|
|
|
Posts: 32,565
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender:
|
|
|
بعض روایتوں میں ان سے ایک مرثیہ بھی منسوب ہے جو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر کہا۔ اس مرثیہ میں وہ کہتی ہیں:
’’آسمان غبار آلود ہو گیا۔ آفتاب لپیٹ دیا گیا۔ دنیا میں تاریکی ہو گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زمین نہ صرف غمگین ہے بلکہ فرط الم سے شق ہو گئی ہے۔ ان پر قبیلہ مضر کے لوگ اور تمام اہل یمن روتے ہیں۔ بڑے بڑے پہاڑ اور محلاّت روتے ہیں۔ اے خاتم رسل، خدا آپ پر رحمت نازل فرمائے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیزوتکفین کے بعد صحابیات اور صحابہ کرام تعزیت کیلئے ان کے پاس آتے تھے لیکن ان کو کسی پہلو قرار نہ آتا تھا۔ تمام کرب سیئر متفق ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کسی نے حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضور کی میراث کا مسئلہ پیش ہوا۔ فَدَک ایک موضع تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو اس شرط پر دے رکھا تھا کہ جو پیداوار ہو نصف وہ رکھیں اور نصف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دیا کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حصے میں سے کچھ اپنے اہل وعیال کے خرچ کیلئے رکھ لیتے اور باقی مسافروں اور مساکین پر صرف کر دیتے تھے۔ حضرت فاطمہ الزّہرا کو بعض لوگوں نے بتایا کہ فَدَک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی مِلک تھا اور آپ اسکی وارث ہیں چانچہ انہوں نے خیلفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس فَدَک کی وراثت کا دعویٰ کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’اے فاطمہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزّہ کو اپنے اعزّہ سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ انبیائے کرام جو متروکہ چھوڑتے ہیں وہ کُل کا کُل کا صدقہ ہوتا ہے اور اس میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔ اسلئے میں اس جائداد کو تقسیم نہیں کرسکتا البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اقدس میں اہل بیت اس سے جو استفادہ کرتے تھے وہ اب بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
|