جمع لگاتا۔ تھیلے سے رنگین باتوں کے جال نکالتا۔ گنگناتا، گاتا، ڈرامے کھیلتا۔ قہقہے لگاتا۔ خودناچتا دوسروں کو نچاتا۔ لیکن یہ دور زیادہ دیر کے لئے نہیں چلتا تھا۔ اس کے بعد وہی جزیرہ وہی ہو حق۔ وہی دکھ وہی چپ وہی تنہائی۔ وہی اشفاق احمد۔ اس زمانے میں اشفاق کی زندگی اس خاتون کی طرح گذر رہی تھی جو سارا دن ننگے سر ننگے پائوں ان دھلے منہ اور لت پت بال لئے دھوپ میں بیٹھی ہو، نسیان پانے میں لگی رہتی ہواور شام کو ہار سنگھار کرکے پسواج پہن کے طوائف بن جاتی ہو۔
پتہ نہیں فنکار کی تخلیق میں قدرت اس قدر اہتمام کیوں کرتی ہے۔ اپاہج بنا کر ناچنے کی انگیخت دیتی ہے۔ گونگا بنا کر باتوں کی پھلجڑی چلانے پر اکساتی ہے۔ پتہ نہیں قدرت ایسا کیوں کرتی ہے۔ مگر یقینا وہ ایسا کرتی ہے۔
اس زمانے میں ایک ویران نیم چھتی میں تنہائی دکھ اور چپ کے بنیادی رنگوں سے قدرت ایک فن کار تخلیق کر رہی تھی۔