اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی
صبح ہوتے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ
گٹھڑیاں سر پہ اُٹھائے ہوئے ایمانوں کی
اپنی پوشاک سے ہشیار کہ خدام ِ قدیم
دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی
سلطنیں پھیلتی جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ
سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی
اُن کو کیا فکر میں پار لگا یا ڈوبا
بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی
مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند
کس قدر اوج پہ تکریم ہے انسانوں کی
تیری رحمت تو مسلم ہے مگر یہ تو بتا
کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی
ابھی تکمیل کو پہنچا نہیں ذہنوں کا گداز
ابھی دنیا کو ضرورت ہے غزل خانوں کی
I'M Not Really A BaD InfLuence
But IN YouR CasE I'LL MaKe n EXCETION