![]() |
ریاض الصالحین باب 15-16
باب 16
سنت اور اس کے آداب کی حفاظت کرنے کا حکم: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ''رسول تمہیں جو دے اسے لے لو اور جس سے تمہیں روک دے اس سے رک جاؤ۔'' (سورة الحشر:7) اور فرمایا: ''وہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی خواہش سے نہیں بولتا، وہ تو وحی ہی ہے جو اس کی طرف نازل کی جاتی ہے۔" (سورة نجم آیات 3،4) اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا: ''کہہ دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو تم میری پیروی کرو، اللہ تمہیں اپنا محبوب بنالے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا'' (سورة آل عمران:31) اور فرمایا: ''یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔ اس شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے۔'' (سورة الأحزاب:21) اور فرمایا: ''تیرے رب کی قسم! لوگ مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تجھے اپنا حاکم (ثالث) نہ مان لیں پھر تیرے فیصلے پر وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور خوش دلی سے اسے تسلیم کرلیں۔'' (سورة النساء آیت 65) اور فرمایا: ''اگر کسی چیز کی بابت تمہارا آپس میں جھگڑا ہوجائے تو تم اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔'' (سورةالنساء:59) |
Re: ریاض الصالحین باب 15-16
علماء نے کہا کہ اس کے معنی ہیں کہ کتاب و سنت کی طرف لوٹاؤ (یعنی اس کی روشنی میں جائز اور ناجائز کافیصلہ کرو)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی یقیناً اس نے اللہ کی اطاعت کی۔'' (سورةالنساء:80) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''یقیناً آپ سیدھے راستے کی طر ف راہنمائی کرتے ہیں۔ (سورة الشوری:52) |
Re: ریاض الصالحین باب 15-16
اور فرمایا:
''آپ (رسول) کے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو اس امر سے ڈر جانا چاہیے کہ وہ کسی آزمائش سے دوچار نہ ہوجائیں یا انہیں کوئی دردناک عذاب نہ آپہنچے۔'' (سورة النور:63) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور حکمت کوجو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں۔'' (سورةالأحزاب :34) |
Re: ریاض الصالحین باب 15-16
حدیث نمبر 156
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میں جو باتیں تمہیں بیان کرنے سے چھوڑ دوں تو تم مجھے ان کے بارے میں (کرید کرنے سے) چھوڑ دو۔ اس لیے کہ تم سے پہلے لوگوں کو اسی چیز نے ہلاک کیا کہ وہ کثرت سے سوال کرتے تھے۔ اور اپنے انبیاء (علیہم السلام) سے اختلاف کرتے تھے۔ پس جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو تم اس سے اجتناب کرو اور جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اسے اپنی استطاعت کے مطابق بجا لاؤ۔'' (متفق علیہ) توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (25113۔ فتح) و مسلم(1337) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ |
Re: ریاض الصالحین باب 15-16
حدیث نمبر 157
حضرت ابونجیح عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہایت مؤثر اوربلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس سے دل ڈر گئے اور آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ ہم نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! یہ تو گویا الوداع کہنے والے کا وعظ ہے، لہٰذا آپ ہمیں وصیت فرمائیں۔" آپ نے فرمایا: ''میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اور سمع و طاعت (سننے و ماننے) کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تم پر کوئی غلام امیر مقرر ہوجائے اور تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت سا اختلاف دیکھے گا، پس تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین اور مہدیین کے طریقے کو لازم پکڑنا اور اسے داڑھوں سے مضبوطی سے پکڑلینا، دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا، کیونکہ دین میں ہر نیا کام گمراہی ہے۔'' (ابوداؤد، ترمذی۔ امام ترمذی نے کہا کہ حدیث حسن صحیح ہے) توثیق الحدیث: صحیح لغیرہ، أخرجہ أبو داود (4607) والترمذی (2676)، و ابن ماجہ (43'44) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ |
Re: ریاض الصالحین باب 15-16
حدیث نمبر 158
