![]() |
ذہانتوں کو کہاں کرب سے فرار مل
ذہانتوں کو کہاں کرب سے فرار ملا جسے نِگاہ ملی اُس کو انتظار ملا وہ کوئی راہ کا پتھر ہو یا حسیں منظر جہاں سے راستہ ٹھہرا وہیں مزار ملا کوئی پکار رہا ہے کھلی فضاؤں سے نظر اُٹھائی تو چاروں طرف حصار ملا ہر ایک سانس نہ جانے تھی جستجو کس کی ہر ایک دیار مسافر کو بے دیار ملا یہ شہر ہے کے نمائش لگی ہوئی ہے کوئی جو آدمی بھی ملا بن کے اشتہار ملا |
Re: ذہانتوں کو کہاں کرب سے فرار مل
Buht Khub
|
Re: ذہانتوں کو کہاں کرب سے فرار مل
Thanks
|
All times are GMT +5. The time now is 05:30 PM. |
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.