حضرت عمررضی اللہ عنہ کی بیوی (عاتکہ) کہتی ہیں کہ: عمررضی اللہ عنہ بستر پر سونے کیلئے لیٹتے تھے تو نیند ہی اُڑ جاتی تھی، بیٹھ کر رونا شروع کر دیتے تھے۔
میں پوچھتی تھی: اے امیر المؤمنین، کیا ہوا؟
وہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے: مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی خلافت ملی ہوئی ہے، اور ان میں مسکین بھی ہیں ضعیف بھی ہیں یتیم بھی ہیں اور مظلوم بھی، مجھے ڈر لگتا ہے اللہ تعالیٰ مجھ سے ان سب کے بارے میں سوال کریں گے۔
******
مدینہ میں آئے قحط کے سال (عام الرمادہ) کے دوران، ایک بار منبر پر کھڑے ہوئے تھے کہ اپنے پیٹ سے گُڑگُڑ کی آواز آئی، پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: چاہے گُڑگُڑ کر یا گُڑگُڑ نا کر، اللہ کی قسم تجھے اس وقت تک نہیں بھرونگا جب تک مسلمانوں کے بچوں کے پیٹ نہیں بھر جاتے۔
******
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک ایسے خیمے سے گزر ہوا جس میں ایک عورت نے ابھی ابھی بچے کو ولادت دی تھی اور اُسکے اور بھی بچے تھے جبکہ اُسکا خاوند وفات پا چُکا تھا۔ حالات کا علم ہونے پر فوراً بیت المال تشریف لے گئے اور وہاں سے تیل اور آٹا لیکر واپس آئے، آگ جلا کر رات کا کھانا بناکر اُن سب کو پیش کیا۔
عورت نے کہا: اللہ کی قسم، تم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے بہتر ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ قول پڑھتے ہوئے (أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ)(دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے) رو پڑے اور کہا:میرے پاس تو کُچھ بھی نہیں بچا ہوا، اور اگر کسی کی کوئی چیز میرے پاس رہتی ہو تو مجھ سے آ کر طلب کر لے۔
******