اسے اخلاق سے سیٹھ اخلاق بنا دیا تھا۔
مشتاق گھر کے لیے ضرورت کی چھوٹی موٹی اشیا ء محلے ہی کی کسی دکان سے با آسانی لے سکتا تھا مگر اس کی کوشش ہوتی کہ وہ ضرورت کی ہر چیز سیٹھ اخلاق کے ہاں سے خریدے، یوں بھی سپر سٹور اس کے راستے میں ہی پڑتا تھا، اس لیے وہ دفتر سے واپسی پر وہاں سے خریداری کرتا ہوا گھر کی راہ لیتا، اسی بہانے دوست سے ملاقات بھی ہو جاتی اور اگر سیٹھ اخلاق کو فرصت ہوتی تو گپ شپ کے ساتھ ساتھ چائے بھی مل جاتی، گوکہ وہ دونوں ہم عمر تھے مگر ان کی صحت اور ظاہری شکل و صورت دیکھ کر کوئی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا تھاکہ وہ کبھی ہم جماعت رہے ہوں گے۔
مشتاق کو غربت و تنگدستی اور ذمہ داریوں نے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا، اس کے سر کے زیادہ تر بال سفید ہو گئے تھے، اس کی بیوی اسے زور دے کر کہتی کہ وہ بالوں کو رنگ لیا کرے مگر وہ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیتا ’’ خوامخواہ چالیس بچاس روپے خرچہ بڑھ جائے گا، وہی پیسے بچوں کے کسی کام آ جائیں گے ‘‘ ۔ مشتاق کے برعکس اخلاق اپنی صحت کے لحاظ سے اپنی عمر سے بہت کم دکھائی دیتا تھا، گو کہ مسلسل کئی کئی گھنٹے ڈیوٹی کرنے سے اس کا پیٹ نکل آیا تھامگر بوڑھاپے میں قدم رکھنے کے باوجود بوڑھاپا اسے چھو کر بھی نہیں گزرا تھا