|
|
|
Posts: 32,565
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender:
|
|
|
سنہ 8 ہجری میں شام کے ایک قصبہ موتہ کے رئیس شرجیل بن عمرو غسانی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر حضرت حارث بن عمیر ازدی کو شہید کر دیا جو حضور صلی اللہ علیہ وسل کا نامہ مبارک لے کر حاکم بُصریٰ حارث بن شمر غسانی کو پہنچانے جا رہے تھے۔ شرجیل کی یہ حرکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناگوار گزری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کیلئے تین ہزار مجاہدین کا ایک لشکر مُوتہ کی جانب روانہ کیا۔ اس لشکر کہ قیادت حِبّ النّبی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کر رہے تھے اور اس میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو رخصت کرتے وقت فرمایا:’’ اگر لڑائی میں زید شہید ہو جائیں تو جعفر امیر ہونگے، اگر جعفر بھی شہادت پا جائیں تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ان کی جگہ لیں گے۔‘‘
مؤتہ کے علاقے میں ان دنوں اتفاق سے ہرقل شاہ روم بھی آیا ہوا تھااور بلقا میں مقیم تھا۔ شرجیل نے اس سے مدد مانگی۔ ہرقل نے ایک بھاری لشکر اسکی مدد کیلئے بھیج دیا۔قیس، جذام، لحم وغیرہ کے جنگجو عیسائی قبائل بھی شرجیل کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے، اسطرح تین ہزار مسلمانوں کے مقابلے میں دشمن کی تعداد ایک لاکھ سے بھی اوپر تھی۔ مؤتہ مدینہ منورہ سے بہت دور تھا اسلیے مزید کمک طلب کرنا ممکن نہ تھا اور پیچھے ہٹنا باعث ننگ، مسلمان اللہ کے بھروسے پر غنیم کے ٹڈی دل سے نبرد آزما ہوئے۔مؤتہ کے میدان میں نہایت خونریز جنگ ہوئی۔ امیر لشکت حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالا اور اس جرأت اور پامردی سے لڑے کہ شجاعت بھی آفرین پکار اٹھی۔ تقریباً نوّے زخم اس مردِ حق نے اپنے بدن پر کھائے جن میں کوئی بھی پشت پر نہ تھا۔ ایک ہاتھ قلم ہو گیا تو دوسرے ہاتھ سے علم کو سنبھالا، دوسرا ہاتھ شہید ہوا تو دانتوں میں علم پکڑ لیا۔ دشمن کا ہر طرف سے نرغہ تھا، تیروں اور تلواروں کی بارش ہو رہی تھی۔ آخر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بازو اور دینِ حق کا یہ سچا علمبردار شہید ہو گیا۔ اب علم حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے سنبھالا، وہ بھی داد شجاعت دے کر شہید ہوئے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالا اور مسلمانوں کو للکار کر کہا:
|