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جو انکار کردے۔'' پوچھا گیا: "اے اللہ کے رسول! کون انکار کرے گا؟" آپ نے فرمایا: ''جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے یقیناً (جنت میں جانے سے) انکار کردیا۔'' (بخاری) توثیق الحدیث:(24913،فتح) |
Re: ریاض الصالحین باب 15-16
حدیث نمبر 159
حضرت ابو مسلم، اور بعض نے کہا: ابو ایاس سلمہ بن عمرو اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے بائیں ہاتھ سے کھایا تو آپ نے فرمایا: ''اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔" اس نے کہا: "میں طاقت نہیں رکھتا، آپ نے فرمایا: ''تو طاقت نہ ہی رکھے۔'' اسے (دائیں ہاتھ سے کھانے سے) صرف تکبر نے روکا، پھر (اس کے بعد) وہ دائیں ہاتھ کو اپنے منہ تک نہیں اٹھا سکا۔ (مسلم) توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2021) |
Re: ریاض الصالحین باب 15-16
حدیث نمبر 160
حضرت ابو عبد اللہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''تم اپنی صفیں ضرور سیدھی اور درست کرلو۔ ورنہ اللہ تمہارے درمیان مخالفت پیدا فرمادے گا۔'' (متفق علیہ) اور مسلم کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو اس طرح برابر اور سیدھا فرماتے تھے کہ حتیٰ کہ ایسے معلوم ہوتا کہ اگر آپ ان کے ساتھ تیروں کو سیدھا فرما رہے ہیں۔ اور آپ صفیں سیدھی فرماتے رہے حتیٰ کہ آپ نے محسوس فرما لیا۔ کہ ہم نے آپ سے یہ مسئلہ سمجھ لیا ہے۔ پھر ایک روز آپ تشریف لائے اور (مصلے پر) کھڑے ہو گئے۔ قریب تھا کہ آپ تکبیر (اللہ اکبر) فرماتے، آپ نے اچانک ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ باہر نکلا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: ''اللہ کے بندو! تم اپنی صفیں ضرور سیدھی کرلو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف پید افرمادے گا۔'' (یعنی تمہارے چہروں کو بدل دے گا۔) توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2062۔207۔فتح) و مسلم (436) والروایة الثانیة عند مسلم (436)(128) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ |
Re: ریاض الصالحین باب 15-16
حدیث نمبر 161
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رات کے وقت مدینے میں ایک گھر اپنے مکینوں سمیت جل گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بارے میں بتایا گیا۔ تو آپ نے فرمایا: ''یہ آگ تمہاری دشمن ہے۔ لہٰذا جب تم سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو۔'' (متفق علیہ) توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (8511۔فتح) و مسلم (2016) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ |
Re: ریاض الصالحین باب 15-16
حدیث نمبر 162
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے جس ہدایت اور علم کے ساتھ مجھے بھیجا ہے، اس کی مثال بارش کی مانند ہے جو زمین پر برستی ہے۔ اس زمین کا کچھ حصہ تو اچھا تھا۔ اس نے پانی کو جذب کرلیا اور اس نے گھاس اور بہت سا سبزہ اگایا جبکہ اس زمین کا ایک حصہ سخت تھا، اس نے پانی کو اپنے اندر جذب تو نہیں کیا بلکہ روک لیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے لوگوں کو فائدہ پہنچایا، انھوں نے اس سے پیا پلایا اور کھیتوں کو سیراب کیا۔ اس زمین کا ایک ٹکڑا ایسا بھی تھا کہ وہ صرف چٹیل میدا ن تھا، وہ پانی روکتا تھا نہ گھاس اُگاتا تھا۔ پس یہ مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین میں سمجھ بوجھ حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے جس علم کے ساتھ مجھے معبوث فرمایا اس سے نفع اٹھایا، خود بھی اس علم کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور (یہ دوسری) مثال اس شخص کی ہے جس نے اس (ہدایت اور علم) کی طرف اپنا سر بھی نہیں اٹھایا (یعنی توجہ ہی نہیں کی) اور اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کو قبول بھی نہیں کیا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا۔'' (متفق علیہ) (فقہ) قاف کے پیش کے ساتھ مشہور ہے۔ بعض کے نزدیک قاف کے زیر کے ساتھ ہے اس کا معنی ہے کہ وہ فقیہ ہو گیا۔ توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1751۔فتح) و مسلم (2282) |
All times are GMT +5. The time now is 05:11 AM. |
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.