![]() |
اس شام وہ رخصت کا سماں یار رہے گا
اس شام وہ رخصت کا سماں یار رہے گا وہ شہر ، وہ کوچہ ، وہ مکاں یاد رہے گا وہ ٹیس کے ابھری تھی اِدھر یاد رہے گی وہ درد کے اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا ہاں بزم شبانہ میں ہمیں شوق جو اس دن ہم تو تری جانب نگراں یاد رہے گا کچھ میر کے ابیات تھے، کچھ فیض کے مصرے اک درد کا تھا جن میں بیاں*یاد رہے گا جاں بخش سی اک برگ گل تر کی تراوت وہ لمس عزیزِ دو جہاں یاد رہے گا ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے تو یاد رہے گا، ہمیں ہاں*یاد رہے گا |
Re: اس شام وہ رخصت کا سماں یار رہے گا
Buht Kho0b
|
Re: اس شام وہ رخصت کا سماں یار رہے گا
thanks
|
All times are GMT +5. The time now is 03:55 AM. |
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.