|
|
|
Posts: 32,565
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender:
|
|
|
22 ۔ یہ بات نبی کی بشری حیثیت کے پیش نظر کہی گئی ہے ورنہ نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ وحی الہٰٓی کے کسی حصہ کو ترک کر دے ۔ اس ارشاد سے مقصود دراصل مخالفت کی اس شدت کو واضح کرنا ہے جس کا سامنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرنا پڑ رہا تھا مخالفتوں کے اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر معمولی حوصلہ کی ضرورت تھی ایسے موقع پر یہ ارشاد کہ کہیں وحی الہٰی کی کسی ہدایت کو تم نہ ترک کر دو ایک تاکیدی حکم ہے جس سے مقصود ظاہری احتمالات سے نبی کو آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ پورے عزم اور حوصلہ کے ساتھ فریضہ رسالت کو ادا کرنے لگ جاۓ۔
23 ۔ جو لوگ قرآن کو کتاب الٰٓہی تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تصنیف قرار دے رہے تھے ان کو قرآن نے چیلنج کیا کہ وہ بھی اس جیسا کلام پیش کریں ۔ یہ چیلنج قرآن میں متعدد مقامات میں کیا گیا ہے ۔ اس آیت میں دس سورتیں بنا کر لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور جب اس مطالبہ کو وہ پورا نہ کرسکے تو سورہ یونس آیت 38 میں اور پھر سورہ بقرہ آیت 23 میں ایک سورہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ساتھ ہی چیلنج کیا گیا کہ وہ اس کام میں مدد کے لیے اپنے خود ساختہ معبودوں کو بلائیں کیونکہ جب قرآن اللہ کے سوا تمام معبودوں کو باطل قرار دیتا ہے تو ان معبودوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ واقعی خدا ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہیے کہ اس معاملہ میں اپنے پرستاروں کی مدد کریں تاکہ قرآن کے کلام الٰٓہی ہونے کا دعویٰ نیز اس کی دعوت توحید غلط ثابت ہو جاۓ لیکن جب پوری قوم مل کر بھی قرآن کی کوئی نظیر نہ پیش کرسکی اور ان کے معبود بھی ان کی مدد کو نہ پہنچ سکے تو ثابت ہو گیا کہ قرآن انسان کا کلام نہیں بلکہ کلام الٰٓہی ہے ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک آدمی کے پیش کردہ کلام کا ایک حصہ تک پیش کرنے
|