|
|
|
Posts: 32,565
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender:
|
|
|
’’اے غازیانِ دین! جنّت الفردوس تمہارا انتظار کر رہی ہے اور پیچھے ہٹنے والوں کیلئے جہنّم کے شعلے دہک رہے ہیں۔ آگے بڑھو اور رضائے الٰہی کو پالو۔‘‘
مسلمانوں نے اب کمر سے کمر جوڑلی اور ایک نئے عزم اور ولولےکے ساتھ حملہ شروع کیا۔ لڑتے لڑتے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں اور بالآخر غازیان دین کی بے پناہ شجاعت نے اپنے سے چالیس گنا جمیعت کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ غنیم کے پسپا ہوجانے کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ لشکرِ اسلام کو نہایت وقار کے ساتھ بچا کر واپس لے آئے۔ جس وقت لڑائی کی آگ زور سے بھڑک رہی تھی، اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ کا نقشہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام کو لڑائی کے حالات اسطرح بتا رہے تھے گویا وہ بالکل آپ کے سامنے ہو رہی ہے جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے دونوں بازو شہید ہو گئے اور انہوں نے جام شہادت پیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور آپ نے فرمایا: ’’ میں جنّت میں حضرت جعفر رضی اللہ کو دو نئے بازوؤں کے ساتھ پرواز کرتے دیکھ رہا ہوں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق حضرت جعفر ’’طیّار‘‘ اور ’’ذولجناحین‘‘ کے القاب سے مشہور ہوئے۔ اس کے بعد جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے علم سنبھالا ہے۔‘‘ چنانچہ اس دن سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سیف اللہ کے خطاب سے پکارے گئے۔‘‘
|