ئی دکھ اور چپ کے بنیادی رنگوں سے قدرت ایک فن کار تخلیق کر رہی تھی۔
پتہ نہیں کن وجوہات کی بنیاد پر اشفاق احمد کی شخصیت میں ہفت رنگی عناصر پیدا ہو چکے تھے۔ ایک بے نیاز صوفی بابا۔ رکھ رکھاءو سے سرشار۔ ایک دنیا دار خودنمائی سے بھرپور ایک خاتون۔ پتھر کا بولتا ہوا ایک دیوتا۔ دوسروں کو نصیحتیں کرنے پر پھبتیاں کسنے والا ایک تلقین شاہ۔ اپنی منوانے والا گھر کا مالک۔ سن کر جذب کر لینے والا ایک عظیم کان۔
اشفاق کے والد ایک عظیم شخصیت تھے۔ اتنی عظیم کہ انھوں نے گھر کے تمام افراد کو کبڑا بنا رکھتا تھا۔ جب یہ گلیور گھر ہوتا تو کسی کو دم مارنے کی اجازت نہ ہوتی۔ گھر سے باہر ہوتا تو دھما چوکڑی مچ جاتی۔
بیگم اس سوچ میں کھوئی رہتی کہ عجز و ادب احترام اور دنیا داری کا کون سا نیا مرکب ایجاد کیا جائے جس کے زور پر ظل الٰہی کو ڈھب پر لایا جا سکے۔
خان منزل میں صرف پٹھان خصوصیات کی قدرو منزلت تھی۔ چونکہ اشفاق ان خصوصیات سے محروم تھا۔ اس لئے گھر میں وہ سب سے چھوٹا بالشتیا تھا۔